جامعہ کراچی سنڈیکیٹ کی غیر قانونی قابضین سے مکانات خالی کرانے کیلئے کارروائی کی منظوری

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر نے "ایکسپریس" سے بات چیت کرتے ہوئے سنڈیکیٹ کے اس فیصلے کی تصدیق کردی


Safdar Rizvi August 23, 2020
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر نے "ایکسپریس" سے بات چیت کرتے ہوئے سنڈیکیٹ کے اس فیصلے کی تصدیق کردی . فوٹو : فائل

جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ نے غیر قانونی قابضین سے مکانات خالی کرانے کے لیے کارروائی کی منظوری دے دی۔

جامعہ کراچی کی سنڈیکیٹ نے یونیورسٹی کے رہائشی علاقے کے سرکاری بنگلوز میں مقیم 40 غیر قانونی قابضین کے خلاف حتمی کارروائی کی منظوری دے دی ہے اور کہا ہے کہ اگر ایک ماہ میں غیر قانونی قابضین سرکاری گھروں کو خالی نہیں کرتے ہیں تو مکانات خالی کرانے کے لیے ان کے خلاف مختلف نوعیت کی کارروائی کی جائے 40 میں سے کچھ قابضین تقریبا ایک عشرے سے مکانات پر ناجائز طور پر قابض ہیں۔

سنڈیکیٹ کا اجلاس وائس چانسلر جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی کی زیر صدارت منعقد ہوا اجلاس میں مکانات پر غیر قانونی قبضے سے متعلق اسٹیٹ آفس کی تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی جس پر تفصیلی بحث کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ایسے قابضین جو جامعہ کراچی کے حاضر سروس ملازمین بھی ہیں انھیں مکان خالی کرنے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی جائے گی تاہم اگر یہ ملازمین دی گئی مدت میں مکانات کا قبضہ نہیں چھوڑتے ہیں تو انھیں انضباطی کارروائی disciplinary action کے تحت ملازمتوں ہی سے فارغ کردیا جائے گا۔

دوسری جانب وہ افراد جو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انتظامیہ کی جانب سے گھر خالی کرنے کی دی گئی ایک سالہ مدت بھی پوری کرچکے ہیں تاہم اس کے باوجود قابض ہیں ان سے مکانات خالی کرانے کے لیے پہلے مرحلے میں ان گھروں کی یوٹیلٹی سروسز معطل کی جائیں گے اور اس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے یہ مکانات خالی کروائیں جائیں گے۔

ادھر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر نے "ایکسپریس" سے بات چیت کرتے ہوئے سنڈیکیٹ کے اس فیصلے کی تصدیق کردی ہے یاد رہے کہ جولائی کے وسط میں" ایکسپریس ٹریبیون" نے اپنی اشاعت میں جامعہ کراچی میں مقیم غیر قانونی قابضین کے ناموں کے ساتھ تفصیلی رپورٹ کا اجراء کیا تھا غیر قانونی قابضین کے حوالے سے سنڈیکیٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کے بعد مذکورہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔

علاوہ ازیں اجلاس میں سنڈیکیٹ کے ایک رکن ڈاکٹر ایس ایم طحہ کی جانب سے کہا گیا کہ جامعہ کراچی کی ہائوس الائوٹمنٹ کمیٹی میں ملازمین ، افسران اور اساتذہ ایسوسی ایشن یا سوسائیٹیز کے صدور رکن کی حیثیت سے موجود ہوتے ہیں ان پر متعلقہ ایسوسی ایشن کی جانب سے سینیارٹی لسٹ کے برخلاف گھروں کی الائٹمنٹ کے لیے دبائو ہوتا ہے 2016 میں کچھ افراد کو غیر قانونی طور پر گھر الائوٹ کیے گئے جس پر کچھ اراکین کا کہنا تھا کہ 2016 سے اب تک کیوں خاموشی اختیار کی گئی اور اب اتنی تاخیر سے اسے کیوں پیش کیا جارہا ہے ڈاکٹر ایس ایم طحہ نے اس موقع پر کمیٹی کی رکنیت سے متعلقہ ایسوسی ایشنز کے صدور کو سبکدوش کرکے اس کی تشکیل نو کی سفارش کی جس پر سینڈیکیٹ نے نئی کمیٹی کی تشکیل کے لیے تجاویز مانگی جو آئندہ کسی اجلاس میں پیش کی جاسکیں۔

علاوہ ازیں اجلاس میں سندھ اسمبلی ممبر اور رکن سنڈیکیٹ شاہدہ رحمانی کی جانب سے یونیورسٹی میں آئی سی سی بی ایس میں انرولڈ ریسرچ طالبہ نادیہ اشرف کی خود کشی کا معاملہ اٹھایا جس پر انھیں بتایا گیا کہ یونیورسٹی کی ہراسمنٹ کمیٹی اس کی تحقیقات کرے گی تاہم وائس چانسلر کی جانب سے شاہدہ رحمانی کو بھی اس اس کمیٹی میں شامل ہونے کی پیشکش کی گئی جسے انھوں نے قبول کرلیا جبکہ سنڈیکیٹ کے ہی ایک رکن ڈاکٹر محسن کو ڈاکٹر عطا الرحمن کی سفارش پر اس لیے کمیٹی میں شامل کیا گیا کہ وہ آئی سی سی بی ایس کے گورننگ بورڈ کے بھی رکن ہیں اب پانچ افراد پر مشتمل یہ کمیٹی معاملے کی تحقیقات کرے گی۔

علاوہ ازیں سنڈیکیٹ میں اس وقت صورتحال دلچسپ ہوگئی جب رکن سندھ اسمبلی شاہدہ رحمانی سلیکشن بورڈ میں رکنیت کے لیے کرائی گئی ووٹنگ میں کامیاب نہ ہوسکیں ان کا نام یونیورسٹی کے استاد اور سینڈیکیٹ کے رکن شاہ علی القدر نے پیش کیا تھا۔

ادھر شاہدہ رحمانی نے پیلز پارٹی کے رہنما وقار مہدی کا نام بھی بطور رکن سلیکشن بورڈ پیش کیا جس پر ووٹنگ کرائی گئی تاہم وہ بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔

علاوہ ازیں اجلاس میں سنڈیکیٹ نے پروفیشنل ڈویلپمنٹ سینٹر کے قیام کے لیے اراضی دینے کی تجویز کو مسترد کردیا اور کہا گیا کہ اسکول کے قیام کے سلسلے میں سردار یاسین ملک کو جو اراضی دی گئی ہے اسی احاطے میں پروفیشنل ڈویلپمنٹ سینٹر قائم کردیا جائے۔

مقبول خبریں