- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
ملیریا کے اسباب، علامات اور علاج
’دل تجھے دینے کو جگر چاہیے‘۔
(جگر مرادآبادی)
دل میں خون جگر سے ہی پہنچتا ہے۔مادہ مچھر ’ اینوفیلیس ‘کے تھوک سے داخل کیا گیا مواد ’’پلازموڈیم فالسی پیرم‘‘ کا حملہ جگر پر ہوتا ہے۔ مرطوب مقامات اور پہاڑوں میں اس مچھر کی زیادہ مقدار ہوتی ہے، اس لیے وہاں کے باشندگان اس بخار میں زیادہ تر مبتلا ہوتے ہیں ۔ ان کے علاوہ وہ مقامات جہاں کوڑاکرکٹ زیادہ بکھرا رہتا ہے ، وہاں بھی اِن مچھروں کے علاوہ مکھیاں بھی کثرت سے پائی جاتی ہیں،جو مرض ہیضہ کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں۔
ملیریا کے اسباب: ملیریا بخار کا پیرازائیٹ مچھر کے تھوک میں سرایت ہوتا ہے۔جب یہ مچھر غذاء کے حصول کے غرض سے انسان کے جسم سے خون کھینچتی ہے تو دو صورتیں ہوتی ہیں:
1۔ اس شخص میں پیرازائیٹ داخل کرتی ہے۔
2۔ اگر پہلے ہی داخل ہوا ہو تو اس مچھر کے کاٹنے سے اس کے تھوک میں رہ جاتا ہے اور اس مچھر کو نقصان نہیں دیتا ، مگر جب یہ مچھرصحت مند شخص کو کاٹے تو اس میں منتقل ہو جاتا ہے۔
اس بخار کا سبب ’’پلازموڈیم فالسی پیرم‘‘ ہے۔ یہ پیرازائیٹ بذریعہ خون جگر تک پہنچتا ہے اور پرورش پاتاہے۔ پھر سرخ خلیات کو نقصان دیتا ہے، سرخ خلیات میں ہی یہ جراثیم اپنی تعداد بڑھا تے ہیں۔یہاں تک کہ حملہ شدہ سرخ خلیات پھٹ جاتے ہیں۔ جب یہ پھٹتے ہیں تو انسان کو تیز بخار، سردی وغیرہ محسوس ہوتی ہے۔یہ بخار زیادہ تر بچوں کو اس وجہ سے ہوتا ہے کہ شیریں غذاء کے استعمال کی وجہ سے ان کا خون بھی میٹھا ہوتا ہے، اور مچھر انھیں دیر تک اور زیادہ کاٹتے ہیں۔ بوڑھوں کو اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ان کی مدافعتی قوت کمزور ہوتی ہے لہذا جلدی جراثیم کا حملہ ہوتا ہے۔ جن علاقوں میں زیادہ کوڑا ہوتا ہے وہاں مختلف انواع (اقسام ) کے جراثیم پائے جاتے ہیں، وہاں پر موجود اور مچھر نما مخلوق بھی انسان کو کاٹتی ہے اور مختلف جرثومے داخل ہونے کے باعث ’’سیکنڈری انفیکشن‘‘ کا سبب بھی بن جاتے ہیں ، یعنی کسی کو ملیریا بخار ہی ہوتا ہے مگر علامات میں شدّت ہوتی ہے اور ایسے افراد کو دواء بھی مشکل سے فائدہ کرتی ہے۔
ملیریا کی علامات: 1۔بخار، 2۔ سر درد، 3۔ متلی، 4۔ عضلات میں کھنچاؤ اور درد،5۔کھانسی، 6۔ سینے یا شکم میں درد ۔
نقصانات: 1۔ اگر حملہ شدہ سرخ خلیات دماغ میں موجود باریک شرائین ، ورید میںپھنس جائیں تو دماغ میں ورم ہوسکتا ہے، جس سے جھٹکے لگتے اور بے ہوشی ہو جاتی ہے اسے ’’دماغی ملیریا‘‘ کہتے ہیں ، ایسی حالت میں خون کو پتلا اور صاف کرنے والی ادویہ دیں۔ مثلاً ادرک کاقہوہ۔
2۔ اگر یہ مواد پھیپھڑوں کی باریک نالیوں میں منجمد ہو جائے تو سانس میں تنگی ہوجاتی ہے، ایسی صورت میں بلغم کاٹنے والی ادویہ یا ’’ایکسپیکٹورنٹ شربت ‘‘ دیں یا ملٹھی کاقہوہ پلائیں۔
3۔ خون کی مقدار میں کمی کے باعث اٹھتے ہوئے اور لیٹتے سے بیٹھتے ہوئے چکر آتے ہیں ایسی کیفیت میں خون پیدا کرنے والی ادویہ اور غذاء لیں مثلاً چقندر۔
4۔ خون میں مقدار ِشکر کی کمی: شدید ملیریا کی صورت میں خون میں شکر کی مقدار کافی کم ہوجاتی ہے،مریض کو ٹھنڈے پسینے آتے ہیں ، ایسی صورت میں دودھ ہمراہ گُڑ موزوں ہے۔
5۔ ملیریا بخار کے بعد تلی کا بڑھنا۔
ملیریابخار سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟
1۔ جلد کو ایسے کپڑے سے ڈھانپے رکھیں کہ مچھر کی رسائی نہ ہوسکے، زیادہ پتلے کپڑے سے بھی مچھر کے تھوک کو داخل کرنے والا حصّہ جلد تک پہنچ جاتا ہے۔
2۔ جلد پرسپرے کریں ۔
3۔ ماسکیوٹو نیٹ کے نیچے سوئیں۔
4۔ جب کسی گرم علاقے کی طرف جانا ہوتو حفاظتی طور پر وہی دوائیں دی جاتی ہیں جو ملیریا بخار ہونے کے بعد دیتے ہیں، مگر جسم کو عادت سے بچانے کے لیے نیم کے پتے کا قہوہ یا شربت زیادہ موزوں ہے۔
5۔ زیادہ بُو والے مچھر مار کائلز کا استعمال دھیان سے کرنا چاہیے کیونکہ یہ انسان کو نیند لاتی اور کند ذہن کر سکتی ہیں۔
ملیریا بخار کا ہاضمہ اور بھوک پر اثر:
ملیریا بخار کے مواد کا اثر جگر پر ہوتا ہے، جگر قوت طبعیہ کا مرکز ہے اور غذا کا طبخ (پکانے) کے عمل کا مرکز ہے ، کیونکہ کھائی ہوئی غذاء پر چار کیفیات سے عمل کرتا ہے:
1۔ غذاء کو روکتا ہے، 2 ۔غذاء سے ضروری معدنیات کو جذب کرتا ہے، 3۔ غذاء کے غیر ضروری موادکو نکالتا ہے ، 4۔ غذاء کے ہضم کی تکمیل ۔
لہذاء جب جگر متاثر ہوتا ہے تو یہ چاروں کیفیات متاثر ہوتی ہیں، یعنی قبض یا اسہال ہوتا ہے، غذاء کے اجزاء جذب نہ ہونے سے خون کی کمی ہوجاتی ہے، اپھارہ ہوتا ہے۔ اگر گرمی بڑھ جائے تو جگر کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے،ایسی صورت میں معدے میں تیزابیت میں کمی بیشی ہوجاتی ہے۔ اگر جسم کی ساخت میں چربی آجائے تو پیٹ پھولا ہونے کے علاوہ ریح ، جلد کے رنگ کا زرد ہونا ، سستی کا ہونا باعث ہوتا ہے۔ ملیریا بخار اکثر لوگوں کے جگر اور تلی بڑھاتا پایا گیا ہے۔
ملیریا کا علاج کیسے کریں؟
ایلوپیتھک ادویہ:
1۔ ایٹوواکون، پروگوانل: مگر یہ ادویہ اسہال ، قے ، پیٹ درد، بھوک کی کمی ، جلد اور آنکھوں کا پیلا ہونا، چھالے کا باعث بن سکتی ہیں۔
2۔ پریماکوئین: مگر یہ دواء متلی ، پیٹ درد ، مروڑ، بھوک کی کمی ، سینے میں جلن کرسکتی ہے۔
3۔ میفلوکوئین: یہ دواء متلی ، خارش،سردرد، طنین ودی (کان کا بجنا) کر سکتی ہے۔
طب قدیم کے ذریعے علاج:
مویز منقی 9 عدد، بادیان 5 گرام، بیخ کاسنی 5 گرام، گاؤ زبان کے پتے 5 گرام ، گل بنفشہ 6 گرام خمیرہ بنفشہ 4 تولہ میں ملا کر دیں، نیز معدے میں خرابی ہو تو ’’پرسیاؤشان‘‘ 4گرام کا اضافہ کر لیں۔ اگر کھانسی ہو تو ’’ملٹھی‘‘ 3 گرام کا اضافہ کردیں۔ اسہال ہو تو’’ آبِ بارتنگ 4 گرام کا اضافہ کر دیں۔
ماڈرن ہربلزم: صبح افسنتین رومی کا قہوہ دیں۔ دوپہر میں برگ نیم کا قہوہ پلائیں۔ اگر معدے میں خرابی ہو تو اجوائن دیسی 2 گرام ہمراہ سیاہ زیرہ چبائیں۔ مقدار ِ خوراک عمر اور بی۔ ایم۔ آئی کے مطابق۔
تلی بڑھ جائے تو گھبراہٹ ہوتی ہے، رات کو نیند میں ڈر لگتا ہے، بد گمانی اور وہم کا اضافہ ہو جاتا ہے، ایسی کیفیت میں ’’اطریفل اسطو خودوس‘‘ آدھا چائے کا چمچ گرم پانی میں ملا کر سورج غروب ہونے کے بعد دیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔