- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
ٹرمپ شکست تسلیم کرنے سے انکاری، قائل کرنے کیلئے داماد کی ملاقات
واشنگٹن: انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائیڈن کی کامیابی واضح ہونے کے باجود صدر ٹرمپ شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
واضح رہے کہ امریکی انتخابی نظام کی روایت یہ رہی ہے کہ انتخابی نتائج سامنے کے بعد صدر اگر انتخاب میں بھی حصہ لے رہا ہو اور اسے شکست ہوچکی ہو تو وہ نتائج تسلیم کرنے اور اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے اعلانات کرتا ہے۔ اگرچہ انتخابات کے نتائج کا باضطہ اعلان 14 دسمبر کو ہوتا ہے اور نو منتخب صدر جنوری میں اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے۔
گزشتہ 28 برسوں میں ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جو عہدے کے لیے دوسری مرتبہ منتخب نہیں ہوسکے۔ اس سے قبل 1992 سنییئر بش جب دوسری مرتبہ منتخب ہونے میں ناکام ہوئے اور انہیں بل کلنٹن سے شکست ہوئی تو انہوں نے نتائج کا اعتراف کرکے مبارک باد بھی دی اور اپنے حریف کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔
تاہم اب معاملہ ٹرمپ کا ہے جو اکھڑپن اور بدمزاجی کے لیے مشہور ہیں۔ پھر انہوں نے انتخاب سے قبل ہی دھاندلی، ووٹوں کی چوری اور نتائج میں ردوبدل کے الزامات عائد کرنا شروع کردیے تھے۔
صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی یہ اعلان کرچکے تھے کہ شکست کی صورت میں وہ آسانی سے اقتدار منتقل نہیں ہونے دیں گے۔ ان اعلانات کے باعث امریکی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں سوال بھی گردش میں رہا ہے کہ ٹرمپ نے اگر وائٹ ہاؤس چھوڑنے ہی سے انکار کردیا تو کیا ہوگا؟
وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے معاونین اور ان کی ریپبلکن جماعت کے سینیئر ارکان کے حوالے سے عالمی میڈیا میں یہ اطلاعات گردش میں ہیں کہ ٹرمپ فی الحال انتخابی نتائج تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیے: جوبائیڈن امریکی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر صدر منتخب ہوگئے
ٹرمپ پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ پیر سے وہ انتخابی نتائج کے حوالے سے قانونی جنگ شروع کریں گے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مابق ریپبلکن پارٹی نے مختلف ریاستوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور ان کی قانونی حیثیت چیلنج کرنے سمیت قانونی چارہ جوئی کے لیے درکار 6 کروڑ ڈالر جمع کرنا شروع کردیے ہیں۔
ٹرمپ کے ایک انتخابی مشیر نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ابتدائی طور پر وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف مارک میڈوز صدر کو اس حوالے سے قائل کرسکتے تھے تاہم انہیں کورونا وائرس ہونے کے باعث رابطے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ سی این این نے کا دعوی ہے کہ ٹرمپ کے داماد جیریڈ کشنر انہیں باوقار انداز میں اقتدار کی منتقلی پر قائل کرنے لیے ملاقات کرچکے ہیں۔
اس حوالے سے وائٹ ہاؤس کے ایک سابق ترجمان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کا حق ہے کہ انہیں شکست تسلیم کے لیے ہمت جمع کرنے کا وقت دیا جائے۔ کانٹے کے مقابلے کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا ہے اس لیے ملک کے لیے یہی بہتر ہوگا کہ ان نتائج کو تسلیم کرنے کے لیے صدر ٹرمپ کو مناسب وقت دیا جائے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔