شبلی فراز نے (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی نیب آرڈیننس میں مجوزہ ترامیم شیئر کردیں

ویب ڈیسک  اتوار 23 اگست 2020
کئی دنوں سے مسلم لیگ (ن) لمیٹڈ ڈیمانڈ کر رہی تھی کہ این آر او کس نے مانگا، شبلی فراز فوٹو: فائل

کئی دنوں سے مسلم لیگ (ن) لمیٹڈ ڈیمانڈ کر رہی تھی کہ این آر او کس نے مانگا، شبلی فراز فوٹو: فائل

 اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سینیٹر شبلی فراز نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان طے پانے والی تجاویز  ٹویٹر پر جاری کردیں۔

وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہےکہ ‏کئی دنوں سے مسلم لیگ نواز لمیٹڈ  مطالبہ کر رھی تھی کہ این آرو کس نے مانگا۔ وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز کا کہنا ہے کہ حضور والا یہ ہیں وہ ذرائع  اور دستاویزات جن کی وساطت سے NRO مانگا گیا. تاریخ گواہ ھے کہ ھر بار PMLNکی قیادت نے ملک اور قانون سے فرار کا راستہ اختیار کیا ہے

.وفاقی وزیر اطلاعات نے ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں احتساب آرڈیننس 1999 میں ترمیم کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مجوزہ ترامیم کے صفحات شیئر کیے. دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان ترمیمی تجاویز کے مطابق ’تحقیقات کا حکم دینے کے بعد یا انکوائری کے وقت، ٹرائل شروع ہونے سے پہلے یا بعد میں یا اپیل کے زیر التوا ہونے کے دوران عوامی عہدہ رکھنے والا یا کوئی بھی دوسرا شخص کسی جرم کے نتیجے میں بنائے گئے اثاثے یا حاصل کیے گئے فوائد واپس کرنے کی پیش کش کرے تو اس آرڈیننس کے تحت چیئرمین نیب، کیس کے حقائق اور پہلوؤں پر غور کر کے اپنی صوابدید اور جو شرائط و ضوابط وہ ضروری سمجھیں انہیں مدِ نظر رکھتے ہوئے اس قسم کی پیشکش کو قبول کرسکتے ہیں۔

اگر عوامی  عہدہ رکھنے والا کوئی بھی دوسرا شخص چیئرمین نیب کی متعین کردہ رقم واپس کرنے پر راضی ہو تو اس کیس کوعوامی عہدہ رکھنے والے یا کسی بھی شخص یا شریک ملزم کی رہائی سے متعلق کیس کو عدالت یا اپیلیٹ کورٹ میں بھیجا جائے گا۔

دستاویز میں لکھا گیا کہ اگر چیئرمین نیب اس قسم کی پیشکش سے انکار کردیں تو سرکاری عہدیدار یا کوئی بھی شخص اس پیشکش پر براہ راست عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ نیب جرم کے ارتکاب یا رقوم کی منتقلی کو 5 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد مبینہ جرم کی تحقیقات، تفتیش یا ریفرنس دائر نہیں کرے گا۔

دستاویز میں یہ درج تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) مندرجہ ذیل صورتحال میں الزامات پر کوئی ایکشن نہیں لے گا:ایسی شکایت نامعلوم یا فرضی نام سے کی گئی ہو۔ جس میں عوام کا پیسہ شامل نہ ہو۔ جس میں شامل رقم ایک ارب روپے سے کم ہو۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔