کرپشن کیخلاف قانون سازی، پہلی رکاوٹ عبور

سلیم خالق  بدھ 21 اکتوبر 2020
الزام ثابت ہونے پر 10 سال قید ،10کروڑ روپے جرمانے کی سزا کا مطالبہ ۔  فوٹو : فائل

الزام ثابت ہونے پر 10 سال قید ،10کروڑ روپے جرمانے کی سزا کا مطالبہ ۔ فوٹو : فائل

 کراچی: کرکٹ سمیت کھیلوں میں کرپشن کیخلاف قانون سازی کے بل نے پہلی رکاوٹ عبور کر لی۔

قومی اسمبلی میں  کسی کی جانب سے مخالفت نہ ہوئی،مسودے کو قانونی شکل دینے کیلیے لا اینڈ جسٹس  اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا گیا،تجاویز کے مطابق الزام ثابت ہونے پر 10 سال قید اور 10 کروڑ روپے جرمانے کی سزا کا مطالبہ کیا گیا ہے، تحقیقات کیلیے خصوصی ایجنسی قائم کرنے کی بھی درخواست کردی گئی۔

تفصیلات کے مطابق کرکٹ سمیت کھیلوں میں کرپشن کی روک تھام کیلیے بل پر گذشتہ روز قومی اسمبلی میں بات ہوئی، پیش کرنے والے رکن اقبال محمد علی نے نمائندہ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ کسی رکن نے بھی مخالفت نہیں کی، بل کو اب لا اینڈ جسٹس اسٹینڈنگ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے جہاں قانونی شکل دینے کے بعد دوبارہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا،اس کے بعد نفاذ ممکن ہو سکے گا، انھوں نے کہا کہ اس میں کرکٹ سمیت تمام کھیلوں میں فکسنگ وغیرہ پر سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

میں نے تجویز دی کہ کمیٹی میں حاضر یا ریٹائرڈ جج، ایف آئی اے یا کسی اور ایجنسی کو نامزد کیا جائے جو کوئی رپورٹ آئے تو ایکشن لے کرسزا سنائے، اس کو ملوث کھلاڑیوں و آفیشلز کی فیملیز کے اکاؤنٹس وغیرہ بھی چیک کرنے کی اجازت ہو، واضح رہے کہ اسے Prevention of offences in sports act 2020کا عنوان دیا گیا ہے،اقبال محمد علی کی جانب سے پیش کیے گئے بل میں مطالبہ کیا گیا کہ کرکٹ سمیت کھیلوں میں کرپشن کرنے والوں کو گرفت میں لانے کیلیے قانون سازی کی جائے۔

پیسے یا کسی مفاد کیلیے براہ راست یا بالواسطہ کھیل کا دامن داغدار کرنے والوں کیخلاف کریمنل ایکٹ کے تحت تحقیقات کیلیے ایک خصوصی ایجنسی قائم کی جائے جسے متعلقہ اداروں سے مطلوبہ ڈیٹا حاصل کرنے کی اجازت ہو، کسی پر الزام ثابت ہوجائے تو اسے10 سال قید کی سزا یا 10 کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جائیں،اسی طرح اسپورٹس اداروں میں سے کوئی ملوث ہو تو اسے3 سال سزا یا 2لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں۔یاد رہے کہ فکسنگ کیخلاف کریمنل ایکٹ لانے کیلیے پی سی بی کی جانب سے تیار کیا جانے والا ابتدائی مسودہ بھی وزیراعظم عمران خان کو ارسال کیا جا چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔