کیا جوبائیڈن پاکستان کے لیے بہتر ثابت ہوگا؟

علی احمد ڈھلوں  بدھ 11 نومبر 2020
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

جو بائیڈن امریکا کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب کم از کم 4 سال تک دنیا بھر کے اُفق پر چھائے رہیں گے، کیونکہ سنا ہے کہ ہمارے جیسے 100سے زائد ملکوں کی پالیسیاں امریکا ہی میں بنتی ہیں، جہاں 10 ہزار سے زائد اعلیٰ الذہن افراد ہر ملک کے لیے الگ الگ لابنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں سوال اب یہ اٹھایا جائے گا کہ جو بائیڈن کے دورِ اقتدار میں پاک امریکا تعلقات کا کیا عالم رہے گا۔

یہ جاننے سے پہلے ہم ذرا نظر دوڑاتے ہیں کہ جوبائیڈن کیسے جیتے اور اُن کا سیا سی بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ جو بائیڈن نے پنسلوینیا کے ایک ایسے گھرانے میں جنم لیا جب اُن کے والد کو مالی مشکلات کا سامنا تھا اور وہ بطور مزدور بھٹیوں کی چمنیاں صاف کرکے گھر کا چولہا جلانے کی کوشش کر رہے تھے۔

جو بائیڈن کی زبان میں لکنت تھی، جب کوئی نام پوچھتا تو وہ ’’جو‘‘ کہنے کے بعد ’’با۔با‘‘ کہتے رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ طالبعلمی میں ان کا مذاق اُڑایا گیا اور لڑکوں نے اُن کا نام ’’بائے بائے‘‘ رکھ دیا۔ جو بائیڈن نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل ہکلاہٹ پر قابو پانے کی مشق کرتے رہے۔

1972 میں اُن کی زندگی نے تب ایک نیا موڑ لیا جب ڈیموکریٹک پارٹی نے اِس 29 سالہ نوجوان کو ڈیلا ویئر سے منجھے ہوئے ری پبلکن سیاستدان جے کیلب بوگز کے مقابلے میں الیکشن لڑانے کا فیصلہ کر لیا۔ جیت کا کوئی امکان نہ تھا مگر بائیڈن نے بھرپور انداز میں انتخابی مہم چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس کے والدین، بہن اور بیوی سمیت سب گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہو گئے۔

بہن ولیری بائیڈن انتخابی مہم کی انچارج تھیں جب کہ تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ جے کیلب باگز باآسانی جیت جائیں گے۔ 48سال قبل اِنہی دنوں الیکشن ہوا تو جو بائیڈن نے یہ نشست جیت کر نئی تاریخ رقم کردی۔ وہ امریکی تاریخی کے پانچویں کم عمر ترین سینیٹر منتخب ہو چکے تھے اور بہت بڑا برج اُلٹ دیا تھا لیکن ابھی آزمائشیں ختم نہیں ہوئی تھیں۔اِس فقید المثال کامیابی کے چند ہفتوں بعد ہی اُس کی بیوی کرسمس کی خریداری کر کے واپس آ رہی تھی تو ایک ٹرک نے گاڑی کو کچل دیا۔ حادثے میں بائیڈن کی بیٹی اور بیوی مارے گئے جب کہ دونوںبیٹے شدید زخمی ہو گئے۔

پیاروں کو کھو دینے پر بائیڈن اِس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ خود کشی کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ مگر پھر بائیڈن سنبھل گئے۔ پھر جو بائیڈن کو اپنے علاقے کے مستقل نمایندے کی حیثیت حاصل ہو گئی اور وہ 2009تک مسلسل سینیٹر منتخب ہوتے رہے۔ بائیڈن نے پہلی بار 1988 کے انتخابات کے دوران صدارتی امیدوار بننے کا فیصلہ کیا مگر تقریر چرانے کا الزام لگ گیا اور وہ صدارتی اُمیدوار کی دوڑ سے باہر ہو گئے ، تاہم جب بارک اوباما ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار نامزد ہو گئے تو انھوں نے جو بائیڈن کو اپنے ساتھ نائب صدر لینے کا فیصلہ کیا۔

جوبائیڈن جب امریکی نائب صدر تھے تو انھیں ایک اور صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ ان کے دو بیٹے جو 1972کے ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہوئے تھے، اُن میں سے ایک کو برین ٹیومر ہو گیا۔ بائیڈن کا بیٹا بیو ڈیلاویئر کا اٹارنی جنرل تھا مگر علالت کے باعث نوکری چھوڑنا پڑی۔ بائیڈن 1972 سے مسلسل عوام کی نمایندگی کرتے چلے آئے ہیں مگر اُن کے پاس اپنے بیٹے کا علاج کرانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ دنیا کے طاقتور ترین ملک کے نائب صدر نے اپنا گھر بیچنے کا فیصلہ کیا تا کہ بیٹے کا علاج کرایا جا سکے۔

اوباما کو یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے گھر بیچنے سے روک دیا اور علاج کے لیے رقم اپنی جیب سے فراہم کر دی۔ بائیڈن کا بیمار بیٹا صحت یاب نہ ہو سکا اور مئی 2015 میں کینسر سے لڑتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گیا۔ جوان بیٹے کی موت کا دکھ سہنا آسان نہیں ہوتا۔ جو بائیڈن نے 2016 کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا مگر 2020 میں ریکارڈ ووٹ لے کر امریکی صدر منتخب ہوگئے۔

جو بائیڈن ٹرمپ کے مقابلے میں انتہائی سنجیدہ اور ذہین صدر ہیں۔ وہ پاکستان کی اہمیت بھی ٹرمپ سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ ماضی میں پاکستان کے کئی دورے کر چکے ہیں اور پاکستانی سیاستدانوں اور عسکری حکام سے براہ راست رابطے میں رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت انھیں ملک کے دوسرے بڑے اعزاز ’’ہلال پاکستان‘‘ سے بھی نواز چکی ہے۔

وہ کشمیریوں کی کھل کر حمایت کر چکے ہیں۔ پاکستان سے تعلقات اور افغانستان سے فوجی انخلاکے حوالے سے ٹرمپ اور جوبائیڈن کا موقف ایک ہے۔ لیکن ہمیں زیادہ اُمید بھی نہیں رکھنی چاہیے کیونکہ تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ 2011 میں امریکا کا نائب صدر ہوتے ہوئے جوبائیڈن بلکہ ہمیشہ مصر رہا کہ افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے ’’اصل جنگ‘‘ ’’دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں‘‘ کے خلاف برپا کرنا ہو گی۔ پاکستان میں ڈرون حملوں کے ’’بانی‘‘ بھی جوبائیڈن ہی ہیں، اس لیے وہ وہی کچھ کریں گے جو امریکی اسٹیبلشمنٹ چاہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔