سیاسی محاذ آرائی میں اضافہ اورمعیشت

ایڈیٹوریل  پير 19 اکتوبر 2020
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بارے میں بھی وزیراعظم عمران خان نے اظہار خیال کیا

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بارے میں بھی وزیراعظم عمران خان نے اظہار خیال کیا

ملک کی سیاست اس وقت ایک بھونچال کا شکار ہے‘حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے ۔ گوجرانوالہ میں اپوزیشن کے جلسے میں ہونے والی تقاریر کے بعد حکومت نے بھی جارحانہ جوابی حکمت عملی اختیار کر لی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا لب و لہجہ بھی ماضی کے مقابلے میں خاصی حد تک سخت نظر آیا ہے۔

اگلے روز وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں ٹائیگر فورس پورٹل کے افتتاح کے موقعے پر تقریب سے خطاب کے دوران بہت جارحانہ طرز عمل اختیار کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ گوجرانوالا میں جو سرکس ہوا، وہاں بہت سے فنکار تھے۔دوبچوں نے بھی تقریریں کیں،ان کا اشارہ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی طرف تھا تاہم وزیراعظم نے کہا کہ وہ ان پر بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ان پر تبصرہ کرنا فضول ہے۔انھوں نے میاں نواز شریف کی تقریر پر شدید ردعمل ظاہر کیا ۔ اسی طرح حکومتی وزراء نے بھی جارحانہ تقاریر کی ہیں۔ یوں ملک کے سیاسی منظرنامے میں تلخی کا رنگ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔

وزیراعظم نے کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ٹائیگر فورس پورٹل کی تقریب سے خطاب کے دوران بہت سی باتیں کیں ‘ انھوں نے اپنی تقریر میں پاک فوج کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ افواج پاکستان نے ملک و قوم کے دفاع اور مشکل حالات میں حکومت کا ساتھ دیا،کراچی کی بارشیں ہوں یا کورونا کی وبا آرمی چیف جنرل باجوہ نے مشکل وقت میں ہماری حکومت کی مدد کی،اپنے دفاعی اخراجات کم کیے،خارجہ پالیسی میں ہمارے ساتھ کھڑے رہے۔

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بارے میں بھی وزیراعظم عمران خان نے اظہار خیال کیا ۔انھوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کی کئی وجوہات ہیں۔انھوں نے واضح کیا کہ جب انھیں حکومت ملی تو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی خسارہ تھا۔جب روپیہ گرتا ہے توگیس، پٹرول، بجلی سب چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں ، پام آئل مہنگا ہونے سے خوردنی تیل و گھی مہنگا ہوتا ہے،ہم ساٹھ فیصد دالیں بھی باہر سے منگواتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ مہنگائی کی دوسری بنیادی وجہ بے وقت کی زیادہ بارشیں بھی بنیں،ان بارشوں سے گندم کی پیداوار متاثر ہوئی ۔

انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ شوگر ملز مالکان تھوڑے لیکن بہت طاقتور ہیں،ان میں شریف اور زرداری خاندان بھی شامل ہیں۔ انھیں آج تک کسی نے نہیں پوچھا، وہ جو قیمت طے کرتے چینی اسی پر فروخت ہوتی تھی۔ پہلی بار اس معاملے کی تفصیلی انکوائری ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اب ہم جو پلان لے کر آرہے ہیں اس کے بعد عوام کو مہنگی چینی نہیں ملے گی۔وزیراعظم نے ٹائیگرفورس کو نصیحت کی کہ اسے کسی کام میں مداخلت نہیں کرنی،صرف موبائل فون سے تصویر کھینچ کر اسے پورٹل پر اپ لوڈ کردیں،ایکشن سرکاری انتظامیہ لے گی۔

وزیراعظم نے وضاحت کی کہ کسی بھی رضاکار فورس کا معاشرے میں بہت بڑا مقام ہوتا ہے ،ٹائیگر فورس کی اپنے قیام سے لے کراب تک جتنی بھی سرگرمیاں ہیں‘ اس پر پوری قوم کی طرف سے اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔وزیراعظم عمران خان نے ماحول کو صاف ستھرا بنانے کے حوالے سے کہا کہ انھوں نے خیبرپختونخوا میں ایک ارب پودے لگائے،ہم نے ابھی اپنے دریاؤں، پہاڑوں کو بھی صاف کرنا ہے جو آلودہ ہو چکے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے جو باتیں کی ہیں ‘ ان کی سچائی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج نے ارض پاکستان کی تعمیر و ترقی اور اس کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ قوم کو جب بھی کوئی مشکل پیش آئی ‘پاک فوج کے جوان اگلی صفوں میں ہی اپنے فرائض انجام دیتے نظر آئے۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں جو سیاسی حکومتیں آئی ‘انھوں نے وہ کام نہیں کیے جن کا کیا جانا انتہائی ضروری تھا۔ پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جس بے جگری سے جنگ لڑی ہے اس کی مثال دنیا بھر میں ملنا مشکل ہے۔

پاکستان کے اندر دہشت گردوں کا نیٹ ورک کینسر کی طرح پھیلا ہوا تھا‘ اگر ملک کی سیاسی جماعتیں اس کینسر کے خاتمے کے لیے یکسو اور پرعزم ہوتیں تو پاک فوج‘ ایف سی اور پولیس کے جوانوں کی اتنی شہادتیں نہ ہوتیں اور نہ ہی ملک کے بے گناہ شہری خود کش حملوں اور بم دھماکوں میں شہید ہوتے۔

پاکستان کی سیاسی قیادت خواہ ان کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہو یا جمہوری سیاسی جماعتوں سے ‘ان میں سے کسی نے بھی دہشت گردی کے بیانیے کی سیاسی میدان میں مزاحمت نہیں کی بلکہ ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے دہشت گردی کے بیانیے کو تقویت پہنچائی۔ ہمارے ملک کی مذہبی قیادت نے دہشت گردوں کی کارروائیوں کی کھل کر مخالفت نہیں کی بلکہ ایسے الفاظ استعمال کیے جس سے عوام الناس میں ابہام اور کنفیوژن پیدا ہوئی۔ ملک کے اندر دہشت گردوں کے سہولت کار پوری آزادی کے ساتھ سرگرم عمل رہے ۔ جس کی وجہ سے پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا اور عالمی سطح پر پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں لیکن اس کے باوجود پاکستان کو ہی تختہ مشق بنایا گیا۔ان مشکل ترین حالات میں پاک فوج نے سوات ‘شمالی وزیرستان ‘جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی ایجنسیوں میں دہشت گردوں کی سرکوبی کی ، ملک کے بڑے شہروں میں موجود ان کے سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کیا ‘ پاک فوج کی اس قربانی کی وجہ سے ہی آج ملک میں بڑی حد تک امن و امان ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔

انھیں معلوم ہے کہ ملک میں بے روز گاری اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ دیگر ہنر مند افراد بھی فیکٹریوں اور کارخانے بند ہونے کی وجہ سے بے روز گاری کا شکار ہو چکے ہیں۔ کاروباری سرگرمیوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ حکومت کو اس معاشی چیلنج کا سب سے پہلے مقابلہ کرنا چاہیے اور اس کے لیے ایک مربوط اور قابل عمل حکمت عملی کی ضرورت ہے۔باقی جہاں تک کرپشن اور کرپٹ افراد کا تعلق ہے تو اس معاملے کا براہ راست تعلق قانونی کارروائی سے ہے اور یہ عمل جاری ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قانون کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور حکومت کو اپنا فوکس معیشت پر رکھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔