چینی اسکینڈل؛ شریف فیملی اور جہانگیر ترین کی شوگر ملز کیخلاف نوٹسز کالعدم

ویب ڈیسک  جمعرات 12 نومبر 2020
لاہور ہائی کورٹ نے العربیہ اور جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کی درخواستیں جزوی طور پر منظور کرلیں

لاہور ہائی کورٹ نے العربیہ اور جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کی درخواستیں جزوی طور پر منظور کرلیں

لاہور ہائی کورٹ نے شریف فیملی کی العربیہ شوگر ملز اور جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کو جے آئی ٹی، ایف آئی اے اور ایس ای سی پی کی جانب سے بھجوا گئے نوٹسز کو کالعدم قرار دے دیا۔

جسٹس شاہد کریم اور جسٹس ساجد محمود سیٹھی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے شوگر ملز کی درخواستیں جزوی طور پر منظور کرلیں۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : چینی اسکینڈل کا فرانزک آڈٹ مکمل، ٹیکسوں کی مد میں اربوں کے فراڈ کا انکشاف

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ایس ای سی پی اپنا کردار قانون کے مطابق ادا کرنے میں ناکام رہا، ایف آئی اے کو یقینا انکوائری کا اختیار حاصل ہے  لیکن دیکھنا یہ ہے کہ انکوائری کن  قوانین کے تحت  کی جا سکتی ہے، ایف آئی اے کے اختیار کے حوالے سے تفصیلی فیصلے میں وضاحت کی جائے گی۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : مسابقتی کمیشن کا شوگر ملز ایسوسی ایشن اور 84 شوگر ملز کو شوکاز نوٹس

رواں سال کے اوائل میں ملک میں اچانک چینی مہنگی اور قلت پیدا ہوگئی تھی۔ اس کی وجوہات جاننے کے لیے وفاقی حکومت نے 16 مارچ کو تین رکنی اعلیٰ سطح کا انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا۔ چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھاکہ ملک میں چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : شوگر اسکینڈل میں ایف آئی اے کے افسر سجاد مصطفیٰ باجوہ برطرف

درخواست گزاران نے موقف اختیار کیا تھا کہ فاروقی پلپ ملز اور العریبیہ شوگر ملز پر کارپوریٹ فراڈ کا بے بنیاد الزام عائد کیا گیا ہے، وفاقی کابینہ نے فاروقی پلپ مل اور العریبیہ شوگر ملز کیخلاف انکوائری کرنے کا غیر قانونی حکم دیا ہے، لہذا عدالت العریبیہ شوگر ملز سے ریکارڈ طلبی کے جےآئی ٹی کے نوٹس کو غیر قانونی قرار دے جبکہ العریبیہ شوگر ملز اور فاروقی پلپ ملز کیخلاف وفاقی حکومت کے انکوائری کے احکامات کو کالعدم کیا جائے،  اس کے ساتھ ساتھ طلبی کے نوٹسز معطل کیے جائیں اور ہراساں کرنے سے بھی روکا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔