مسابقتی کمیشن کا شوگر ملز ایسوسی ایشن اور 84 شوگر ملز کو شوکاز نوٹس

ارشاد انصاری  منگل 10 نومبر 2020
شوگر سیکٹر میں کارٹلائزیشن پر شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے

شوگر سیکٹر میں کارٹلائزیشن پر شوکاز نوٹسز جاری کیے گئے

 اسلام آباد: مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن(پی ایس ایم اے) اور 84  شوگر ملوں کو شوکاز نوٹسز جاری کر دیے۔

اس ضمن میں سی سی پی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پی ایس ایم اے اور  اس کی 84 ممبر شوگر ملوں کو شوگر سیکٹر میں بادی النظر کارٹلائزیشن، جو کمپٹیشن ایکٹ 2010 کے سیکشن چار کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے جس پر شوکاز نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

اعلامیہ کے مطابق سی سی پی نے شوگر سیکٹر میں کمپٹیشن مخالف سرگرمیوں پر انکوائری کمیٹی کی سفارش پر کمپٹیشن ایکٹ کی دفعہ 30 کے تحت شو کاز نوٹسز جاری کیے۔ سی سی پی کی انکوائری سے یہ پتہ چلا ہے کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے)شوگر انڈسٹری میں کارٹلائزیشن کے حوالے سے  فرنٹ رنر کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ پی ایس ایم اے اور جے ڈی ڈبلیو گروپ کی شوگر ملوں کے دفاتر کے سرچ اور انسپیکشن کے دوران جو شواہد اکٹھے ہوئے ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ یہ کمپٹیشن مخالف سرگرمیاں 2010 سے جاری ہیں۔

سی سی پی نے کہا کہ اس ضبط شدہ ریکارڈ سے پی ایس ایم اے اور اس شوگر مل گروپ کے سینئر آفیشل کے درمیان ای میلز کے تبادلے کا سراغ بھی ملا جو حساس تجارتی معلومات جیسے کہ ملز اور ضلع کی سطح پرشوگر سٹاک پوزیشن اور حتی کہ گنے کی کرشنگ کی مقدار ، چینی کی پیداوار، ریکوری کا تناسب، چینی کی پچھلی پیداوار، چینی کی فروخت کی مقدار اور اس کے تناسب پر مشتمل تھا۔

مسابقتی کمیشن نے کہا کہ مزید براں پی ایس ایم اے کے ایک وٹس ایپ گروپ کے جائزے سے پتہ چلا کہ اس شوگر مل گروپ کا یہی سینئر آفیشل چینی کی قیمت اور اسٹاک سے متعلق ڈیٹا کے سلسلے میں مسلسل روابط میں تھا۔  پی ایس ایم اے سے قبضہ میں لیے گئے ریکارڈ سے یہ بھی پتہ چلا کہ اس شوگر مل گروپ کا یہی سینئر آفیشل 2012 سے جب ان کو پی ایس ایم اے کی جانب سے چینی اسٹاک پوزیشن کے لئے فوکل پرسن تعینات کیا گیا تھا۔

مسابقتی کمیشن کے مطابق شوگر انڈسٹری سے متعلق حساس معلومات کے سلسلے میں مسلسل روابط میں تھاسی سی پی انکواری سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ممبران شوگر ملوں نے  پی ایس ایم اے کے پلیٹ فارم کو حساس تجارتی فیصلے کے لیے  استعمال کرتے رہےجیسا کہ شوگر کے ڈومیسٹک سٹاک اور سپلائی میں کمی ، جو کہ متعلقہ مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کا موجب بنےپی ایس ایم اے اور اس کے ممبر شوگر ملوں کو موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ مذکورہ بالا کمپٹیشن ایکٹ کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنا اپنا موقف دیں۔

اعلامیہ کے مطابق پی ایس ایم اے اور 84 شوگر ملوں نے بادی النظر کمپٹیشن ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اجتماعی طور پر چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اور اس طرح پاکستان میں فراہم کی جانے والی چینی کی مقدار طے کی ہےاسی طرح انہوں نے  برآمدات کے ذریعہ چینی کے اسٹاک کو کم کرکے کمپٹیشن ایکٹ کی خلاف ورزی کی اور اجتماعی طور پر پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ برقرار رکھا۔

مسابقتی کمیشن نے کہا کہ اس کے علاوہ کرشنگ سیزن2019-20 میں پنجاب میں 15 شوگر ملوں نے پی ایس ایم اے کی سرپرستی میں اجتماعی طور پر گنے کی کرشنگ میں تاخیر کا فیصلہ کیاجس کی وجہ سے مارکیٹ میں سپلائی میں کمی واقع ہوئی اور پنجاب میں 45 شوگر ملوں نے پی ایس ایم اے کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے حساس کاروباری معلومات کا آپس میں تبادلہ کیا۔

مسابقتی کمیشن کے مطابق آخر میں پی ایس ایم اے اور شوگر ملوں نے مختلف مواقع پر یو ٹیلٹی اسٹور کارپوریشن کے جاری کردہ ٹینڈروں میں شوگر کی مقدار کو آپس میں بانٹا سی سی پی نے پنجاب میں 19 شوگرملوں کو 2019 کے ٹینڈر کے حوالہ سے کمپٹیشن ایکٹ کی خلاف ورزی میں ملوث پایاجبکہ پورے پاکستان سے 30 شوگر ملوں کو اس سے قبل کے ٹینڈر کی وجہ سے شوکاز جاری کیا گیا ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ یہ چارجز  2009 میں سی سی پی کی سابقہ شوگر انکوائری رپورٹ کے نتائج سے بھی جڑے ہوئے ہیں جس میں پی ایس ایم اے قیمتوں کو براہ راست طے کرنے پر ملوث پائی گئی تھی۔ حالیہ معاملے میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پی ایس ایم اے اور اس کی ممبر ملوں نے ڈومیسٹک مارکیٹ میں دستیاب چینی کی فراہمی کو کنٹرول کرکے قیمتوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔