کراچی کی تباہی پر سیاسی و انتظامی اداروں کی بے حسی افسوسناک!

عامر خان  بدھ 2 ستمبر 2020
سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ عوام کا ان پر ختم ہوتا ہوا اعتماد اس پورے نظام کے لیے کس قدر خطرناک ہے۔فوٹو : فائل

سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ عوام کا ان پر ختم ہوتا ہوا اعتماد اس پورے نظام کے لیے کس قدر خطرناک ہے۔فوٹو : فائل

 کراچی:  ملک کے معاشی حب کراچی کو گزشتہ دنوں ہونے والی بارشوں نے ڈبو کر رکھ دیا۔

ان طوفانی بارشوں نے شہر کوکسی سیلاب زدہ بستی میں تبدیل کردیا اور یہاں کے باسی بے یار و مدد گار اپنے قیمتی سامان اور اثاثوں کو بہتا ہوا دیکھتے رہے۔کسی یتیم بچے کا منظر پیش کرنے والے کراچی کی داد رسی کے لیے سڑکوں پر نہ تو حکومت نظر آئی اور نہ ہی اپنی مدت ختم کرکے جانے والے بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو عوام نے اپنے درمیان موجود پایا۔

بارشوں کے باعث مختلف مقامات ندی نالوں میں ڈوبنے اور کرنٹ لگنے کے واقعات میں صوبہ بھر میں وزیراعلی سندھ کی پریس کانفرنس کے مطابق 80 سے زائد افراد اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ تیز بارش کے دوران اگر ریلیف کا کوئی کام کرتا ہوا نظرآیا تو وہ افواج پاکستان  اور رینجرز کے جوان تھے جبکہ فلاحی اداروں نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر شہریوں کے دکھوں کا درماں بننے کی کوشش کی۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں اس مرتبہ مون سون کے سیزن میں شہر میں تاریخی بارشیں ہوئی ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کے باوجود حکومتی ادارے سوتے رہے اور عوام کے ارمانوں کا جنازہ نکل گیا۔

بارشوں نے صرف کراچی میں تباہی نہیں پھیلائی بلکہ سندھ کے اکثر اضلاع ان سے متاثر ہوئے اور سب ہی جگہ عوام کا ایک جیسا حال ہوا۔کراچی بارش کے بعد کسی تباہ حال شہر کا منظر پیش کر رہاہے شہر کے پوش علاقوں ڈیفنس،کلفٹن کے ساتھ سر جانی ٹاؤن، نیوکراچی، احسن آباد، ملیر، لانڈھی،کورنگی، ناظم آباد سمیت ہر مقام متاثر ہوا، اب بھی کئی علاقوں میں پانی جمع ہے، شہر کا انفرا اسٹرکچر اور نکاسی کا نظام تباہی کا شکار ہے۔کئی علاقوں میں بجلی بحال نہیں ہوئی ہے۔کاروباری علاقوں کی صورتحال بھی ابتر ہے۔شہر قائد میں حالیہ بارشوں کی تباہ کاریوں نے ایک نئی داستان رقم کردی ہے۔ اس پر اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ

’’کراچی کماکردے۔۔۔۔۔ تو عیش کرے حکمران ۔۔۔۔۔ جب آفت آئی شہر پر ۔۔۔۔۔ تو سوگئے حکمران۔۔۔۔۔۔‘‘

مسائل بہت ہیں ۔۔۔۔۔لیکن وسائل کی کمی کا رونا ہے۔۔۔۔اب تو جاگ جا حکمران ۔۔۔۔۔ شہر تیرا منتظر ہے ۔۔۔۔۔علاج کردے اس شہر کا اب حکمران ۔۔۔۔

تباہی سے متاثر عوام مظاہرے اور احتجاج کرتے رہے لیکن ان کے مسائل تاحال حل نہیں ہو سکے ہیں۔ بارشیں جب تباہی پھیلا کر چلی گئیں تو تمام ادارے جاگ اٹھے۔ حکومت کی جانب سے اجلاس بھی ہوئے اور کئی اقدامات دیکھنے میں آئے لیکن یہ سب کچھ کرنے میں انتہائی تاخیر ہو چکی تھی۔ پیپلزپارٹی صوبے میں 12سال سے زائد عرصے سے برسراقتدار ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ آج تک کراچی کو بارشوں کے پانی سے بچانے کے لیے نکاسی آب کا کوئی نظام ہی نہیں لا سکی ہے۔ اسی طرح شہر کے وارث ہونے کی دعویدار جماعت ایم کیو ایم پاکستان کا حال ہے۔

شہریوں نے ان بارشوں میں دیکھا کہ لوگوں کی قیمتی گاڑیاں پانی بہہ رہی ہیں اور شہر کے ”وارث ”چین کی بانسری بجاتے ہوئے اپنے گھروں میں محفوظ بیٹھے رہے۔کراچی سے قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی صرف پریس ریلیزوں میں نظر آتے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت سندھ کو تنقید کا نشانہ بنا کر ان کا فرض پورا ہوجاتا ہے۔ ادھر بارشوں کے بعد حکومت سندھ نے  کراچی کے 6 اضلاع سمیت صوبے کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے۔ مذکورہ تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز فوری طور پر نقصانات کا اندازہ لگائیں گئے جس کے بعد اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ بارشوں کے بعد صورت حال کے حوالے سے ایک جائزہ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ نے حکام کو ہدایات جاری کیں کہ بارش کے پانی کے بہاؤکو روکنے کے تمام مقامات کی نشاندہی کرکے دیں اور اگر پانی کے بہا ؤمیں کوئی بھی نجی یا سرکاری عمارت رکاوٹ بن رہی ہے تو اسے بلڈوز کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے شہر کو ٹھیک کرنا ہے اور اس کے لیے کتنے ہی سخت اقدامات کیوں نہ کرنے پڑیں، وہ کروں گا۔

دوسری جانب اسلام آباد میں بھی کراچی میں ہونے والی بارشوں کی گونج سنائی دی گئی تو وزیراعظم بھی متحرک ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ کراچی کے بڑے مسائل حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت سندھ حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہر بھر کے نالوں کی مکمل صفائی، آبی گزرگاہوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والی تجاوزات سے نمٹنا، کوڑا کرکٹ اور نکاسی آب کے مسائل کا مستقل حل تلاش کرنا اور کراچی کے عوام کو پانی کی فراہمی جیسے بنیادی اور اہم ترین مسائل کو حل کرنا ہماری ترجیح ہے۔

وزیراعظم  عمران خان نے ایک اجلاس میں شہر قائد کے بڑے مسائل کے حل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے رواں ہفتے ’’کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ کو حتمی شکل دینے کی ہدایت کردی۔ وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے منصوبے پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ‘کراچی ٹرانسفارمیشن پلان’ کراچی کے مسائل اور پاکستان کے معاشی حب کی ترقیاتی ضروریات کو مدنظر رکھ کر تشکیل دیا گیا ہے۔

امکان ہے وزیراعظم رواں ہفتہ کراچی کادورہ کر سکتے ہیں۔ اس دورے میں وہ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کوئی اہم اقدام کا اعلان کر سکتے ہیں۔اس صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ کراچی کے شہریوں کو اب محض اعلانات سے نہیں بہلایا جا سکتا ہے۔ شہر قائد کے باسی اپنے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات عملی طور پر ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔

ماضی میں بھی حکومتوں کی جانب سے مختلف دعوے دیکھنے میں آتے رہے ہیں لیکن جب مشکل وقت آتا ہے یہ دعوے ہوا کا جھونکا ثابت ہوتے ہیں۔ شہریوں کو اب وفاقی اور سندھ حکومت سے کوئی زیادہ  امید باقی نہیں رہی ہے اس لیے لوگ عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں۔کراچی میں بارشوں سے نقصانات اور متعلقہ اداروں کی ناقص کارکردگی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی ہے۔

سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ عوام کا ان پر ختم ہوتا ہوا اعتماد اس پورے نظام کے لیے کس قدر خطرناک ہے۔ حکومتوں اور  سیاسی جماعتوں نے اپنے طرز عمل میں بہتری اختیار نہیں کی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے وقتوں میں ان جماعتوں کو بھی عوام اپنے عدم اعتماد کے ذریعے ماضی کے غاروں میں نہ دھکیل دیں۔ وفاقی و سندھ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بارش و سیلاب سے متاثر سندھ کے اضلاع کے متاثرین کے لیے امدادی پیکجز کا اعلان کریں اور لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کریں تاکہ عوام کے دکھوں کا مدوا ہو سکے۔

حکومت سندھ کی جانب سے لوکل گورنمنٹ باڈیز کو تحلیل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے، جس کے بعد  تمام بلدیاتی کونسلز کے نمائندوں سمیت سندھ کی تمام ٹاؤن کمیٹیوں اور میونسپل کمیٹیوں کے چیئرمینز عہدوں سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔ حکومتی نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ تمام لوکل گورنمنٹ کے منتخب نمائندوں کی حیثیت 31 اگست سے ختم سمجھی جائے، تمام منتخب نمائندگان سرکاری گاڑیاں، دیگر مراعات واپس اور واجبات اداکریں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق تحلیل ہونے والے بلدیاتی ادارے ان چار سالوں میں عوام کے اعتماد پر پورا نہیں اتر سکے۔ خصوصاً کراچی کے حوالے سے میئر وسیم اختر کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی ہے۔

وہ اپنے پورے دور میں صرف اپنی بے اختیاری کا رونا روتے ہوئے نظرآئے۔ سابق میئر کراچی کی یہ کارکردگی آنے والے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم پاکستان کے لیے ایک بوجھ ثابت ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب بلدیاتی حکومتوں کی مدت ختم ہونے پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سندھ میں بلدیاتی حلقہ بندیوں کا اعلان کردیا ہے۔ اس حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ سندھ میں مقامی حکومتوں کی مدت اختتام کو پہنچنے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیوں کے اعلان کے باوجود وقت پر بلدیاتی  انتخابات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ تاہم جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ ان انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنایا جائے۔

ملک بھر کی طرح نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسینؓ کی لازوال قربانیوں اور ان کی شہادت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیئے کراچی سمیت سندھ بھر میں ماتمی جلوس نکالے گئے۔ حکومت سندھ اور سکیورٹی اداروں کے مربوط اقدامات کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔