’پشاوری موسیقار‘ رفیق غزنوی

نوید جان  اتوار 29 نومبر 2020
برصغیر کے نامور فنکار، جن کے بغیر فلم نامکمل سمجھی جاتی تھی۔ فوٹو : فائل

برصغیر کے نامور فنکار، جن کے بغیر فلم نامکمل سمجھی جاتی تھی۔ فوٹو : فائل

آج کی نئی نسل کے لیے یہ بات یقیناً حیرت کا باعث ہوگی کہ برصغیر پاک وہند کی تقسیم سے بہت پہلے فلم انڈسٹری میں جن فن کاروں اور ہنرمندوں نے نام پیداکیا اور جو چوٹی کے اداکار کہلائے ان میں70فی صد مسلمان تھے، جن میں زیادہ تر کا تعلق پشاور یا پختون بلٹ سے تھا۔

انہوں نے لاتعداد فلموں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ ان مسلمان فن کاروں نے کئی غیر مسلم فلمی اداروں میں کام کرکے  ان کی شہرت کو بام عروج تک پہنچانے میں اپنی بیش بہا صلاحیتیں  صرف کیں۔ ان کی محنت اور صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان فلمی اداروں نے شہرہ آفاق فلمیں بنائیں اور فلم بینوں  سے داد و تحسین وصول کرنے کے علاوہ اپنی تجوریاں بھی بھرتے رہے۔

ابتدائی دورکی فلمی صنعت  میں زیادہ تر آرٹسٹ تھیٹر سے فلم میں آئے جن میں اکثریت پارسی اور مراٹھی اداکاروں کی تھی۔ یہ خاموش فلموں کا دورتھا جو1913ء میں دادا بھائی پھالکے  کی پہلی خاموش فلم’’راجہ ہریش چندر‘‘ سے شروع ہوا۔ یہ طویل دور1931ء میں سیٹھ اردشیر ایم ایرانی کی پہلی بولتی فلم ’’عالم آرا‘‘ کی نمائش کے بعد تک چلتا رہا۔

پارسی اورمرہٹے اداکار فلمی صنعت  پر چھائے رہے لیکن جونہی خاموش فلموں کو قوت گویائی ملی تو یہی پارسی اور مرہٹے اداکار اردو (ہندی) بولنے میں ناکام رہے کیوں کہ ان کی زبان میں وہ سلاست اور روانی نہ تھی جو شمالی ہند کے  رہنے والے لوگوں میں ہوتی ہے۔ چناںچہ یہ فن کار جلد ہی فلمی دنیا سے کنارہ کش ہونے لگے، بعد ازاں اس کمی کو خطہ پشاور سے تعلق رکھنے والے فن کاروں نے پورا کیا، ان ہی میں ایک رفیق غزنوی بھی تھے۔

رفیق غزنوی نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز اداکاری سے کیا۔ انہوں نے لاہور میں بننے والی پہلی ناطق فلم ہیر رانجھا میں مرکزی کردار ادا کیا، اس فلم کی موسیقی بھی انہوں نے ترتیب دی جب کہ  اپنے اوپر فلم بند ہونے والے تمام نغمے بھی خود گائے۔

بعد ازاں وہ دہلی جا کر آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے، پھر بمبئی منتقل ہوئے جہاں انہوں نے پونرملن، لیلیٰ مجنوں اور سکندر سمیت کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔ ہالی وڈ کی ایک مشہور فلم’’ تھیف آف بغداد‘‘ میں بھی ان کی موسیقی استعمال کی گئی۔

تقسیم ہند کے بعد وہ کراچی چلے آئے اور ریڈیو پاکستان سے جڑ گئے۔ وہ اس کمیٹی کے بھی رکن تھے جس نے پاکستان کے قومی ترانے کی دھن منظورکی مگر بعد ازاں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری سے اختلافات کے باعث انہوں نے ریڈیو سے علیحدگی اختیار کرلی۔ انہوں نے برصغیر کی تقسیم سے قبل بڑا عروج دیکھا مگر تقسیم ہند کے بعد اپنی زندگی کا بڑا حصہ ایک غیر تخلیقی فن کارکی حیثیت سے بسرکیا۔ پاکستان اور بھارت کی معروف گلوکارہ و اداکارہ سلمیٰ آغا رفیق غزنوی کی نواسی ہیں جب کہ معروف فلمی ہدایت کار ضیاء سرحدی ان کے داماد تھے اور یوں خیام سرحدی بھی ان کے نواسے ہیں۔

نامور موسیقار،گلوکار، اداکار، نغمہ نگار اور ہدایت کار رفیق غزنوی 1907ء میں راولپنڈی میں پیداہوئے۔ ان کے آباؤاجداد کا تعلق افغانستان کے شہرغزنی سے تھا، جو وہاں سے ہجرت کرکے پشاور میں آباد ہوئے، جس کے بعد ان کے والد تلاش معاش کے سلسلے میں راولپنڈی چلے گئے۔ رفیق غزنوی نے راولپنڈی کے اسلامیہ ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اسلامیہ کالج لاہور سے انٹرمیڈیٹ  کرنے کے بعد پنجاب یونی ورسٹی سے گریجویش کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو شاعری اور موسیقی سے والہانہ لگاؤ اور اداکاری سے جنون کی حد تک دلچسپی تھی۔

وہ طالب علمی کے زمانے میں اپنے کالج میں ہونے والے ڈراموں اوردیگر سٹیج پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ انہوں نے کلاسیکل موسیقی کی باقاعدہ تعلیم استاد عبدالعزیزخان اوراستاد میاں قادر بخش لاہوری سے حاصل کی، بعدازاں نامور موسیقار استاد عاشق علی خان پٹیالہ والے کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ موسیقی سے ان کا شغف اتنا بڑھا کہ موسیقی کے کسی گھرانے سے تعلق نہ ہونے کے باوجود ان کا شمار برصغیر کے صف اول کے موسیقاروں میں ہوا۔

رفیق غزنوی نے 1930ء میں لاہورکے ایک فلمی ادارے یونائیٹڈ پلئرز فلم کارپوریشن میں ملازمت اختیارکر لی اوراس ادارے کی ایک خاموش فلم’’بریو ہارٹس‘‘ عرف سرفروش میں بطور سکینڈ ہیرو کام کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار اے آر کاردار تھے۔ اداکاروں میں مس گلزار، گل حمید، رفیق غزنوی، غلام قادر، احمد دین اور فضل شاہ نمایاں تھے۔ یہ فلم 30 جولائی1930ء کو ریلیز ہوئی۔

یہ ایک کامیاب فلم تھی، اس وقت فلم کی کل آمدن  ایک ہزار ایک سو ستر روپے دوآنے چھ پائی تھی۔ معروف محقق اورلکھاری ابراہیم ضیاء اپنی کتاب ’’پشاورکے فن کار‘‘میں لکھتے ہیں کہ جب بولتی  فلموں کا دور شروع ہوا تو1932ء میں رفیق غزنوی  نے پلے آرٹ فوٹو ٹون کی ایک بولتی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ عرف حور پنجاب میں فلم کے ہیرو’’رانجھا‘‘ کاکردار اداکیا۔ اس فلم کی ہیروئن گلوکارہ بلوامرتسری کی بیٹی انوری تھی، ساتھی اداکاروں میں گل حمید، ایم اسماعیل اورلالہ یعقوب نمایاں تھے۔ فلم کے ہدایت کار اے آرکاردار، موسیقی رفیق غزنوی نے خود ترتیب دی۔

رفیق غزنوی بڑے رومان پسند، حسن پرست اورخوبرو نوجوان تھے، فلم کی ہیروئن انوری کو گانوں کی ریہرسل کراتے ہوئے اسے اپنے من کی ہیر بنا لیا اور اس سے خفیہ شادی کرلی، جب انوری کی ماں کو اس صورت حال کاعلم ہوا تو اس  نے تھانے میں رفیق کے خلاف پرچہ کٹوا دیا۔ پولیس نے چھاپہ مارکر انوری کو برآمد کرلیا اور رفیق کوگرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا، تاہم انوری کے اس بیان پرکہ وہ عاقل و بالغ ہے اور اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے، عدالت نے مقدمہ خارج کرتے ہوئے ان کو باعزت طور پر بری کر دیا۔

اسی سال رفیق غزنوی نے اورینٹل پکچرزکی ایک فلم ’’پوترگنگا‘‘ کی موسیقی ترتیب دی، اس فلم کی تکمیل کے بعد رفیق غزنوی اپنی اہلیہ انوری کے ہمراہ لاہور سے بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے فلم ’’پرتھوی راج سنجوگتا‘‘ اور’’انتقام‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ یہ فلمیں 1933ء میں ریلیز ہوئیں، فلم انتقام میں  انہوں نے سات  گیت ریکارڈ کرائے جن میں یہ گیت بہت مقبول ہوئے:

ساری دنیا میں تیرا حسن سراپا دیکھا

نازبھی ہے، ادا بھی ہے، شوخی بھی ہے حیا بھی ہے

کچھ عرصہ بعد رفیق غزنوی نے انوری کو طلاق دے دی۔ 1934ء میں انہوں نے ایک فلم ’’جوانی دیوانی‘‘ میں زہرا کے ساتھ بطور ہیروکام کے علاوہ اس فلم کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ فلم بندی کے دوران دونوں ایک دوسرے کے قریب آ گئے اور یوں رفیق نے زہرا سے شادی کرلی۔1935ء میں اس جوڑے نے ایک رومانوی فلم’’پریم پجاری‘‘اور’’بہن کا پریم‘‘ میں بھی ایک ساتھ کام کیا۔ فلم ’’پریم پجاری‘‘ کی ہدایات بھی رفیق نے خود دیں اور دونوں فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔ ان فلموں کی تکمیل کے بعد انہوں نے زہرا کو بھی طلاق دے دی اوراس کی بہن اداکارہ انورادھا سے شادی کرلی۔

زہرا نے رفیق سے طلاق لینے کے بعد ہدایت کار ایم اے مرزا سے شادی کی۔ اسی سال رفیق نے ایسٹرن آرٹ پروڈکشنز کی ایک فلم’’دھرم کی دیوی‘‘ میں سردار اختر اورکمار کے ساتھ بطور سیکنڈ ہیروکام کیا۔ 1937ء میں انہوں نے اورینٹ پکچرزکی ایک فلم ’’پریم یاترا‘‘ میں لیلاوتی کے ساتھ بطور ہیروکام کرنے کے علاوہ  فلم کی موسیقی  بھی ترتیب دی اور 1939ء  میں فلم ’’کون کسی کا‘‘ اور ’’ستارا‘‘ کی موسیقی ترتیب دی، یہ فلمیں کامیاب ثابت ہوئیں۔

یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور رفیق غزنوی کی موسیقی کے بغیر فلم کو ادھورا سمجھا جانے لگا۔ اگر ایک طرف انتہائی مصروفیت کے باعث ان کو سرکھجانے کی فرصت نہ تھی تو دوسری جانب وہ اپنے معاشقوں کے حوالے سے بھی محور گفتگو رہتے۔ 1940ء میں غزنوی نے فلم’’اپنی نگریا‘‘ اور’’بہو رانی‘‘ کی موسیقی مرتب دی،1941ء  میں فلم ’’سکندر‘‘اور’’سوامی‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔

1942ء میں انہوں نے ہند پکچرزکی فلم ’’کلجگ اورسوسائٹی‘‘ اوربھارت ٹاکیزکی ایک فلم ’’کس کی بیوی‘‘ کی موسیقی ترتیب دی۔ فلم کلجگ اورسوسائٹی میں کل دس گیت شامل تھے، جو کافی مقبول ہوئے۔1943ء کا سن ان کے لیے کافی کامیاب سال ثابت ہوا جس میں انہوں نے بیک وقت چھ فلموں کی موسیقی ترتیب دے کر ریکارڈ قائم کیا۔

ان فلموں میں محبوب پروڈکشنز کی ’’نجمہ‘‘ اور ’’تقدیر‘‘ راجہ مودی ٹون کی فلم’’مذاق‘‘، منرواکی فلم ’’پرتھوی ولبھ‘‘ اور سن رائزپچکرزکی فلمیں ’’نوکر‘‘ اور ’’دہائی‘‘ شامل ہیں۔ ’’نجمہ‘‘ اور ’’تقدیر‘‘ کے ہدایت کار محبوب خان، ’’مذاق‘‘ کے ظہور راجہ، ’’پرتھوی ولبھ‘‘ کے سہراب مودی، ’’نوکر‘‘ کے ہدایت کار شوکت حسین رضوی  جب کہ فلم ’’دہائی‘‘ کے ہدایت کار وی ایم وہاس تھے۔ فلم ’’نجمہ‘‘ کے تقریباً تمام گیت ہٹ ہوئے، یہ گیت اشوک کمار، ستارا اور ممتاز نے گائے۔ ’’تقدیر‘‘ شمشاد بیگم کی بمبئی میں پہلی فلم تھی، انہیں رفیق غزنوی اپنے ساتھ لاہور سے بمبئی لے کر آئے تھے۔

رفیق غزنوی نے1944ء میں فلمستان کی فلم’’چل چل رے نوجوان‘‘ میں ایک اہم کردار اداکرنے کے ساتھ ساتھ اس فلم میں ایک گیت بھی گایا۔ انہوں نے منروا کی فلم’’ایک دن کا سلطان‘‘ اور ہند پکچرزکی فلم’’ لیلیٰ مجنوں‘‘ کی موسیقی مرتب دی۔ غزنوی نے ایسٹرن پروڈکشنز کی فلم’’زینت‘‘ کی صرف پس پردہ  موسیقی دی، اسی طرح  انہوں نے سیٹھ برادرز کے بینرتلے  بننے والی ایک فلم ’’تحفہ‘‘ کی بھی پس پردہ  موسیقی دی، اس فلم کے لیے انہوں نے ایک گیت بھی لکھا:

’’وہ دل گیا وہ دل کے سہارے چلے گئے‘‘

بمبئی میں رفیق غزنوی کی بطور اداکار آخری فلمیں’’ شام سویرا‘‘ اور’’منجدھار‘‘ تھیں۔ فلم ’’شام سویرا‘‘ میں انہوں نے سورن لتا اور ’’منجدھار‘‘ میں خورشید اورصادق علی واسطی کے ساتھ ایک اہم کردار ادا کیا۔ تقسیم ہندکے بعد وہ پاکستان چلے آئے، پہلے  وہ کراچی میں مقیم ہوئے پھر لاہورچلے گئے۔ 1954ء میں انہوں نے اشفاق ملک کی ایک فلم ’’پرواز‘‘ کی موسیقی ترتیب دی لیکن یہ فلم فلاپ ثابت ہوئی، اس فلم کی ناکامی کے بعد انہوں نے ہدایت کار جعفر بخاری کی ایک فلم ’’انوکھی بات‘‘ کے چار گیت ریکارڈ کرائے تھے کہ یہ فلم بھی بند ہوگئی۔

1956ء میں وہ واپس لاہور سے کراچی آ گئے۔ یہاں آکر انہوں نے شکیل آرٹ پروڈکشنز کی ایک فلم’’منڈی‘‘کی موسیقی مرتب کی، اس فلم کے ہدایت کار عزیز احمد، فلم کی ہیروئین خورشید اور ہیرو آیاز تھے لیکن اس فلم کی ناکامی کے بعد انہوں نے فلمی دنیا کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا اورریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ وہ طویل عرصہ تک ریڈیو سے وابستہ رہے جب پاکستان  میں ٹیلی ویژن کاآغاز ہوا تو انہوں نے ٹی وی کے کئی مقبول پروگراموں کی دھنیں بھی بنائیں۔

’پشاوری موسیقار‘کے نام سے معروف رفیق غزنوی کو ٹھمری ،دادرا اورخیال گانے میں ملکہ حاصل تھا۔ ان کو مختلف راگوں کے گانے پر اتنا عبور حاصل تھا کہ وہ ایک ہی  راگ کو اس کے ٹھاٹ کو متاثرکئے بغیر کئی رنگوں میں پیش کر سکتے تھے۔

حکیم الامت، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال  نے رفیق غزنوی کو اپنی شہرہ آفاق نظموں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ گانے کی اجازت دی تھی، جس کی وجہ یہ تھی کہ رفیق غزنوی ایک تعلیم یافتہ  موسیقار تھے اورعلامہ اقبال کو یقین تھاکہ وہ درست تلفظ اورصحیح لہجے  سے ان نظموں کوگائیں گے۔ رفیق غزنوی نے ان نظموں کو ’’سندھی بھیرویں‘‘ میں گایا۔ آل انڈیا ریڈیو دہلی پرکئی برس تک ان کی کمپوزشدہ ’’سیگنیچرٹیون‘‘ بجائی جاتی تھی۔

1941ء  میں رفیق غزنوی نے سرحد پکچرزکے بینرتلے اپنی مادری زبان پشتومیں ایک فلم ’’لیلیٰ مجنون‘‘ بنائی  جس کے موسیقار،ہدایت کار اورہیرو وہ خود تھے۔ ہیروئن  پشتو کی نامورگلوکارہ  حبیب جان کابلی تھی، فلم کے گیت اور مکالمے  نامور شاعر اوربابائے پشتو غزل امیرحمزہ خان شینواری نے لکھے چوں کہ  اس وقت پشتون معاشرے میں فلموں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔

اس لیے اس فلم کوکوئی خاص پذیرائی نہ مل سکی اور انہیں کافی مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ پشاور کے فردوس سینما والوں کے پاس اس فلم کا پرنٹ موجود تھا، جس کی نمائش ہر سال عید کے موقع پر خصوصی شو کی صورت میں کی جاتی تھی۔

رفیق غزنوی برصغیر کے وہ واحد موسیقار تھے جنہیں اس وقت ہالی ووڈ کے نامور فلم ساز الیگزنڈر کورڈا کی شہرہ آفاق فلم’’ تھیف آف بغداد‘‘ کی موسیقی ترتیب دینے کااعزاز حاصل ہوا۔ وہ بمبئی کے فلمی حلقوں میں ’’پشاوری موسیقار‘‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کئی اداکاراؤں سے شادیاں کیں جو بعدازاں طلاق پرمنتج ہوئیں۔ ان کی پہلی شادی بلوامرتسری کی بیٹی انوری بیگم سے ہوئی جس سے ان کی ایک بیٹی زرینہ پیدا ہوئی، زرینہ نے نسرین کے فلمی نام سے کاردار پروڈکشن کی فلم ’’شاہ جہان‘‘ اورگپتاآرٹ کی فلم’’ایک روز‘‘ میں بطور ہیروئن کام کیا۔

وہ لیاقت آغا سے شادی کے بعد زرینہ آغاکہلائیں۔ ان کی بیٹیاں سلمیٰ آغا اورسبیتا آغا لندن میں پیدا ہوئیں۔ انوری کو طلاق دینے کے بعد انہوں نے دوسری شادی زہرا سے کی جس سے ان کا بیٹا مراد اوربیٹی شاہینہ پیداہوئی۔ نیلی آنکھوں والی اس حسینہ نے چند پاکستانی فلموں بیلی،آنکھ کانشہ،نگار اورانتقام وغیرہ میں کام کیا۔

زہرا سے علیحدگی کے بعد انہوں نے تیسری شادی اس کی بہن اداکارہ انورادھا (خورشید اختر) سے کی جس سے ان کاایک بیٹا آیاز محمود پیدا ہوا۔ ان کی آخری شادی ایک غیرفلمی خاتون قیصر بیگم سے ہوئی جو ان کی وفات تک قائم رہی۔ رفیق غزنوی کی ایک بیٹی کی شادی نامور ہدایت کار ضیاء سرحدی سے ہوئی۔ ضیاء سرحدی کے دو بیٹے خیام سرحدی اور بلال سرحدی شوبزسے وابستہ رہے۔ اس بے بدل موسیقار رفیق غزنوی کا انتقال تین مارچ 1974ء کو 76 برس کی عمر میں کراچی میں ہوا۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔