اپوزیشن کا واحد ایجنڈا

شاہد کاظمی  منگل 20 اکتوبر 2020
اپوزیشن کو حقیقی عوامی ایشوز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اپوزیشن کو حقیقی عوامی ایشوز سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

راقم الحروف کی نسل کا نوجوان وہ وقت مکمل طور پر نہیں دیکھ سکا جب جہازوں سے تصویریں گرا کرتی تھیں۔ نہ ہی میری نسل کا نوجوان اس وقت کی یادیں زیادہ پختہ قلوب و اذہان میں پاتا ہے کہ جب محاذ آرائی کی سیاست کا سہارا لیتے ہوئے میوزیکل چیئر کھیلی جاتی تھی۔ انقلاب انقلاب کے نعرے لگاتے ہوئے اپنی تجوریاں بھری جاتی تھیں۔ جمہوریت کا دامن تھامے ہوئے آمریت کو یقین دلایا جاتا تھا کہ ہم تو آپ کے علاوہ کسی کی جانب آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ لیکن بہرحال کچھ گزرے قصے اور تلخ یادیں سینہ بہ سینہ میری نسل کے لکھاریوں تک پہنچی ہیں۔

پاکستان کا ایک المیہ رہا کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی سیاسی طور پر ہم مضبوط نہیں ہوسکے۔ ایک تو آمریت کا منہ جلدی دیکھنا پڑگیا۔ سونے پہ سہاگا یہ ہوا کہ حقیقی انقلابی و جمہوری رہنما جلدی چل بسے۔ جس کا نقصان ہم آج تک اٹھا رہے ہیں۔ نتیجتاً لولی لنگڑی ہی سہی جمہوریت تو ہے کے ترانے گاتے بجاتے ہم اس حقیقت سے انکار کرچکے ہیں کہ لولی لنگڑی جمہوریت کسی بھی طور پر نہ تو حقیقی جمہوریت کا نعم البدل ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس سے عوام کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ لولی لنگڑی جمہوریت یقینی طور پر آمریت کا سہارا لے کر چلے گی جو عوامی مفاد بہرحال ہرگز نہیں ہے۔ مکمل جمہوریت اور مکمل آمریت اپنے فوائد و نقصانات بھی مکمل طور پر رکھتی ہیں۔ لہٰذا لولی لنگڑی جمہوریت بھی بھلی نہیں اور نہ ہی جمہوری لبادہ اوڑھے آمریت کا کوئی فائدہ ہے۔

بیانیے دوبارہ سے تبدیل ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ رابطے ختم سمجھیے۔ نئی اننگ کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اب سنبھل کے بیٹنگ کے بجائے فاسٹ بولنگ کے شعبے میں پنجہ آزمائی کی تیاری ہے۔ میاں محمد نواز شریف سب کشتیاں جلا کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ناؤ پار ہوتی ہے یا بھنور میں پھنس جاتی ہے، بہت جلد سامنے آجائے گا۔ امیدیں پار ہونے کی ہیں لیکن توقعات بھنور میں پھنسنے کی بھی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے بے نامی گھوڑے کو نام دینا اخلاقیات کے دائرے میں ہے یا نہیں، قانونی لحاظ سے کوئی قدغن موجود ہے یا نہیں، ایسا کرکے کہیں خود آپ اپنا گریباں تو چاک نہیں کردیا؟ ان تمام سوالوں کے جوابات آنے والے دنوں میں سیاسیاست و صحافت کے طالبعلموں کو بہت کچھ سکھائیں گے۔ وکٹری اسپیچ، چار حلقے، دھرنا، پاناما لیکس، سیاست سے دیس نکالا، ووٹ کو عزت دو، جی ٹی روڈ سیاست، پھر ایک طویل خاموشی، صلح کی کوششیں، ہمیں کیوں نکالا، معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی سعی، یقین دہانیاں مشکل، ملاقاتیں بے اثر، نمائندے بے سود، تعلقات بے فائدہ، تمام توقعات و امیدیں دم توڑتی ہوئی، کوئی یقین دہانی نہیں، محفوظ راستے کی ناکامی، اور پھر آخر میں سنو یہ تمہارا لایا ہوا ہی ہے۔ اس پورے سفر میں عوام کہاں ہیں؟ شائد آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں۔ عوام کو کیا مشکلات درپیش ہیں، کسی جگہ آپ کو سننے کو نہیں ملے گا۔

ادارۂ شماریات پاکستان 51 ضروریات زندگی کی اشیاء میں سے 90 فیصد کی قیمتوں کے بڑھنے کے اعداد و شمار دے رہا ہے، لیکن ہمارا احتجاج تو صرف کرسیٔ اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کےلیے، مہنگائی سے ہمیں کیا غرض۔ 11 جماعتیں، ایجنڈا واحد، اپوزیشن میں نہیں رہنا، اقتدار کا حصول، مفادات تک رسائی، کرپشن پر پردہ، کیسز سے چھٹکارا، نیب سے جاں خلاصی، ان تمام ایجنڈا پوائنٹس کے علاوہ آپ گوجرانوالہ جلسے یا اس سے پہلے کی اپوزیشن کی کمپین کا جائزہ لے لیجیے، آپ کو کچھ اور نہیں ملے گا۔ آپ کو اس پوری مہم جوئی میں عوامی فلاح یا مفاد کے حوالے سے کچھ ایسا نہیں ملے گا جس سے آپ مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں یہ توقع لگا بیٹھیں کہ اپوزیشن جماعتیں عوامی فلاح کےلیے، عوام کے حقوق کےلیے سڑکوں پر نکل رہی ہیں۔ جناح گراؤنڈ انہوں نے بھر لیا لیکن اس گراؤنڈ میں ایک بھی بینر عوامی خواہشات کے مطابق نظر نہ آسکا۔

چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، آٹا غریب کی پہنچ میں نہیں ہے، گھی کی قیمتوں کو پر لگے محسوس ہوتے ہیں، خشک دودھ پہنچ سے باہر ہے، ڈیری مصنوعات کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھئے، دالوں کے نرخ دیکھتے ہی ہول سے اٹھتے ہیں، جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں سن کر ہی انسان کی روح پرواز کرنے کی تیاری کرنے لگتی ہے، اسپتالوں میں حالات بہتری کی جانب نہیں جارہے، تعلیمی نظام میں اصلاحات کا جن بوتل سے باہر نہیں آ پا رہا، بلڈنگ و کنسٹرکشن کے پیکیجز کے باوجود ترقی کے معاملے میں ہنوز دِلی دور اَست، کارپوریٹ اداروں سے ملازمین کو ملازمت برخاستگی کے پروانے مل رہے، کجا ایک کروڑ مزید نوکریاں، لوگ بے گھر ہورہے کجا پچاس لاکھ گھروں کا لالی پاپ، موٹر سائیکل والا سائیکل پر آرہا ہے لیکن پجارو والا لینڈ کروزر تک ترقی کررہا ہے، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم عروج پر، انصاف کےلیے پاپڑ بیلنے میں کوئی تبدیلی مستقبل قریب میں نہیں، بجلی کی قیمتوں میں دیا گیا ریلیفِ کورونا بھی واپس ہوا۔ ریلیف بھی کیسا کہ معلوم ہی نہیں اقساط کس مد میں وصول ہورہی ہیں اور پیسے کیوں اضافی لیے جارہے ہیں۔ اور شکایت اگر وزیراعظم صاحب کے ٹیکنالوجی مرکز یعنی کمپلینٹ سیل پر تو قصہ وہی پرانا اداروں کے درمیان شکایت ہی گھن چکر بن جائے اور بل تو دینا ہے جناب کہ تبدیلی ہے یہ۔ صرف مہنگائی مسئلہ ہے باقی سب تو ٹھیک ہے، وزرا و مشیران کہہ رہے ہیں، لیکن جناب ہماری بھولی بھالی اپوزیشن ان تمام حقیقی مسائل پر یکسر آنکھیں بند کیے ہوئے صرف اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونا چاہتی ہے۔

عوام کے اس جیسے لاتعداد اور مسائل ہیں جن کا رونا وہ رو رہے ہیں۔ لیکن اپوزیشن اپنا حقیقی کردار ان مسائل پر حکومت کے کان کھینچنے کے بجائے بس کرسی چاہیے ہمیں، بس کرسی۔ ارے عقل کے اندھو! تمہارا اپوزیشن کا کردار حکومت سے بھی زیادہ تگڑا ہے، اگر سمجھو تو۔ جلسہ ایک کرلیا، دوسرا کرلو گے، تیسرا بھی ہوجائے گا۔ اس کے بعد پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔ سیاسی پنڈتو! تم عوامی مسائل کو احتجاج کا موضوع بناؤ، عوام ظلم کی جس چکی میں پس رہے ہیں اس چکی کے پاٹ اکھیڑنا اپنا واحد ایجنڈا بنالو تو تمہیں کارکنان کو گاڑیاں بھر بھر کر اکٹھا نہیں کرنا پڑے گا بلکہ لوگ جوق در جوق تمہارے احتجاج میں خود شامل ہوں گے۔ لیکن میرے عزیز ہم وطنو! ہماری سادی اور بھولی بھالی اپوزیشن کو تو ان حقیقی ایشوز کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہے۔ انہیں صرف اقتدار کے مزے چاہئیں۔ انہیں کیا لگے کہ عوام کو کیا مشکلات درپیش ہیں۔ عوام کا تو فرض ہے کہ وہ پستے رہیں اور آواز بھی بلند نہ کریں۔

گزرے قصے جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے، کہ وہ دن گئے جب سڑکوں پر عوامی اجتماعات عوامی مسائل کے حل کےلیے لگا کرتے تھے، اب تو واحد ایجنڈا بس اپنی کرپشن بچانا ہے۔ اور کوئی ہم سے سوال نہ کرے یہ ہم چاہتے ہیں۔ اب نیا بیانیہ تشکیل پا چکا ہے۔ اور اس نئے بیانیے کے نقاط بہت واضح ہیں، اقتدار کا حصول، کرپشن کا دفاع، عوامی حقوق پر مجرمانہ خاموشی، اور بس۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔