تو آں قاتل کہ بہر یک تماشا خون من ریزی
بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی صرف پچاس تیتر، آٹھ خرگوش اور دس سیسی ہی تو مارے گئے جس پر محکمہ جنگلی حیات نے...
بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی صرف پچاس تیتر، آٹھ خرگوش اور دس سیسی ہی تو مارے گئے جس پر محکمہ جنگلی حیات نے ناقابل برداشت حد تک گستاخی اور بے ادبی کا ارتکاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کے معاون خصوصی جناب امجد آفریدی کا چالان کیا، ان بے ادب اور گستاخ اہل کاروں کا جو حشر ہو گا وہ تو انڈر اسٹوڈ ہے لیکن ہمارا غصہ کون ٹھنڈا کرے گا کیوں کہ موصوف یقیناً منتخب عوامی نمایندے بھی ہوں گے اور ہم چونکہ جدی پشتی اور خاندانی عوام ابن عوام ابن عوام ہیں، اس لیے جی بھر کر ان پر اپنی بھڑاس نکالیں گے اور ایسا حشر نشر کریں گے کہ ان کی داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
اتنی سی بات تھی جسے افسانہ کر دیا
آخر پچاس تیتروں، آٹھ خرگوشوں اور دس سیسوں کی بساط ہی کیا ہے، منتخب نمایندے اور پھر معاون خصوصی اگر عوامی خدمت میں دن رات خون پسینہ ایک کرنے کے بعد تھوڑا سا ''ریلیکس'' ہونے کے لیے تھوڑی سی مشق ناز کریں تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑا اور کہاں کی زمین پھٹ گئی اور پھر جس ملک میں انسانوں کی قیمت بھی ایک گولی کی قیمت سے کم ہو، وہاں جنگلی جانوروں کی کیا قیمت ہو سکتی ہے، ہمیں تو محترم معاون خصوصی کا چالان کرنے والے کچھ یہودی مزاج کے لگتے ہیں کیوں کہ اس مقام پر اتوار کا شکار کرنے کی اجازت ہے، صرف ہفتے کو شکار کرنے کی ممانعت ہے اور موصوف کے چالان ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ انھوں نے ہفتے یعنی ''سبت'' کے دن شکار کھیلا تھا، سارے مسلمان جانتے ہیں کہ قرآن میں یہ ایک مشہور واقعہ ہے کہ یہودیوں کو ''سبت'' یعنی ہفتے کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا گیا تھا لیکن وہ اس دن براہ راست تو شکار نہیں کرتے تھے لیکن دریا کنارے ایسے پانی کے گڑھے بنا رکھے تھے جہاں مچھلیاں آکر پھنس جاتی تھیں اور پھر وہ اتوار کے دن ان پر سبت کے دن کی بھڑاس بھی نکال دیتے تھے جس پر ان کو ''قردۃ الخاسیئں'' یعنی ''حقیر بندر'' بنا دیا گیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ پھر ڈارون نے انھی حقیر بندروں کو انسانوں کے اجداد قرار دیا، ظاہر ہے کہ پھر انسانوں میں لیڈر بھی پیدا ہوتے تھے،
خیر ہو سکتا ہے کہ یہ محض ہماری غلط فہمی ہو اور ان اہل کاروں کے ذہن میں ایسا کچھ نہ ہو اور انھوں نے خالص فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاون خصوصی کا چالان کیا ہو، لیکن کم از کم یہ غلطی تو انھوں نے کی ہے کہ پاکستان کو انھوں نے ''دبئی'' سمجھ لیا تھا ،کیا وہ سمجھتے تھے کہ اس سے سردار خوش ہو گا، دبئی کا قصہ یوں ہے کہ دبئی کے حکمران مرحوم راشد المکتوم جنہوں نے دبئی کو ایک مثالی مملکت بنا کر چار چاند لگائے تھے، ان سے ایک مرتبہ کسی اخبار نویس نے پوچھا کہ آپ کے ذہن میں یہ خیال کیسے آیا کہ آپ دبئی کے ایک چھوٹے سے ملک کو دنیا کا مثالی ملک بنا سکتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ خیال میرے ذہن میں پولیس کے ایک سپاہی سے سوجھا تھا۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ مجھے کسی فوری کام کے سلسلے میں کہیں جانا پڑا، ڈرائیور اور پروٹوکول کے بغیر ہی میں نے خود گاڑی ڈرائیور کی، اپنا کام کر کے واپس لوٹا تو پولیس کا ایک سپاہی میری گاڑی کے پاس چالان بک لیے کھڑا تھا کیوں کہ میں نے بے خیالی میں گاڑی غلط جگہ پر پارک کی تھی میں نے اسے بتایا کہ میں راشد المکتوم ہوں تو اس پولیس والے نے کہا، ہوں گے لیکن آپ نے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس لیے چالان تو آپ کو کرانا پڑے گا اور پھر اس نے پرچہ پھاڑ کر میرے ہاتھ میں نہایت ادب سے تھمایا اور چلا گیا، یہیں پر مجھے خیال آیا کہ میرے ملک میں اگر ایسے فرض شناس اور مثالی اہل کار ہیں تو میں دبئی کو مثالی بنا سکتا ہوں، لیکن محکمہ جنگلی حیات والے یہ فراموش کر گئے کہ یہ دبئی نہیں پاکستان ہے اگر دونوں ایک جیسے ہوتے تو یہاں سے لوگ بھاگ کر دبئی کیوں جاتے،
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
دراصل شکار اور حکمرانوں کا جنم جنم کا ناتا ہے کیونکہ صدیوں سے حکمران لوگ اپنی تھکن اتارنے کے لیے شکار کھیلتے آئے ہیں اور کھیلتے رہیں گے، شکار اور شکاری بدل سکتے ہیں لیکن شکار کرنے کا شغل اور جذبہ ہمیشہ جاری رہتا ہے کسی کو پرندوں کا اور کوئی دو پایوں کا ۔۔۔ بلکہ کچھ داناؤں نے تو کہا ہے کہ حکمرانی اور شکار دونوں ہی ایک ہیں، حکمران جب شکار کرتا ہے تو وہ دراصل تربیتی یا ریفریشر کورس کر رہا ہوتا ہے کہ جنگل کی طرح ملک بھر میں شکار کیسے کیا جائے گا،
ناوک نے تیرے صید نے چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
شکار کے طریقے بھی طرح طرح کے ہوتے ہیں جوبالکل ہی سیاست سے ملتے جلتے ہیں، مرحوم جنرل فصل الحق جب شکار کھیلنے جاتے تو جس علاقے میں تیتروں کی بہتات ہوتی تھی وہاں ہیلی کاپٹر اتار دیتے تھے۔ تیتر اور دوسرے اہل گرفتہ پرندے ہیلی کاپٹر کی تیز ہوا کے سامنے اڑ نہیں پاتے تھے اور اپنی جگہ پر دبک جاتے تھے، پھر جنرل صاحب ان کو شکار فرماتے تھے، جن علاقوں میں پانی کی قلت ہوتی ہے وہاں پانی کے ذخیرے پر کاٹنے بچھا دیتے ہیں اور ایک تنگ سا سوراخ چھوڑ جاتے جن پر پرندوں کا جمگھٹا ہو جاتا ہے اور شکار ایک ہی فائر سے کشتوں کے پشتے لگا دیتا ہے، بیٹروں والے علاقے میں ایک مکان کے اندر ایک بیٹر پنجرے میں بند کر دیتے ہیں اور اس مکان کے اوپر جال بچھا دیا جاتا ہے صرف اندر جانے کا ایک چھوٹا سا راستہ ہوتا ہے، رات بھر بیٹر اس کے اندر جاتے ہیں اور صبح دم شکار آکر دروازہ بند کر دیتا ہے اور بیٹروں کو پکڑ لیتا ہے، یہ سارے طریقے کچھ کچھ آوٹ شکار کرنے سے ملتے جلتے ہیں، دانہ و دام اور دام ہمرنگ زمین والے سارے استعارے شکاری سے متعلق ہیں، شکار کے شوقین کا اپنا ایک ''ہوم میڈ'' مقولہ بھی ہے کہ جو وقت شکار میں گزرتا ہے وہ عمر میں شمار نہیں ہوتا لیکن یہ سارے سلسلے حیوان ناطق نے یک طرفہ طور پر بنائے ہیں اور کسی نے شکار ہونے اور جان سے جانے والوں کا نظریہ کبھی نہیں سنا ہے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے دانہ تلاش کرتے ہوئے کیوں مرگ مفاجات کا شکار ہو جاتے ہیں، کس جرم اور کس گناہ کی پاداش میں،
در ہوا چند معلق زنی و جلوہ کنی
اے کبوتر نگراں باتیں کہ شاہیں آمد
اکثر شکاری تو ہم نے ایسے بھی دیکھے ہیں جو شکار کھانے کے لیے نہیں کرتے، صرف شوق کی خاطر بے شمار جانداروں کو مار دیتے ہیں اور گوشت نوکروں کو دے دیتے ہیں ،کیا زبردست تضاد ہے ایک کو مار دیا اور دوسرے کو نواز دیا، اسی مجموعہ اضداد کا نام انسان ہے جو اپنے آپ کو طرح طرح کے صفاتی نام دیتے ہوئے ذرہ بھر بھی نہیں شرماتا لیکن کیا دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا جانور بلکہ درندہ تک پایا گیا ہے جس نے بھرے پیٹ صرف لطف اٹھانے کے لیے کسی کی جاں لی ہو، کچھ لوگ بڑی بے شرمی سے ایک دینی ''رعایت'' کو بھی اپنے مقصد بلکہ تفریح طبع کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ شکار تو حلال ہے لیکن یہ بالکل فراموش کر دیتے ہیں کہ حلال اور ضرورت ایک الگ چیز ہے اور شوقیہ خونریزی بالکل ہی ایک دوسری چیز ہے، شکار بالکل حلال ہے لیکن ضرورت بلکہ انتہائی ضرورت کے وقت ۔ نہ کہ محض شوق کی خاطر ۔ جائز اور ضروری میں بہت فرق ہوتا ہے، خیر چھوڑیئے اب تو بات جانوروں سے گزر کر انسانوں پر آگئی ہے
تو آں قاتل کہ بہریک تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم