کیا کھویا کیا پایا

کاش، اس پوری صورت حال کا کوئی سیاسی حل نکل آتا اور ہمارے وطن عزیز کا ایک عظیم حصہ ہم سے کبھی بھی جدا نہ ہوتا۔۔۔


سید حسنین رضوی December 15, 2013

میرے والد پروفیسر سید اظفر رضوی شہید جن کی جائے پیدائش ڈھاکا تھی، اکثر مجھے کہا کرتے تھے کہ بیٹا اﷲ نہ کرے کہ تمہارے قریب سے بھی وہ وقت گزرے جو ہم نے مشرقی پاکستان میں دیکھا تھا۔ ان کی یہ بات اکثر مجھے ایک ذہنی کشمکش میں مبتلا کردیتی تھی کہ آخر انھوں نے ایسا کیا دیکھا، سوچا؟ یا محسوس کیا کہ وہ ہر بار مجھے یہ جملہ کہنے پر مجبور ہوجاتے، میں ان سے یہ سوال ہر بار کرتا کہ آپ کو مجھے بتانا ہی پڑے گا کہ ایسا آپ نے کیا دیکھا؟ یا وہ کون سے حالات تھے جس کے پیش نظر آپ اس واقعے کو اتنی شدت غم اور افسوس کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ ان کا ایک چھوٹا سا مگر لرزا دینے والا جواب ''بیٹا! ہم نے سقوط ڈھاکا کے وقت گٹر لائنوں میں خون بہتے ہوئے دیکھا ہے۔''

میرے رونگٹے کھڑے کردیتا اور پھر ان کا نم آنکھوں کے ساتھ یہ بتانا کہ مجھے مکتی باہنی نے جان سے مارنے کی کوشش بھی کی اور ایک گولی میرے سر کو چھوتی ہوئی گزر گئی اور یہ کہ وہ اپنی موت کا انتظار ہی کررہے تھے اور مکتی باہنی بھی ان کو مردہ سمجھ کر چھوڑکر چلے گئے، رب نے زندگی دی اور وہ زندہ بچ گئے، جب گھر واپس پہنچے تو میری دادی نے ان کو پہچاننے سے بھی انکار کردیا، ظاہر ہے اس وقت ان کی حالت ہی کچھ ایسی تھی، اس پر والد صاحب کا یہ بتانا کہ جب یحییٰ خان نے ریڈیو پاکستان کے ذریعے قوم سے خطاب میں یہ کہا کہ ہم جنگلوں میں، صحرائوں میں، غرض یہ کہ ہر جگہ لڑیں گے، اس تقریر نے تمام محب وطن پاکستانیوں میں ایک نئی روح پھونک دی لیکن تھوڑی دیر بعد ہی بھارتی ٹینکوں کو سرزمین پاکستان پر چلتے دیکھ کر سب ہی کے حوصلے پست ہوگئے اور آخرکار شکست تسلیم کرلی گئی۔ یہ تمام واقعات و سانحات سن کر بحیثیت نوجوان پاکستانی میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

کاش، اس پوری صورت حال کا کوئی سیاسی حل نکل آتا اور ہمارے وطن عزیز کا ایک عظیم حصہ ہم سے کبھی بھی جدا نہ ہوتا۔ لیکن شاید قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔ اپنے والد کی زبانی جہاں یہ دل سوز واقعات سنے، وہاں یہ حوصلہ افزا بات بھی معلوم ہوئی کہ سقوط ڈھاکا کے فوراً بعد کراچی پہنچنے پر جس طرح ڈاکٹر جمیل الدین عالی اور ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی نے میرے والد اور ان کے تمام ساتھیوں کی رہنمائی فرمائی، کیا ہمیں خدانخواستہ ایسے حالات کے پیش نظر ان تمام بزرگ اور نیک نیت شخصیات کی سرپرستی حاصل ہوگی۔ مزید افسوس اس لیے بھی ہوتا ہے کہ آج کی نوجوان نسل ان تمام واقعات و سانحات سے نہ صرف بے خبر بلکہ شاید جاننا بھی نہیں چاہتی اور مجھے بھی ذاتی طور پر ان تمام واقعات کے بارے میں صرف اسی لیے معلوم ہے، کیونکہ میرے آبائو اجداد کا تعلق ہندوستان کے صوبہ بہار اور مشرقی پاکستان سے ہے۔

آج جب کہ ہم ایک جدید دور میں رہ رہے ہیں اور یہ کہ معلومات کا حصول نہایت ہی آسان ہے، کیا نوجوان نسل ہماری ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کو تیار ہے؟ کیا آج ہماری نوجوان نسل محنت، ہمت، لگن اور جذبے کی کوشش کو عملی جامہ پہنانے کو تیار ہے؟ ہر سال 16 دسمبر کو مضامین اور آرٹیکلز بھی لکھے جاتے ہیں اور یہ کہ شہر بھر میں سقوط ڈھاکا کے حوالے سے تقریبات کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے لیکن ہمارے نوجوانوں میں سے کتنے ایسے ہیں جو کہ یا تو ایسی تقاریب میں شرکت کرتے ہیں یا اس حوالے سے مضامین کا مطالعہ کرتے ہیں۔ آج اس عمل کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ نہ صرف بچوں اور نوجوانوں کو اس المناک واقعے کے بارے میں پڑھایا جائے بلکہ ان میں شعور بیدار کیا جائے کہ آخر ایسے کیا حالات پیدا ہوگئے تھے کہ پاکستان دولخت ہوگیا۔

آج جب کہ مملکت خداداد پاکستان ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے، اس بات کی بے حد ضرورت ہے کہ ہم بحیثیت قوم خصوصاً نوجوان نسل کو انتشار کا شکار ہونے سے جس حد تک ہوسکے بچائیں۔

موجودہ حالات میں یہ بہت ضروری ہے کہ نوجوانوں کو تاریخ سے مکمل آگاہی فراہم کی جائے اور سقوط ڈھاکا سے متعلق سچائی اور حقیقت کا کوئی بھی حصہ پوشیدہ نہ رکھا جائے۔ دراصل قومیں اپنی تاریخ سے ہی سیکھا کرتی ہیں، لیکن جب تاریخ کو ہی ہمارے سامنے مسخ کرکے پیش کیا جائے گا تو شایدکوئی ہمارا پرسان حال نہ ہو۔

مقبول خبریں