تیز رفتاری اور عوام کی لاپروائی

سعدیہ اسلم  پير 26 فروری 2024
پاکستان میں 14 فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری کے باعث رونما ہوتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پاکستان میں 14 فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری کے باعث رونما ہوتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

میڈیا کی جانب سے دکھائی جانے والی مغربی ممالک کی کار و موٹر سائیکل ریسنگ، موٹرسائیکل کی قلابازیاں و کرتب دیکھنے والوں کو بہت متاثر کن لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان جوانی کی دہلیز پر پہنچتے ہی کافی حد تک جانباز اور جوشیلے لگنا چاہتے ہیں۔ یہ کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں جس سے دوسروں سے مختلف نظر آئیں۔ اس لیے کچھ بہتر اور جانباز لگنے کے چکر میں نوجوان گاڑی و موٹر سائیکل کا سہارا لے کر سڑکوں پر تیز رفتار گاڑی و موٹر سائیکل کی مدد سے موت کا رقص اور کرتب دکھاتے ہیں۔ یہ نادان بھول جاتے ہیں کہ یہ خطرناک عمل انہیں زندگی کے کس موڑ پر لا کر کھڑا کرسکتا ہے۔

پاکستان میں ہونے والے ٹریفک حادثات کے پیچھے کئی وجوہات ہیں، ان میں سے ایک تیز رفتاری سے گاڑی و موٹرسائیکل کو چلانا ہے۔ پاکستان میں تیز رفتاری کے باعث 14 فیصد حادثات رونما ہوتے ہیں۔ اگر پیدل چلنے والے حضرات 45 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی سے ٹکراتے ہیں تو اس سے زخمی ہونے کے 90 فیصد امکانات ہوتے ہیں جبکہ یہی اگر پیدل چلنے والے حضرات سڑک پار کرتے ہوئے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکراتے ہیں تو اس سے بچنے کے امکانات صفر ہوجاتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک کے شہروں میں حد رفتار 50 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں گاڑی و موٹرسائیکل کی رفتار 80 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اگر 10 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کا حساب لگایا جائے تو یہ رفتار 90 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کو پہنچتی ہے۔ لیکن اگر اس رفتار کی حد میں 5 کلومیٹر فی گھنٹہ کمی کی جائے تو یہ کم ہوکر 75 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار تک پہنچ جائے گی۔ رفتار کی اس کمی سے حادثات کی شرح میں 30 فیصد تک کمی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔

پاکستان کی حکومت سڑکوں پر بڑھتے ہوئے حادثات کو صحت عامہ کا مسئلہ نہیں سمجھ رہی۔ یہی وجہ ہے کہ حادثات کی تعداد بتدریج بڑھ رہی ہے۔ قومی ہائی وے روڈ سیفٹی قانون 2000 کے مطابق اگر موٹرسائیکل حضرات عائد کردہ رفتار سے زائد رفتار میں موٹرسائیکل چلائیں گے تو ان پر 200 روپے جرمانہ ہوگا، جبکہ گاڑی چلانے والے حضرات یہی جرم کریں گے تو ان پر 500 روپے جرمانہ عائد ہوگا۔ آج ہم سب اپنی سڑکوں پر تیز رفتاری سے چلتی ہوئی گاڑیوں کو روزانہ کی بنیاد پر دیکھتے ہیں اور شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اس قانون کا عمل درآمد کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ قانون کے ان رکھوالوں کی ہٹ دھرمی اور لاپرواہی عوام کے حوصلوں کو بڑھاوا دے رہی ہے۔

برطانیہ سمیت دوسرے ترقی یافتہ ممالک کا موازنہ کیا جائے تو وہاں پر کسی بھی فرد کو بغیر لائسنس کے گاڑی چلانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات تیز رفتاری کے باعث جرمانے کے ساتھ ان کا لائسنس بھی منسوخ کردیا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں ایسے لوگ 5 فیصد سے کم ہوں گے جو تربیتی اداروں سے ڈرائیونگ کے ساتھ باقاعدہ اصول و ضوابط بھی سیکھتے ہیں۔ جبکہ پاکستان میں زیادہ تر لوگ اپنے گھر، دوست احباب و رشتے داروں سے ڈرائیورنگ سیکھتے ہیں۔ اس لیے زیادہ تر ڈرائیورز ناتجربہ کار اور ٹریفک کے قوانین سے نابلد ہوتے ہیں۔ ڈرائیوروں کی ناتجربہ کاری ان سمیت دوسرے افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔

اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ڈرائیورز اوورٹیکنگ کرتے ہوئے بائیں جانب سے گاڑیوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں، جو قانون کی خلاف ورزی میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن اوورٹیک کرنے پر اس لیے مجبور ہوتے ہیں کیونکہ انہیں سڑک کی دائیں لائن سے اوورٹیک کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ دائیں لائن پر عموماً ڈرائیور گاڑی کو آہستہ رفتار سے چلاتے ہیں جبکہ انہیں معلوم نہیں ہوتا ان کا یہ عمل ٹریفک قوانین کے خلاف ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اگر کوئی ڈرائیور سڑک کی بائیں جانب بغیر کسی اشارے کے پیچھے سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور آنے والی گاڑی کی رفتار تیز ہو تو یہ بھی مہلک حادثات کی وجہ بن سکتی ہے۔ پاکستان میں تیز رفتاری پر عائد کردہ جرمانہ بہت کم ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈرائیور حضرات کا رویہ بہت لاپرواہ ہوچکا ہے اور انہیں قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ذرا بھی شرمندگی نہیں ہوتی۔

سڑکوں پر موجود ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی توجہ اب ویسی نہیں رہی۔ اس کی ایک وجہ عوام کا غیر ذمے دارانہ رویہ ہے۔ کیونکہ اکثر ڈرائیوروں کو جب روک کر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے تو ٹریفک پولیس اہلکاروں کے ساتھ جھگڑ پڑتے ہیں۔ بعض ڈرائیور تو اپنے اثر و رسوخ کا رعب جما کر فراٹے سے نکل پڑتے ہیں۔ سڑکوں پر بڑھتا یہ انتشار اب سڑک پر چلنے والے لوگوں کی زندگی کو اور خطرناک بنارہا ہے۔ یہ ناتجربہ کار ڈرائیور جو تیز رفتاری کو کرتب سمجھتے ہیں سڑکوں پر دہشت کا سماں پیدا کرتے ہیں۔ جس سے پیدل چلنے والوں سمیت دوسرے ڈرائیوروں کی زندگی کو بھی خطرہ میں ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ کچھ نوجوان ایسے بھی ہیں جو اپنے ساتھ دوسرے نوجوانوں کو بھی تیز رفتاری کی ترغیب دیتے ہیں۔

پاکستان میں موجود گاڑیاں جدید تکنیکی سہولت سے محروم ہیں۔ ان گاڑیوں میں سیٹ بیلٹ، ایئر بیگز، اینٹی لاک اور جدید ابتدائی انتباہی نظام سرے سے ہی موجود نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں ہر فرد جانتا ہے کہ تیز رفتاری جان جانے کا باعث بنتی ہے، لیکن آج کوئی بھی اس پر احتیاط کرتا نظر نہیں آتا۔ پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی روک تھام کےلیے کوئی بھی پالیسی ترتیب نہیں دی جاتی نہ ہی حکمرانوں کی جانب سے اس مسئلے کو سنجیدہ لیا جارہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بڑی کرسیوں پر بیٹھنے والے حکمران اس بات سے ناآشنا ہیں کہ باہر سڑکوں پر ہر روز لوگ مر رہے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں ریاست اہم کردار ادا کرتی ہے، جہاں پر وہ شہریوں کی محافظ ہے۔ وہاں ایسے اصول و ضوابط کی تشکیل کی جاتی ہے جس سے شہریوں کی زندگی متاثر نہ ہو جبکہ یہاں ریاست کی طرف سے شہریوں کے تحفظ کو سب سے نچلے درجے پر رکھا جاتا ہے۔ کچھ وجوہات کی بنا پر ریاست پاکستان شہریوں کے تحفظ پر سرمایہ کاری کرنے میں بہت کم دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔

ان بڑھتے ہوئے حادثات کی روک تھام کےلیے آسان حل یہی ہے کہ پاکستان میں 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو کم کرکے 50 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار لاگو کی جائے۔ اس کارروائی سے پاکستان میں سفر کا دورانیہ تو بڑھ جائے گا لیکن یہ قیمتی جانوں کو بچانے میں فائدہ بھی مند ثابت ہوگی۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنی ہوگی جو تیز رفتاری کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور دوسرے کی جان کو خطرے میں ڈالنے کا باعث بنتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سعدیہ اسلم

سعدیہ اسلم

بلاگر قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے سوشیالوجی میں ایم فل کررہی ہیں، مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں بلاگ اور کالم نگاری بھی کرتی رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔