آخر کب تک

جاوید قاضی  اتوار 5 جولائی 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

آج جو کچھ بھی اس مملکت خداداد میں ہورہا ہے اس نے گورنر جنرل غلام محمد کے زمانے یاد دلا دیے فرق صرف اتنا ہے کہ گورنر غلام محمد نے بہت تیزی سے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ ان کو لیاقت علی خان صاحب کابینہ میں بحیثیت وزیر خزانہ لے کر آئے تھے اور وہ بنیادی طور پر ICS کے افسر تھے اور چارٹر اکاؤنٹنٹ تھے۔

جب جناح کا انتقال ہوا تو خواجہ نظام الدین گورنر جنرل بنے اور لیاقت علی خان وزیر اعظم جو طاقت کے مہور نظر آتے تھے۔ خواجہ ناظم الدین بنگالی تھے۔ لیاقت علی خان کے کہنے پر وہ تمام کام کرتے رہے جو بنگال مسلم لیگ کو تباہ کرنے والے تھے۔ لیاقت علی خان کے بعد خواجہ ناظم الدین نے سمجھا کہ لیاقت علی خان کی کرسی بہتر ہے اور وہ ان کی جگہ وزیر اعظم بن گئے۔ غلام محمد کو گورنر جنرل بنایا، یہ سمجھ کر کہ وہ غیر سیاسی آدمی ہیں، زیادہ مسئلے پیدا نہیں کریں گے۔

مگر غلام محمد کو جمہوریت بے سود ، بے وجہ اور بے معنی لگتی تھی۔ سب کو فارغ کرتے گئے ، ناظم الدین کو فارغ کیا، قومی اسمبلی جس نے آخرِکار آئین کا ڈرافٹ بنا دیا تھا اس کو فارغ کیا، مولوی تمیز الدین کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے اسمبلی کو بحال کیا، مگر فیڈرل کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے غلام محمد کے اٹھائے ہوئے قدم کو صحیح قرار دیا ۔

گورنر غلام محمد شروع کے دنوں جنرل ایوب خان کے بہت قریب رہے، وہ بیوروکریسی کو بہت اہم عہدے دیتے گئے اور سیاستدانوں کو فارغ کرتے گئے۔ ان پر فالج کا اٹیک ہوا اور اس بیماری کے بعد وہ اس اقتدار کے جال میں کمزور پڑ گئے اور اس طرح ایوب خان، اسکندر مرزا جو کہ اس وقت وزیر داخلہ تھے ان کو آگے لائے۔

اسکندر مرزا نے بڑی آسانی سے گورنر غلام محمد کے گھر پہنچ کر ان کو گاڑی میں بٹھا کر رخصت کیا اور خود اقتدار میں آگئے۔ پھر کچھ ہی عرصے میں جنرل ایوب نے اسکندر مرزا کو بھی فارغ کیا۔فرض کر لیں اگر گورنر غلام محمد پر فالج نہ گرتا تو کیا ہوتا؟ جنرل ایوب نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد جو پہلی تقریر کی اس میں اس بات کا ذکر کیا کہ گورنر جنرل غلام محمد نے ان کو بار ہا یہ کہا کہ اقتدار سنبھال لیں۔

اب عمران خان صاحب کو بھی سیاستدان اچھے نہیںلگتے، وہ جمہوریت کے ذریعے آئے مگر جمہوریت کو انھوں نے گول کردیا ۔ خان صاحب کی کابینہ میں رفتہ رفتہ پارلیمینٹ کے چنندہ لوگوں کی تعداد کم اور غیر منتخب لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی۔

جس طرح غلام محمد اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہوگئے تھے اسی طرح خان صاحب بھی!!! آپ اور آپ کے وزراء انتہائی غیر سنجیدہ، غیر منطقی بیان وقتاً فوقتاً دیتے رہتے ہیں جس سے ان کی بڑی جگ ہنسائی ہوتی ہے ۔ وہ کسی بھی حقیقت کی باریکی تک جا نے سے قاصر ہیں اور جتنا نقصان انھوں نے اپنی ان غیرسنجیدہ حرکتوں سے ملک کو پہنچایا ہے اتنا تو شاید ان بحرانوں نے بھی نہیں پہنچایا جو اس حکومت اور اس ملک کو ورثے میں ملے۔

بہت دیر کردی اس حکومت نے آئی ایم ایف تک جاتے جاتے جو ڈالر آج 160  اور 170 کے درمیاں گھوم رہا ہے وہ کم از کم اتنا اوپر نہ جاتا۔ چینی اس وقت ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی جب یہ نظر آرہا تھا کہ ایسا کرنے سے ملک میں چینی کی قلت ہوگی۔ آٹا بھی اس وقت ایکسپورٹ کیا یا افغانستان بھیجنے کی اجازت دی جب ملک میں آٹے کی اشد ضرورت تھی۔

جو کام انھوں نے فلور آف دی ہاؤس پر کیا وہ تھا پی آئی اے کا بہت بڑا بحران دکھانا تاکہ پی آئی اے کے طیارہ گرنے کے حادثے سے توجہ ہٹائی جاسکے جو پوری دنیا نے سنا ۔ اس طرح کا کام کوئی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والا سپاہی نہیں کرسکتا ۔ اس وقت اس ملک میں کورونا کی وجہ سے دوسری ایئر لائنز کی آمدورفت بند ہے۔ صرف ایک پی آئی اے تھی جس کی پروازیں سفر کر رہی تھیں اب وہ بھی بند ہوچکیں اور اتنا بڑا بحران پیدا کرنے والے وزیرِ ہوا بازی اب بھی وزیرِ ہوا بازی ہیں۔

آپ نے اسامہ بن لادن کو شہید فرمادیا اور بے نظیر بھٹو کو شہید نہیں مانا ، کم از کم سندھ میں اس بات پر بہت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اگر یہ باب جو اگر یہاں سارے کھول دیے تو فہرست بہت طویل ہوجائے گی۔ مختصر یہ کہ جس طرح گورنر غلام محمد کو لگے فالج نے ان کی اقتدار پر مضبوط حیثیت کمزور کردی تھی، اسی طرح اگر خان صاحب کی گرفت بھی اقتدار پر کمزور ہوچکی ہے ان کے وزراء کے غیر سنجیدہ بیانوں کی وجہ سے اور پھر فواد چوہدری کا انٹرویو جلتی پر تیل کا کام۔

آیندہ دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کوئی اندازہ نہیں، ہوسکتا ہے گورنر غلام محمد کو خارج کرنے والی حکمت عملی نہ ہو مگر کچھ نہ کچھ ہونے ضرور جارہا ہے۔ جس کا علم شاید خان صاحب کو بھی ہے اور وہ خود اپنی تقاریر میں ایسے اشارے دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔