سیاسی منظر نامہ اور زمینی حقائق

روز کوئی افواہ ہر لمحہ و ہر شب کسی ٹی وی ٹاک سے کوئی پھلجھڑی سنائی دیتی ہے۔


Editorial October 11, 2020
آج ووٹرز تذبذب میں ہیں کہ سیاست کیا سے کیا ہونے والی ہے۔ فوٹو: فائل

ملکی سیاست کے تلاطم خیز منظر نامہ میں بے حد دلچسپ صورتحال دکھائی دے رہی ہے، کورونا کے آئینہ میں ملک کی معاشرتی فضا کچھ دنوں کی آزاد روی کے بعد اب پھر سے وائرس کی بندشوں، ماسک اور سماجی فاصلے کی پابندیوں میں جکڑے جانے کو ہے۔

ملک کے تمام صوبوں میں شادی ہالز اور اجتماعات کو محدود کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں جب کہ دوسری جانب سیاست کا میدان کھلا ہوا ہے، سیاسی سٹیک ہولڈرز میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے، چرخ کہن کانپ رہا ہے، قوم نے ابھی دو سال ہوئے تھے کہ انتخابی ہلچل کا منظر دیکھا تھا، پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لیا۔

عمران خان نے اپنی انتخابی مہم میں سابقہ حکومتوں کو سخت نکتہ چینی کا نشانہ بنایا، انھوں نے کنٹینر کے ذریعے اپنی سیاسی جدوجہد کو قوم کے سامنے ایک آئیڈیل حکومت بنا کر پیش کرنے کا وعدہ کیا، قوم سے عہد لیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں پاکستان کی تقدیر بدلنے میں کامیاب نہیں رہیں اس لیے عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہو کر وہ اس استحصالی، غیر منصفانہ، فرسودہ اور ظالمانہ سسٹم کو زمیں بوس کر دینگے، ایک نیا پاکستان لائینگے، انھوں نے عہد کیا کہ وہ تبدیلی لائینگے۔

جب 2018کے الیکشن ہوئے تو عمران خان کو وزارت عظمیٰ ملی، ایک ٹیم انھوں نے تیار کی، ماضی کی حکومتوں کو ایک ٹھکرائے ہوئے سیاسی ملبہ سے زیادہ انھوں نے کوئی حیثیت نہیں دی، عوام منتظر، متجسس اور پر امید تھے کہ حالات بدلیں گے، اگر نواز شریف اور آصف زرداری عوامی سیاست، مستحکم جمہوری نظام، مضبوط معیشت اور آزاد خارجہ پالیسی کا دور نہیں لاسکے تو پی ٹی آئی عمران خان کی قیادت میں ایک انقلاب ضرور برپا کرے گی۔

حقیقت میں مبصرین دو بنیادی باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک نئی تبدیلی کے آرزو مند تھے، ان کا خیال تھا کہ عمران دنیا کے مانے ہوئے فاسٹ باؤلر اور بہترین کپتان تھے، ان کی مینجمنٹ اور ٹیم اسپرٹ پر نگاہ عقابی تھی، عالمی سطح پر مالیات، حکومت، ریاست، عالمی سٹیبلشمنٹ، شوبز اور گلیمر کی دنیا ان کے ساتھ تھی، وہ پر کشش شخصیت کے مالک تھے، دوسرا پلس پوائنٹ ان کا قومی اداروں کو ایک پیج پر رکھنے کا تھا، جس کے باعث انھیں یقین تھا کہ وہ بغیر کسی دشواری اور ممکنہ بحران کے جمہوری سفر کو آگے لے کر چلیں گے۔

کسی مبصر نے اگر انھیں ہوم ورک یاد دلایا، یا داخلی اور خارجی پالیسی کے اہم اور حساس پہلوؤں پر بریف کرنے کی کوشش کی یا پارٹی منشور پر عمل کرنے کے لیے ہائی کمان کو اہمیت دینے پر زور دیا تو اس پر توجہ نہیں دی گئی، اصل میں ملکی سیاست میں جو ٹرانسفر آف پاور ہوئی تھی وہ ایک نہیں دو سابقہ حکومتوں یعنی پی پی پی اور (ن) لیگ کے اقتدار کا دی اینڈ تھا، بقول اپوزیشن الیکشن میں رگنگ، انجینئرنگ اور بوگس ووٹنگ کے معاملات الیکشن کمیشن نے دیکھے لیکن جب حکمرانی شروع ہوئی تو اس دن سے عوام کو سو دن دیے گئے کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کو پرکھ لیں، اس کے بعد ایک سال گزر گیا۔

پھر دو سال مزید عوام انتظار کرتے رہے کہ کچھ تبدیلی آئے گی تاہم اس عرصے میں ملکی سیاست کے کئی اوراق پلٹے گئے، تجزیہ کاروں، میڈیا، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی میں ایک خاموش اضطراب جنم لینے لگا، لوگ بیچارے روٹی روزگار کے آسرے میں تھے کہ انھیں کورونا نے آلیا، معیشت کی سست روی نے دھمال ڈال دیا، وائرس درحقیقت ایک سیاسی چنگھاڑ کا بہانہ بنا، پھر مون سون بارشوں نے قیامت ڈھا دی، عوام، سیاسی کارکن اور دانشور جو پی ٹی آئی سے وابستہ نہیں تھے اور تبدیلی کو آتا دیکھنا چاہتے تھے وہ عدم اطمینان کا شکار ہوئے، اس تقابل میں لگ گئے کہ اگر (ن) لیگ اور پی پی اتنی خراب حکمرانی کرگئے تو پی ٹی آئی شفاف حکمرانی لانے میں اس قدر تاخیر سے کیوں کام لے رہی ہے۔

وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اگر حکومت کی اقتصادی، سیاسی اور داخلی و خارجہ پالیسی کے میکرز حالات کا جائزہ لیتے ہوئے عوام کو بنیادی ریلیف مہیا کرنے کے اقدامات کرتے اور زندگی کے حساس ترین معاملات کی اہمیت کے مطابق دلیرانہ، دانشمندانہ اور معروضی فیصلے کرتے، بیوروکریسی، معاشی صورتحال، تعلیم، صحت، روزگار اور مہنگائی کے حوالہ سے ان کے ماہرین، پر جوش رہنما اور کارکن ایک تبدیل شدہ پاکستانی سماج کی تشکیل نو کے کام کی بنیاد ڈالتے تو کامیابی حاصل ہوسکتی تھی، ضرورت اس بات کی تھی کہ قوم کو اس بات کا یقین دلایا جاتا کہ تبدیلی ایک نئے سیاسی و اقتصادی نظام کے قیام کی ،کی جا رہی ہے اس لیے عوام کچھ انتظار کریں۔

حکومت جلد ہی زندگی کے اہم شعبوں کی قلب ماہیت کرتے ہوئے اہم ٹرانسفارمیشنل اور ٹرانزیشنل اقدامات کر کے مستقبل کا روڈ میپ قوم کے سامنے رکھ دیگی، بدقسمتی سے ایسا کوئی روڈ میپ حکومت نہیں لاسکی، عوام کا صبر و تحمل دیدنی تھا، مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ کی دستیابی مشکل ہونا شروع ہوئی تھی، بیروزگاری کے خاتمے کے لیے صنعتی ترقی اور برآمدات، سرمایہ کاری، کاروبار اور ملکی و غیر ملکی تجارتی سرگرمیوں کے لیے جس بڑے بریک تھرو کی باتیں کی جاتی رہی تھیں، کوئی غیر معمولی، رجحان ساز اور نتیجہ خیز پالیسی میکنگ نہیں ہوئی۔

اصلاحات کے جتنے دعوے کیے گئے وہ سرد پڑتے گئے، معیشت کی تباہی میں ملوث جن مافیاز کو عبرتناک سزائیں دینے کے اعلانات ہوئے وہ سب بچ کر نکل گئے، سیاست میں ایک کام رہ گیا احتساب کا اور نیب کو اس کام کے پیچھے لگا دیا گیا، جو کام عدالتوں، تحقیقاتی، تفتیشی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا تھا وہ چیف ایگزیکٹیو نے خود سنبھال لیا، پنجاب میں آئی جیز اور بیوروکریٹس کی تبدیلی جس برق رفتاری اور سرعت کے ساتھ ہوئی اس سے عثمان بزدار کی انتظامی صلاحیت سوالیہ نشان بن گئی مگر وزیر اعظم کا اعتماد انھیں حاصل رہا، آج بھی حاصل ہے۔

سیاست میں تعصبات، کردار کشی، الزامات اور ذاتیات کی روش سے سیاسی اور جمہوری عمل کو شدید دھچکا لگا، پارلیمنٹ کی بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہوتے رہ گیا، ایسی بلڈوز قانون سازی ہوئی کہ عقل دنگ رہ گئی، سیاسی افہام و تفہیم کا لفظ سیاسی ڈکشنری سے نکال دیا گیا، ایک نیا جارحانہ طرز تخاطب متعارف ہوا جس میں وزرا، مشیران اور معاونین خصوصی کا عوامی مسائل کے حل یا ان سے روابط اور سیاسی تعلق کی روایت ختم ہوگئی۔

آج ووٹرز تذبذب میں ہیں کہ سیاست کیا سے کیا ہونے والی ہے، روز کوئی افواہ ہر لمحہ و ہر شب کسی ٹی وی ٹاک سے کوئی پھلجھڑی سنائی دیتی ہے۔ ایک منتخب حکومت کو فیصلہ کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے، اس میں دو سال کا عرصہ بڑا crucial ہوتا ہے، مگر محسوس ہوتا ہے کہ سیاست دان اور حکمران ابھی فیصلہ نہیں کر پائے کہ انھیں کیسا پاکستان کب اور کیسے بنانا ہے۔

سیاست میں ایک چیز ہوتی ہے عملیت پسندی۔ اس کے جو ''منتظرین'' میں تھے وہ آج عوام کی صفوں میں بطور ''متفکرین'' سامنے آتے ہیں ان کا سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان اپنے دعوے کب پورے کریں گے؟ یہ فیصلہ سازی کے بحران میں مبتلا پاکستان کے ہر شہری کا سلگتا سوال ہے، ملک کی انٹیلیجنشیا، مسیحا، اسپورٹسمین، سماجی کارکن، پروفیشنلز، نئی نسل اور خواتین اور مذہبی رہنما حکمرانوں سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کس نے حکمرانوں کی سیاسی ذہانتیں، مہارتیں، خوش اخلاقی، تدبر اور فیصلہ سازی ان سے چھین کر انھیں ایک دوسرے سے دست و گریباں کردیا ہے۔

تجزیہ کاروں نے قلمکاری کے ذریعے حکومت کو درست فیصلے کرنے کی صائب رائے دی لیکن قلم کی حرمت بھی اہل اقتدار کے ہاتھوں قائم رہے تو بات بنے، ایک انداز نظر یہ ہے کہ حکومت کو اطلاعات اور ابلاغ کے بڑے بحران کا سامنا ہے، اس ٹریپ میں حکومت خود پھنس گئی ہے، وہ اپوزیشن کے ڈراؤنے خواب سے چھٹکارا پانے میں کامیاب نہیں ہوئی، وہ کام جو عدلیہ اور نیب کے ہیں، ملک کو کرپشن سے بچانے کا مشن ہے تو انھی کا ہے، حکومت کیوں اس دلدل سے بالاتر ہو کر دوسرے اقدامات اور نتیجہ خیز اقدامات اور انتظامات کو یقینی نہیں بناتی۔

سرمایہ کاری کی باتیں ہوتی ہیں مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ کوئی ملک کے اندر سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں، حقیقت کے خرافات میں کھونے کا عجیب منظر آج کی سیاست میں نظر آتا ہے، ایک دن کسی ادارے کی بیلنس شیٹ شاندار بریک تھرو بتاتی ہے دوسرے دن روزویلٹ ہوٹل کے فروخت کی خبر چار دانگ عالم میں پھیل جاتی ہے، سیاست جنگلی بھینسوں کے ٹکراؤ یا بل فائٹنگ کا تماشہ ہے، عوام کو آج بھی توقع ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرکے قومی معاملات اسمبلیوں میں طے ہو جائیں، تدبر و تحمل سے سیاسی اقدامات ہوں، بیانات کی شدت میں کمی لائی جائے، سیاسی شو کو نواز شریف اور عمران کے مابین تصادم یا تاریخ کے جبر اور مکافات عمل سے تعبیر نہ کیا جائے۔

یہ سیاسی عمل ہے، ملکی سیاسی تاریخ نے ایسے سانحے بارہا دیکھے ہیں، ہمیں تاریخ یہی بتاتی ہے کہ سیاسی سانحے بھی ہمارے ضمیر میں کوئی خلش نہیں ڈالتے ، ملک کے فہمیدہ حلقے کہتے ہیں کہ ہم تاریخ کے اس الزام پر کیوں کان نہیں دھرتے کہ '' ہم نے تاریخ سے کبھی کوئی سبق نہیں سیکھا'' آج لیڈرشپ کے امتحان کا مرحلہ ہے، سیاسی شو ڈاؤن درد انگیز ہے، ملک کو صدہا مسائل درپیش ہیں، عوام دو وقت کی روٹی کو محتاج ہیں، یقین جانیے، ٹانگیں سیاستدانوں کی نہیں جمہوریت کے حسن کی دیوی کی کانپ رہی ہیں، جمہوریت کو سیاست کی دار پر کھینچے جانے کا منظر عوام کی خوشحالی میں بدل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ مرزا غالب نے اپنے اس شعر میں خلق خدا کے دل گرفتہ جذبات اور عزائم کی کیسی اعلیٰ تصویر کھینچی ہے:

غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے

بیٹھے ہیں ہم تہیہِ طوفاں کیے ہوئے

مقبول خبریں