طلوعِ مہر تو ہوگا!

سعید پرویز  پير 10 اگست 2020

’’عجیب صورت حالات ہوگئی پیارے‘‘ پوری دنیا کورونا کی لپیٹ میں ہے اور دنیا کی سپر پاور امریکا کورونا کے سامنے بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے، سب سے زیادہ اموات کورونا کے ہاتھوں امریکا میں ہوئی ہیں اور آج بھی ’’انسانی زیاں‘‘ میں سب سے اوپر امریکا ہی کا نام درج ہے۔ پھر یہ ہوا کہ جارج فلوئیڈ کے مرنے سے چند لمحوں پہلے کہے الفاظ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کورونا کے بعد قدرت کی دوسری لپیٹ جارج فلوئیڈ کے الفاظ تھے ’’اپنا گھٹنا ہٹاؤ میرا دم گھٹ رہا ہے۔‘‘

جارج مرگیا مگر اس کے آخری الفاظ ’’پیغام‘‘ کی صورت اٹھے اور بڑے بڑے بت ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگئے۔ اہل مغرب کورونا اور جارج کے پیغام کی لپیٹ میں ہیں اور ادھر اپنے پاکستان میں بھی کورونا کے ساتھ ساتھ بہت سی ’’بلاؤں‘‘ نے گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ یہ ’’بلائیں‘‘ بہت مضبوط ہیں۔ ان بلاؤں نے دیکھا کہ کورونا کے ہاتھوں لوگ مر رہے ہیں، تو اس موقعے سے فائدہ اٹھایا جائے اور پھر چینی کا بحران پیدا کردیا، چینی کے دام آسمان تک چڑھا دیے گئے۔ غریب آدمی کی پہنچ سے دور بہت اوپر۔ چینی مہنگی کردی گئی اور مہنگائی کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے چینی سو روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔ ’’بلاؤں‘‘ نے یہیں بس نہیں کیا اور ’’آٹا‘‘ غائب کردیا۔ ’’آٹا بنیادی انسانی ضرورت‘‘

حضرت بابا بلھے شاہ کا ہی مصرعہ ہے ’’منہ آئی بات نہ رہندی اے‘‘ آپ کا شعر ہے:

پنج ارکان اسلام دے‘ تے چھیواں بلھیا ٹک

جے اے ٹک نہ ملے‘ تے سارے جاندے مُک

اس کا سادہ سا ترجمہ یوں ہے۔ اسلام کے پانچ ارکان ہیں اور چھٹا رکن روٹی (ٹُک) ہے اور اگر انسان کو روٹی نہ میسر ہو تو پانچوں ارکانِ اسلام ختم (مُک) ہو جاتے ہیں۔

ہمارے پاکستان کو جن بلاؤں نے گھیر رکھا ہے، یہ بلائی اس قدر سفاک ہیں کہ غریب کا واحد آسرا ’’آٹا‘‘ بھی انھوں نے غائب کردیا ہے اور دکانوں پر آٹا انتہائی مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے جسے خریدنا غریب کی پہنچ سے بہت دور ہو گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب غریب کے گھروں میں آٹے کا ڈرم رکھا ہوتا تھا اور غریب آدمی کے ڈرم میں کم ازکم بیس سیر آٹا ضرور موجود ہوتا تھا۔

میں نے اپنے گھر میں یہ منظر دیکھا ہے۔ ہم غریب لوگ تھے یہ سن 1960 کی بات ہے، ہماری والدہ کبھی کبھی تو ڈھائی من آٹے کی بوری ڈرم میں ڈلوا لیتی تھیں ورنہ راشن ڈپو سے کم ازکم بیس سیر آٹا تو لازماً خریدا جاتا تھا۔ گھر سے کوئی چادر یا کپڑے کا تھیلا، راشن ڈپو پر لے جاتے اور آٹا لے آتے تھے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ آٹا کس قدر سستا ہوتا تھا کہ ہر غریب کی دسترس میں ہوتا تھا۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ آٹا لفافوں میں لینا پڑے گا۔ پانچ کلو آٹا خریدنا! یہ بھی وقت آنا تھا اور آج غریب آدمی کا یہ حال ہو گیا ہے کہ وہ دو کلو آٹا بھی خریدتا ہے۔ آٹا 70 روپے 80 روپے کلو فروخت ہو رہا ہے۔

ساٹھ کی دہائی میں جنرل ایوب کے دور میں آٹا مہنگا ہوکر 20 روپے من ہوگیا تھا۔ یہ اتنا سنگین واقعہ تھا کہ حبیب جالب نے لکھ دیا:

بیس روپیہ من آٹا

اُس پر بھی ہے سناٹا

اور پھر اسی دور میں چینی چار آنے مہنگی ہوئی تو ملک بھر میں سناٹا ٹوٹ پھوٹ گیا اور عوام نے جنرل ایوب خان کو تخت سے اتار دیا، مگر آج دنیا بدل چکی ہے اور پاکستان بھی بدل چکا ہے آج آٹا چینی کے بحرانوں سے گزر کر عوام مہنگے پٹرول کا دکھ جھیل رہے ہیں، بجلی کے ہزاروں روپوں کے بل عام آدمی برداشت کر رہا ہے، دس ہزار، پندرہ ہزار، بیس ہزار بجلی کے بل آ رہے ہیں، مگر بجلی نہیں آتی۔ شدید گرمی کا عالم ہے اور غریب اپنے معصوم بچوں کو ہاتھ سے پنکھا جھل رہے ہیں، غریب بیمار بزرگ چھوٹے چھوٹے گھروں میں تنگ گلیوں میں پڑے ہیں۔ چھت کا پنکھا ساکت ہے غربت کا منہ چڑا رہا ہے۔

پانچ ماہ پہلے پوری دنیا کے ساتھ پاکستان میں بھی کورونا آ گیا لوگ کورونا وبا کی نذر ہونے لگے، کیسے کیسے ڈاکٹر، قابل ڈاکٹر، خوبصورت جوان ڈاکٹر، پیرا میڈیکل اسٹاف دنیا سے چلے گئے۔ بڑے بڑے پروفیسر، عالم دین، جنھیں کورونا لے گیا۔ بچے، بوڑھے، جوان کورونا نے کسی کو نہ بخشا۔ یہ قدرت کی طرف سے آئی وبا پاکستان کے شہروں، قصبوں، دیہاتوں میں بھاگ دوڑ رہی تھی کہ قدرت کی طرف سے بارشوں کے سلسلے آ پہنچے۔ پھر ’’ان آنکھوں نے کیا کیا دیکھا‘‘کیا بیان کروں، کیا لکھوں!دو مصرعے فی البدیہہ ذہن میں بن گئے ہیں، لکھتا ہوں:

پھر ابرِ رحمت چھائے ہیں

پھر کچے گھروں کی خیر نہیں

آٹا چینی کے عذاب جھیلنے والوں کے ٹھور ٹھکانے بھی ابرِ رحمت بہا کر لے گیا، چھتیں گریں، دیواریں گریں، مکیں ملبے تلے دبے، کچھ مر گئے کچھ قطرہ قطرہ مرنے کے لیے بچ گئے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی غریب بستیاں بارش کے پانی میں ڈوب گئیں، بستی کے گندے نالے، تمام ترگندگی کے ساتھ گھروں میں داخل ہو گئے۔ سامان برباد ہو گیا، کرنٹ لگنے سے موٹر سائیکل سوار جان گنوا بیٹھے۔ عین اس وقت جب غریبوں کے گھروں میں ’’ابرِ رحمت‘‘ تباہی و بربادی مچا رہا تھا حکمران اپنے قائد کی سالگرہ کا کیک کاٹ رہے تھے اور ایک دوسرے کو کھلا رہے تھے۔ حضرت علامہ کا شعر لکھ کر ’’اوپر والے‘‘ سے گلہ گزار ہو رہا ہوں۔ (تصرف پر علامہ سے معذرت)

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر

برق گرتی ہے تو ’’غربت زدہ انسانوں پر‘‘

آٹا، چینی، پٹرول، مہنگی بجلی اور بجلی غائب۔ یہ سب خواب بہت خوب ہو رہا ہے ’’بلائیں‘‘ ملک کو بحرانوں میں مبتلا کرکے باہر چلی گئیں ’’اور کوئی بولا بھی نہیں‘‘ آخر ایسا کب تک چلے گا بھائی!

بھٹو صاحب کے دور حکومت میں حبیب جالب بھی اپنی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ حیدرآباد جیل میں بند تھے، وہاں انھوں نے ایک غزل لکھی تھی۔ اس غزل کا ایک شعر لکھ کر رخصت چاہوں گا:

اٹھائیں لاکھ دیواریں‘ ’’طلوع مہر تو ہوگا!‘‘

یہ شب کے پاسباں کب تک نہ ہم کو راستہ دیں گے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔