کانچ کے پاؤں اور پتھریلا راستہ

سعد اللہ جان برق  بدھ 2 ستمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

صوبہ خیرپخیر کی حکومت نے ایک اور خیر کاکام کیا ہے یا کرنے والی ہے یاکرنے کا اعلان کیاہے اور وہ ہے ’’خیراتی اداروں‘‘کی رجسٹریشن۔خیراتی ادارے جنھیں اخباری، سیاسی اور مداری زبان میں ’’این جی او‘‘کہاجاتا ہے، دن رات کھانا پینا سونا جاگنا بلکہ اوڑھنا بچھونا دھونا نچوڑنا چوری کر کے ’’عوام‘‘ کی ’’خدمت‘‘ کرنے والے اداروں کو کہاجاسکتاہے۔

اور یہ بات آج تک ہماری سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ ایک ملک میں جب گورنمنٹ بلکہ گورنمنٹس چل رہی ہوں تو وہاں ’’نان گورنمنٹ اداروں‘‘ کی کیاضرورت ہے اور اگر کرنے کاکام ان نان گورنمنٹ ارگنائزیشنوں نے کرنے ہیں تو ’’گورنمنٹ‘‘کیاکرتی ہے؟

کیا صرف سفید ہاتھیوں کوپالنا، سفید محلوں کے آگے باندھنا، نوالوں کے لیے منہ ڈھونڈنا اور کام نہ کرنے والوں کو پالنا ہی حکومتوں کا کام ہے، عوام جو کالانعام بھی ہوتے ہیں، حکومت کی ذمے داری ہے، تویہ این جی اوز یا خیراتی ادارے کیا بیچتے ہیں ؟کیا دھوتے ہیں؟ کیا نہاتے ہیں اور کیا نچوڑتے  ہیں، عوام سے جو وصولیاں حکومت کرتی ہے وہ کیا اس لیے کرتی ہے کہ ہمارے تمہارے سفید ہاتھی،گوشت خوربلیاں،خون چوس جونکیں اور نکمے نکھٹو پالیں گے، تمہارا خون نچوڑ نچوڑ کر اپنی تجوریاں بھریں گے، تمہارے منہ کے نوالے چھین چھین کر ان نوالوں کے لیے منہ ڈھونڈیں گے۔

اگر سیدھی اور سچی بات کی جائے تو، آخر حکومت کس مرض کی دوا ہوتی ہے اور کس لیے اپنے اوپر مسلط کی جاتی ہے؟ کیا یہ کچھ مقدس ہستیاں ہیں جنھیں پالنا کار ثواب ہے۔اگرعوام کوکھانا بھی خیراتی ادارے دیں جوانھی کی جیب سے نکال کر ان کو کھلاتے ہیں۔ دوا دارو بھی ’’خیراتی‘‘ادارے کریں گے جوالگ سے چندوں زکواۃ کھالوں وغیرہ کے مستحق ہوتے ہیں اور اسی گائے کا دودھ دوھ کرگائے کے ہونٹ تر کرتے ہیں توپھر یہ حکومت نام کا بڑا سا ڈھول کس لیے بجتا رہتا ہے۔

سوباتوں کی ایک بات یہ ہے کہ حکومت نام کی یہ ’’چیز‘‘ ہوتی کیاہے،کیوں ہوتی ہے اور کس لیے ہوتی ہے، اگر وہ سارے کام ’’خیراتی لوگ‘‘کریں جو حکومت کی ذمے داری ہیں توپھر کیا یہ حکومت نام کا ڈھونگ، چالیس چوروں کا ٹولہ ہوتاہے اور پھر سوکالڈ یہ جمہوری حکومتیں جن کا ٹائٹل ہے،’’عوام پر عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے‘‘۔  جو حقیقت میں، عوام کو لوٹنا،عوام کے ذریعے ’’خواص کے لیے ہوتی ہے۔آخر جب حکومت ہے تو خیراتی اداروں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے کیونکہ ’’خیراتی ادارے‘‘وہی کام عوام ہی سے چندے لے کر کرتے ہیں یاکرنے کا دعویٰ کرتے ہیں یاکرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں جو حکومت کے کرنے کے ہیں بلکہ حکومت کے فرائض اور عوام کا حق ہوتے ہیں۔سیدھی سی بات ہے۔

حقوق وفرائض کا زوج ایک دوسرے سے مربوط اور مشروط ہوتا۔حکومت کے جو ’’حقوق‘‘ہوتے ہیں، جیسے ٹیکس، بلز،فیس اور دوسرے واجبات، عوام ادا کرے۔وہ عوام کے ’’فرائض‘‘ ہوتے ہیں اور ہونا چاہیے لیکن اس کے بدلے عوام کے جوحقوق اور حکومت کے فرائض ہیں وہ کہاں ہیں؟تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ حقوق و فرائض دوطرفہ ہوتے ہیں مثلاً میرا یہ فرض اور آپ کا حق ہے کہ میں آپ کو ’’اسلام علیکم‘‘کہوں تو جواب میں میرا حق اور آپ کا فرض ہے کہ آپ مجھے وعلیکم اسلام میں جواب دیں۔

دنیا میں کسی کا کوئی ایسا ’’حق‘‘نہیں جس کے ساتھ کوئی’’فرض‘‘نہ ہو اور نہ ہی ایسا کوئی فرض جس کا کوئی حق نہ ہو۔لیکن یہاں ہم یہ عجوبہ دیکھتے ہیں کہ حکومتیں اپنا ’’حق‘‘تو بڑھ بڑھ کر چڑھ چڑھ کر منہ مانگے اور بڑی حد تک’’بہت زیادہ‘‘وصول کرتی ہے لیکن ’’فرض‘‘ ایک بھی ادا نہیں کرتی۔بلکہ ’’فرائض‘‘کی ادائیگی کے لیے جو محکمے،ادارے بڑے بڑے افسر وزیر اور طرح طرح کے نکھٹو پالتی ہے وہ حکومت کے فرائض اور عوام کے حقوق اداکرنے کے بجائے الٹا عوام کو مزید عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔

اگرکسی کے گھر چوری ہوئی، ڈاکہ پڑا، لٹ گیا اس کی عصمت وعزت چلی گئی یہاں تک اگر جان بھی چلی گئی۔تو ان اداروں میں کہاں اور کونسا مقام ہے جواس کی داد رسی کرے بلکہ ’’دادرسی‘‘کے لیے اسے لمبے لمبے ہفت خوان سرکرنا پڑتے ہیں، اگر اس میں ’’زور‘‘ہے توقدم قدم پر’’زر‘‘نچھاور کرکے ’’دادرسی‘‘پالے گا۔لیکن جس کے پاس’’زور‘‘اور’’زر‘‘ہو۔وہ  اسے کوئی لوٹ ہی نہیں سکتا، مار ہی نہیں سکتا، اس کی عزت وعصمت کوتار تار نہیں کرسکتا بلکہ وہ دوسروں کی کرتاہے۔ مسئلہ توان کی داد رسی کاہے جو ’’زور و زر‘‘نہیں رکھتے۔ بات بہت پھیل جائے گی لیکن مختصر طور پر اسے سمیٹ کر اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ خیراتی ادارے، خیراتی لوگ بھی اسی حکمرانیہ یا اشرافیہ کے ساجھے دار اور چٹے بٹے ہوتے ہیں۔

یا یوں کہیے کہ ایوان اقتدار کا ’’زینہ‘‘ ہوتے ہیں۔ عوام کو ’’حقوق‘‘دینے کے بجائے ’’بھیک دینے‘‘ والے حکومت ہی کا ایک ذیلی دستہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کو بھی حکومت میں آنا ہوتاہے اور وہی کرنا ہوتاہے جو حکومت کررہی ہے، اسے اگر حکومت کی لوٹ مار کے لیے اور فرائض سے کوتاہی کے لیے ایک تحفظ،ایک چھترچھایا یامددگار سمجھیں تویہی حقیقت ہے باقی سارا ’’تام جھام‘‘ ایک جھوٹ ایک ڈھونگ ہے۔ یوں کہیے کہ حکومت جو کام ٹیکسوں سے کرتی ہے، وہ کام یہ ’’چندوں‘‘ سے کرتے ہیں اور وہ کام ہے عوم کی رگ رگ سے ان کا لہو نچوڑنا۔

پہلے رگ رگ سے میری خون نچوڑا اس نے

اب وہ کہتے ہیں کہ رنگت تو تیری پیلی ہے

سوچتا ہوں کہ اب انجام سفر کیا ہوگا

پاؤں بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔