افغانستان میں قیام امن کی کوششیں

ایڈیٹوریل  بدھ 21 اکتوبر 2020
پاکستان پڑوسی ملک میں دیرپا امن کے قیام کے لیے خلوص نیت کے ساتھ مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا

پاکستان پڑوسی ملک میں دیرپا امن کے قیام کے لیے خلوص نیت کے ساتھ مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا

افغانستان کے ایک اہم رہنما‘حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار ایک وفد کے ہمراہ منگل کوانتہائی اہم ایشوز پر بات چیت کے لیے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ان کا یہ دورہ 19 سے 21 اکتوبر تک ہے۔اپنے اس دورے میں انھوں نے پاکستان کی اہم ترین شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔

اپنی آمد کے روز ہی حکمت یار نے دفتر خارجہ میں وفاقی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی۔شاہ محمود قریشی نے حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ خطے میں استحکام افغانستان میں امن سے مشروط ہے،پاکستان پڑوسی ملک میں دیرپا امن کے قیام کے لیے خلوص نیت کے ساتھ مصالحانہ کردار ادا کرتا رہے گا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان واضح طور پرکہہ چکے ہیںکہ افغان مسئلے کے دیرپا حل کا واحد راستہ افغان قیادت کے درمیان قابل قبول سیاسی مذاکرات ہی ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ عالمی سطح پر  پاکستان کے موقف کو سراہا جا رہا ہے۔

بین الافغان مذاکرات کی صورت میں افغان قیادت کے پاس اپنے ملک میں امن کی بحالی کا ایک نادر موقع ہے۔میڈیا کے مطابق اس موقع پر گلبدین حکمت یار کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کواپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔دفتر خارجہ کے مطابق  افغان وفد سے ملاقات کے دوران پاک افغان تعلقات،افغانستان میں قیام امن کے لیے جاری بین الافغان مذاکرات سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اس ملاقات میں سیکریٹری خارجہ سہیل محمود، افغانستان کے لیے پاکستان کے نمایندہ خصوصی ایمبیسڈر محمد صادق بھی موجود تھے۔گلبدین حکمت یار نے وفد کے ہمراہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے بھی ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ۔ گلبدین حکمت یار کا یہ دورہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان  وسیع تر دو طرفہ روابط کے فروغ کے لیے کی جانے والی کاوشوں کا اہم حصہ ہے۔

افغانستان میں قیام امن کے لیے ان دنوں انتہائی اہم نوعیت کی پیشرفت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ انٹراافغان ڈائیلاگ کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے جو افغانستان کے بحران کے تناظر میں بڑی اہم پیش رفت ہے کیونکہ اس سے پہلے افغان طالبان افغانستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن پھر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی افغان پالیسی میں لچک پیدا کی جس کے نتیجے میں طالبان اور امریکا کے درمیان قطر میں بات چیت ہوتی رہی ‘ ان ملاقاتوں میں پیشرفت نتیجہ خیز رہی ‘ جس کا اعلان امریکا کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے متعدد مواقع پر کیا۔

زلمے خلیل زاد کئی بار پاکستان کے دورے پر بھی تشریف لائے اور انھوں نے پاکستان کے اعلیٰ حکام کو اس پیش رفت سے آگاہ کیا۔ امریکا نے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان سے بھی مدد کی اپیل کی ۔ پاکستان میں اس سلسلے میں اپنا کردار پوری تندہی کے ساتھ ادا کیا ۔ پاکستان کی ہی کوششوں کے نتیجے میں افغان طالبان اور امریکیوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر یہ بڑھتے بڑھتے انٹرا افغان ڈائیلاگ کے آغازتک پہنچا۔

پاکستان کے اسی مثبت اور اہم کردار کا نتیجہ یہ تھا کہ گزشتہ دنوں افغانستان کے ایک طاقتور رہنما عبداللہ عبداللہ پہلی بار پاکستان تشریف لائے اور انھوں نے یہاں پاکستان کے اہم حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ عبداللہ عبداللہ شمالی اتحاد کے انتہائی طاقتور رہنما ہیں اور وہ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو بھی رہے ہیں۔ افغانستان میں تاجک ازبک اتحاد کا مدارلمہام بھی انھی ہی سمجھا جاتا ہے۔

افغانستان کی اسٹیبلشمنٹ تاجک ازبک اتحاد پر ہی مشتمل ہے۔ پاکستان اور شمالی اتحاد کے رہنماؤں کے درمیان رابطہ کاری بہت کم رہی ہے لیکن اب بتدریج پاکستان اور شمالی اتحاد کے رہنماؤں کے درمیان تعلقات آگے بڑھ رہے ہیں اور باہمی غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں۔ اسی کے نتیجے میں افغان عمل آگے بڑھ رہا ہے۔

طالبان قیدیوں کی رہائی ہو رہی ہے۔ اگر فریقین اسی دانشمندی اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے معاملات کو طے کرتے گئے تو وہ دن دور نہیں جب افغانستان میں جاری باہمی خانہ جنگی کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہاں سے غیرملکی فوجوں کا انخلا بھی ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ دن جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے امن کے لیے ایک تاریخ ساز دن ہو گا۔ افغانستان میں امن قائم ہونے سے پاکستان کے لیے پورے وسط ایشیا تک پرامن رسائی ممکن ہو جائے گی اور پاکستانی بزنس مین اور سرمایہ کار قازقستان سے لے کر مینگولیا تک کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

اس کا اثر افغانستان کی اپنی ترقی پر بھی پڑے گا اور یہ ملک چند برسوں میں ہی معاشی اعتبار سے اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا۔ دہشت گردی‘ جرائم مافیا اور وار لارڈز کے خاتمے کی وجہ سے پاکستان میں خوشگوار تبدیلی آئے گی۔

ہمارے ملک میں بھی دہشت گردی اور جرائم میں غیرمعمولی کمی واقع ہو گی۔ پاک افغان بارڈر محفوظ ہو جائے گا۔ پاکستان افغانستان کی سرحد کے ساتھ جو باڑ لگا رہا ہے ‘ وہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ دنیا کی تمام ریاستوں کا اولین فرض یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائیں۔ جن ریاستوں کی سرحدیں محفوظ ہیں وہاں جرائم مافیاز اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا تقریباً نا ممکن ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں گزشتہ 70برسوں سے اپنی شمال مغربی سرحد پر توجہ نہیں دی۔ پاکستان کی دفاعی پالیسی میں شمال مغربی سرحد کو محفوظ سمجھا گیا اور ساری توجہ مشرق کی جانب مرکوز کر دی گئی۔ افغانستان اور ایران میں انقلاب آنے کے بعد خطے کی صورت حال مکمل طور پر تبدیل ہو گئی۔

یہ ایک طویل کہانی ہے جسے ہمارے پالیسی ساز بخوبی سمجھتے ہیں۔ اس کہانی کو بیان کیے بغیر آگے بڑھتے ہوئے آج کی بات کریں تو پاکستان کے لیے شمال مغربی سرحد کو محفوظ اور فول پروف بنانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مشرقی سرحد کو بنایا گیا ہے۔ ایران اور افغانستان کے ساتھ طویل سرحد انتہائی نرم رہی ہے اور اب بھی یہ پوری طرح محفوظ اور فول پروف نہیں بنی ہے۔ اس طویل سرحد کو مضبوط اور محفوظ بنانا صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں ضروری اور فائدہ مند نہیں بلکہ افغانستان اور ایران کے بھی بہترین مفاد میں ہے۔ اس لیے کسی بھی ملک کو سرحد کو محفوظ بنانے کے عمل پر بلا وجہ روڑے اٹکانے سے گریز کرنا چاہیے۔

ہمارے لوگوں کو تو اب یہ یاد بھی نہیں رہا ہو گا کہ افغان بحران کا آغاز کب اور کیسے ہوا۔ افغانستان نائن الیون کے واقعہ سے پہلے عالمی کرکٹ گیم کے کھلاڑیوں میں شامل نہیں تھا لیکن سرد جنگ کے دوران جب فغانستان میں کمیونسٹ انقلاب آیا اور ادھر ایران میں شہنشاہ ایران کے اقتدار کا خاتمہ ہوا تو اس خطے کی عالمی پوزیشن انتہائی نازک ہو گئی۔

سابق سوویت یونین نے افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کو بچانے کے لیے اپنی فوجیں داخل کیں تو افغانستان جنگ کا میدان بن گیا۔ یہاں دنیا کی دو سپر پاور زآپس میں ٹکرا گئیں۔اس ٹکراؤ کے نتیجے میں سوویت یونین بکھر گیااور امریکا دنیا کی تنہا سپر پاور کے روپ میں سامنے آیا۔پھر دہشت گردی کے عفریت نے سر اٹھایا ۔امریکا میں نائن الیون کا حادثہ ہوا۔ جس سے پوری امریکی قوم تڑپ کر رہ گئی اور انتقام انتقام کے نعرے بلند ہوئے تو امریکا اسٹیبلشمنٹ کو کسی نہ کسی دشمن کو تخلیق کرنا پڑا اور قرعہ فعال بنام دم دیوانہ زدند مجھ دیوانے کے نام نکل آیا۔

دو دیوانہ افغانستان تھا جس کے پاس کوئی لڑاکا طیارہ ہی نہیں تھا‘طالبان کی حکومت قائم تھی اور اس کے پاس باقاعدہ طور پر فضائی موجود ہی نہیں تھی۔ اس پسماندہ اور بدحال ملک پر امریکا نے حملہ کر دیا اور اس طرح تباہی کی نئی داستان شروع ہو گئی۔ اب افغانستان میں امن و امان قائم کرنے کی عالمی کوششیں ہو رہی ہیں۔ پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ خطے میں استحکام اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتا جب تک افغانستان میں امن و امان قائم نہ ہو جائے جب کہ پاکستان پڑوسی ملک افغانستان میں قائم امن کے لیے خلوص دل سے کوششیں کر رہا ہے۔

افغانستان کے بحران کے حل کے لیے امریکا کی طرف سے خاص طور پر بہت زیادہ زور لگایا جا رہا ہے کیونکہ آیندہ ہفتوں میں امریکا کے صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ اگر وہ اپنے انتخاب سے پہلے افغانستان کا مسئلہ حل کر دیں اور وہاں جتنی بڑی تعداد میں امریکی فوج جھونکی ہوئی ہے ۔ امریکی فوجی واپس اپنے گھر جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں ‘اگر وہ واپس آ جائیں تو  صدر ٹرمپ الیکشن میں فتح حاصل کر سکتے ہیں۔ بہرحال معاملات خواہ کچھ بھی ہوں اصل مسئلہ تو افغانستان میں قیام امن کا ہے۔ پاکستان کی دلی خواہش ہے کہ افغانستان کے اسٹیک ہولڈرز دانشمندی کا ثبوت دیں اور اپنے ملک میں امن کے لیے کوئی قابل قبول راستہ تلاش کر لیں تو اس سے بڑی کامیابی کوئی اور نہیں ہو سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔