ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی شخصیت و خدمات

نسیم انجم  اتوار 20 ستمبر 2020
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ڈاکٹر سکندر حیات میکن اپنی محنت اورکاوش کی بدولت ادب کے افق پر جگمگا رہے ہیں وہ دس کتابوں کے مصنف و مولف ہیں ڈاکٹر سکندر حیات تحقیق کے آدمی ہیں، یہ راہ دشوار گزار ہے اس پر چل کر منزل تک پہنچنا آسان نہیں ہے، سخت مشقت درکار ہوتی ہے۔ حصول مقصد کے لیے دور دور تک کا سفرکرنا پڑتا ہے یہ اسفار مطالعہ تحریر اور وہ بھی اپنی من پسند کتب پر مشتمل ہوتا ہے، ذہنی اور بدنی ریاضت ہی ساحل کا پتا دیتی ہے۔

ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے اپنی جدوجہد اور ادب سے بے پایاں محبت کے تحت تحقیقی امور انجام دیے ہیں۔ ان کی چند کتابوں کے نام جن کے عنوانات سے اچھی طرح اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کن قابل قدر شخصیات اور موضوعات کو قلم کی گرفت میں لاچکے ہیں۔(1)۔جامعاتی تحقیق، چند اہم زاویے۔ (2)۔ بحر ادب کے دو شناور۔ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ کتاب ڈاکٹر وزیرآغا اور انور سدیدکی فہم و سخن اور تنقید نگاری پر مشتمل ہے۔ (3)۔اردو میں سوانحی تحقیق۔ (4)۔ افسانوی نثر پر تحقیق۔ (5)۔ اردو شاعری پر تحقیق، وغیرہ وغیرہ۔

زیر نظرکتاب ’’ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی شخصیت وخدمات‘‘ کے عنوان سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی ہے۔ ڈاکٹر سکندر نے مذکورہ کتاب اپنے شفیق استاد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی پر بحیثیت شاگرد اپنی بے پایاں محبت اور عقیدت کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے اور ان کی، علمیت و قابلیت، منکسرالمزاجی اور شفقت و محبت کا اعتراف بڑی ہی قدردانی کے ساتھ کیا ہے، پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی ادبی امور پر اس طرح خامہ فرسائی کی ہے کہ شخصی حوالے سے سکندر محبتی آدمی ہیں، ان کا پیش نظرکارنامہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی شخصیت اور خدمات ہے ان کی اسی وصف محبت اور اسی طرز احساس کا اظہاریہ ہے، انھوں نے اپنے استاد محترم کی شخصیت اور ان کی علمی اور ادبی زندگی کے مختلف اور متنوع رنگوں کو کشید کرکے ایک کتاب میں سمو دیا ہے۔

اس میں ان کے بصیرت افروز اور محبت آمیز اسلوب نگارش کے چراغ بھی لو دے رہے ہیں اور ان کی رعنائی احساس کی خوشبو بھی رقص کناں ہے، فکر و فرہنگ کی یہ آب و تاب ان کی محبت، عقیدت اور ارادت کی دلیل ہے۔ اس کتاب کی ہر سطر محبت کی خوشبو میں گندھی ہوئی ہے اس کا ہر جملہ عقیدت کے رنگوں میں ڈھل گیا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے کتاب کا بہترین تجزیہ اور تعارف پیش کیا ہے کہ حقیقتاً ایسا ہی ہے، ہونہار شاگرد نے حقِ معلمی بہت خوبصورتی اور جاں فشانی کے ساتھ ادا کیا ہے کہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی زندگی بھر کی کمائی جوکہ علم و دانش اور اعلیٰ کردارکی شکل میں ہے اجاگر ہوگئی ہے۔

تحقیق و تنقید کے حوالے سے اہم نام ڈاکٹر معین الدین عقیل کا بھی ہے۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل ڈاکٹر سکندر حیات میکن کے اس وقیع کاوش کے بارے میں اس انداز سے رقم طراز ہیں کہ ’’موصوف کا مطالعہ اپنے موضوعات پر کچھ کم سیر حاصل نہیں، انھوں نے لگتا ہے بڑی جاں فشانی اور خلوص و جستجو سے اپنے موضوعات سے متعلق مواد اور ماخذ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے مطالعے کو تکمیل دی ہے۔

ڈاکٹر ہاشمی کی شخصیت و خدمات کا مطالعہ دریا کوکوزے میں بند کرنے کے مصداق ایک بسیط اور وسیع تر موضوع کا خاصی جامعیت کے ساتھ احاطہ کرنے اور اس کا حق ادا کرنے کی ایک کوشش کی ہے جو اپنی جگہ خاصی کامیاب اور متاثرکن ہے، یہ مطالعہ میں سمجھتا ہوں کہ اس وجہ سے کامیاب ہو سکا یا فاضل مصنف نے اس کا حق ادا کردیا کہ اس کے پس پشت خود مصنف کی ایک تو مطالعے کی وسعت اور دوسرے ان کا خلوص اور لگن بھی ہے، جو ان کے ہم رکاب رہے ہیں تب ہی اپنے ہر دل عزیز استاد کی شخصیت اور خدمات کے مطالعے کا حق ایک مثالی صورت میں ادا کرسکتے ہیں جو قابل ستائش ہے۔‘‘

ڈاکٹر سکندر نے حق استاد بہت لگن اور خلوص کے ساتھ مختلف ابواب کی شکل میں ادا کیا ہے۔ پہلے باب سے آخری باب تک اپنے استادکی مدح سرائی سچے اور روشن لفظوں سے تحریرکی ہے۔ کتاب کے اسباق پر جو شہ سرخی درج ہے وہ یہ ہے ’’میرے پیارے استاد محترم‘‘ پھر ان کے کارنامے اور اوصاف بیان کیے ہیں اور وہ خاص کارہائے نمایاں درج کیے ہیں جن سے ہر شخص واقف نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ہاشمی صاحب کی کالم نگاری پر روشنی ڈالی ہے، بطور افسانہ نگار انشائیہ نگاری کا ذکر مفصل بیان کیا ہے کہ قاری تشنگی محسوس نہیں کرتا ہے ان کے سفر ناموں، مکتوب نگاری اور بحیثیت ممتحن کے ان کی خوبیوں کو بیان کیا ہے۔

ڈاکٹر سکندر لکھتے ہیں ’’پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی باغ و بہار شخصیت، علمی، ادبی اور شخصی حوالے سے اوصاف کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے، ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور فکر و فن اور بالخصوص ان کی اقبال شناسی پر ملک کے نامور ناقدین اور محققین نے ان کو داد و تحسین پیش کی ہے، انھوں نے بطور ممتحن کس طرح تحقیقی و تنقیدی مقالات کی جانچ پرکھ میں اپنا کردار ادا کیا ہے، ملک کی مختلف جامعات کے ساتھ ساتھ بھارت کی بھی مختلف جامعات کے تحقیقی وتنقیدی مقالات کا ممتحن ہونے کا اعزاز ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کو حاصل رہا ہے، سیکڑوں مقالات پر ان کی رائے تحقیقی اور تنقیدی معیار کی کسوٹی سند کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر سکندر نے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی افسانہ نگاری کو احاطہ تحریر میں لاتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان افسانوں کی تعداد اور سن اشاعت کا ذکرکیا ہے بلکہ افسانوں پر تبصرہ اور افسانوں کے کچھ خاص حصوں کو بھی شامل تحریر کیا ہے اور اپنے قارئین کو اس بات کی بھی آگاہی دی ہے کہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کا پہلا افسانہ ’’پلندے‘‘ تھا اور بقول سکندر میکن ’’پلندے‘‘ افسانے کے فنی رموز کا پورا احاطہ کرتا ہے، ہاشمی صاحب کے افسانوں میں متوسط طبقے کی زندگی کی مثالیں زیادہ ملتی ہیں۔ ڈاکٹر ہاشمی کے لائق اور ہونہار شاگرد نے اپنے استاد کے عالمانہ اورمحققانہ گوشوں کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا ہے مکتوب نگاری کے حوالے سے جن کتب کا جائزہ لیا ہے ان کے عنوانات ’’مکاتیب آرزو بہ نام رفیع الدین ہاشمی‘‘۔

گیان نامے بہ نام رفیع الدین ہاشمی اقبالیاتی مکاتیب (اول) بہ نام رفیع الدین ہاشمی، مکاتیب رفیع الدین ہاشمی بہ نام عبدالعزیز ساحر، اقبالیاتی مکاتیب (اول) کے مرتب ڈاکٹر خالد ندیم ہیں۔ مکاتیب کے اس مجموعے میں اقبالیاتی ادب کی ایک کہکشاں ہے جس کے ہر ستارے کی ایک اپنی چمک دمک ہے، اس کتاب میں سب سے زیادہ خطوط پروفیسر جگن ناتھ آزاد کے ہیں جن کی تعداد گیارہ ہے، اسی طرح عبداللہ قریشی کے چھ ، مشفق خواجہ کے پانچ خطوط کے ساتھ دوسری علمی و ادبی شخصیات کے مکتوبات شامل ہیں۔

آخر میں ڈاکٹر سکندر حیات میکن کا خط بھی ان کی عقیدت و محبت کا مظہر ہے۔بے حد محبت، قدردانی و جذباتِ ممنونیت کے ساتھ تحریرکیا ہے۔ بے شک یہ کتاب ایک بہترین اور قابل قدر ہے اور خصوصاً پی ایچ ڈی کرنیوالے طلبا کے لیے معلومات کا خزانہ اور ایک نادر تحفہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔