پاکستانیوں کی ’’حُبِ حیوان‘‘

محمد عثمان جامعی  اتوار 13 دسمبر 2020
جانوروں کی یہ محبت شاعری سے گزرتی ہوئی ہمارے سماج اور سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔فوٹو : فائل

جانوروں کی یہ محبت شاعری سے گزرتی ہوئی ہمارے سماج اور سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔فوٹو : فائل

دنیا کو پاکستان کا سوفٹ امیج اور روشن چہرہ دکھانے کے لیے ہم نے بہت کچھ کیا لیکن اپنا ایک نہایت روشن پہلو ہم خود بھی نہیں دیکھ پارہے تو اوروں کو کیا دکھائیں گے، یہ پہلو ہے جانوروں سے ہماری محبت۔ اس معاملے میں ہم بے مثال قوم ہیں۔ اس محبت کی ابتدا ہماری شاعری سے ہوئی۔

ہمارے شاعروں کا معشوق بننے کے لیے حیوانی خصوصیات کا حامل ہونا لازمی قرار پایا جیسے ہرنی سی چال، ہرن سی آنکھیں، ناگ سی زلفیں، چیتے سی کمر، کوئل سی آواز، توتاچشمی۔۔۔۔اس شاعری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ شہروں میں پلنے بڑھنے والی نئی نسل کو جانوروں کی اہم خاصیتیں شاعری پڑھ کر بلاتردد معلوم ہوگئیں۔ علامہ اقبال نے تو خیر اپنے مرد مومن کے لیے شاہن صفت ہونا فرض کردیا۔ اس فریضے نے مردمومن ہونے کا فریضہ اتنا مشکل کردیا کہ کوئی یہ منصب سنبھالنے کو تیار نہیں۔

اردو شعراء نے حیوان صفت محبوب پر شاعری کرکے ہی جانوروں سے محبت کا ثبوت نہیں دیا براہ راست بے زبان مخلوق پر بھی سخن آرائی کی۔ شاعرمشرق نے تو ’’جس‘‘ کی گود میں بلی دیکھی اسے چھوڑ کر بلی پر نظم لکھ ڈالی۔ اسمعٰیل میرٹھی فرما گئے،’’رب کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ہماری گائے بنائی۔‘‘ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ شاعر صرف گائے بنانے ہی پر رب کا شکر ادا کرنے کا قائل ہے، دراصل یہ میرٹھ کے کبابوں کا اثر ہے، جو گائے بنانے پر شکر اور شعر کی صورت ادا ہوا۔

جانوروں کی یہ محبت شاعری سے گزرتی ہوئی ہمارے سماج اور سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔ چناں چہ ہم نے انسانی آبادیاں بھی جانوروں کے نام پر بسا ڈالیں اور کئی جگہوں کو ان سے موسوم کردیا۔۔۔بھینس کالونی، گیڈر کالونی، مچھر کالونی، گھوڑا گلی، ناگن چورنگی ہماری حُب حیوان کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ہم یہ وضاحت کردیں کہ گیدڑ کالونی میں گیدڑ نہیں رہتے، مچھر کالونی مچھروں کی بستی نہیں، گھوڑا گلی گھوڑوں کا مسکن نہیں اور ناگن چورنگی پر کوئی ناگن اپنے بنگلے میں براجمان نہیں، یہ سارے نام محض حیوانوں کی محبت میں دیے گئے ہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے وزیرستان میں کسی وزیر اور اسلام آباد میں اسلام کا ہونا ضروری نہیں۔ رہی بھینس کالونی، یہاں البتہ بھینسوں کے باڑے ہیں، جو خالص دودھ دیتی ہیں اور دودھ کی فراہمی اور اس میں پانی ملانے کے لیے انسان ان کے ساتھ آباد ہیں۔ آپ نے دیکھا، ضرورت کے وقت انسان ہی بھینسوں کے کام آتا ہے۔

یہ جانوروں سے محبت ہی ہے کہ ہمارے بہت سے حکم راں اور راہ نما آستین میں سانپ پالتے ہیں، سفید ہاتھی پالنے کا تو انھیں بہت ہی شوق ہے۔ ’’اداروں‘‘ کی سطح پر تو یہ شوق جنون بن جاتا ہے۔۔۔جیسے محکمۂ جنگلی حیات، جو معدوم ہوتے جانوروں کا تحفظ یقینی بناتا ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سب ادارے ایک سے نہیں ہوتے، کوئی ’’معدوم‘‘ کرتا ہے تو کوئی معدوم ہونے سے بچاتا بھی ہے۔ یہ اور اس جیسے کئی ادارے جانوروں کے مفادات کا تحفظ پوری دیانت داری سے کرتے ہیں، جواباً جانور بھی ان سے وفاداری نبھاتے ہیں، خاص طور پر ’’وفادار‘‘ جانور۔

ہماری سیاست میں تو جانوروں سے پیار کی روایت نہایت مستحکم ہے، جس کا آغاز سیاست دانوں کو شیر کا خطاب دینے سے ہوا تھا۔ لیکن سیاست دانوں کے شیر ہونے کا ملک میں جنگل کا قانون ہونے سے کوئی تعلق نہیں، کیوں کہ یہ وحشی جنگلی نہیں بڑے تربیت یافتہ شیر ہیں، جانتے ہیں کب شیر بننا ہے کب بلی۔ اسی روایت کے تحت ہمارے ہاں خدمت کے لیے ایک درندے کے نام پر ’’ٹائیگرفورس‘‘ بنائی جاتی ہے اور جمہوریت کی خاطر جنگل کے بادشاہ سے منسوب ’’شیر جوان تحریک‘‘ وجود میں آتی ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی طرح اب تک دوسری سیاسی جماعتوں نے حیوانی ناموں والی تنظیمیں کیوں نہیں بنائیں؟ اگر جانوروں کے نام کے انتخاب کا مسئلہ ہے تو وہ ہم حل کیے دیتے ہیں۔

آصف زرداری صاحب کے گھوڑے پالنے کے شوق اور ’’گھوڑوں کے بیوپار‘‘ میں مہارت کے پیش نظر پاکستان پیپلزپارٹی اپنا ’’گھوڑالشکر‘‘ بناسکتی ہے۔ ایم کیوایم پاکستان جو ’’ان دنوں‘‘ نفیس لوگوں کی جماعت ہونے کا اعزاز رکھتی ہے، اپنی نئی تنظیم کے لیے کسی نفیس اور شریف جانور کا نام اختیار کرسکتی ہے، جیسے ’’فاختہ جُھنڈ‘‘ یا ’’عسکرِ بکری‘‘، امکان ہے کہ یہ نام بگڑ کر ’’عسکری بکری‘‘ ہوجائے گا، خود ایم کیوایم کی طرح۔۔۔۔ جماعت اسلامی آج کل باز کی طرح تنہا پرواز کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔

سو اسے باز کا نام اپنانا ہی زیب دیتا ہے، مثال کے طور پر ’’باز جتھا‘‘ یا شیر جوان کی طرز پر ’’باز جوان‘‘، تاہم یہ احتیاط ملحوظ رہے کہ ’’باز‘‘ بہ طور لاحقہ ہی استعمال ہو، بہ طور سابقہ نہیں! جمعیت علمائے اسلام (ف) عرصے بعد حکومت سے باہر بھی ہے حکم رانوں پر برہم بھی، اس برہمی کا تقاضا ہے کہ اس کی تنظیم ’’بُل فورس‘‘ کے نام سے سامنے آئے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ’’سُرخ‘‘ جھنڈے والی عوامی نیشنل پارٹی بھی اس کے ساتھ ہے، لہٰذا ’’بُل فورس‘‘ کو لال رومال دکھائے بغیر یا تحریک انصاف کے پرچم کے نصف لال پر گزارہ کرتے ہوئے متحرک کرنا ہوگا۔

مسلم لیگ ق جیسی بھلے مانسوں کی جماعت پر درندوں اور جنگلی جانوروں کا نام اختیار کرنا نہیں سجے گا، وہ تو کسی پالتو جانور کے نام پر اپنی تنظیم بنائے، مثلاً ’’گھر کی مُرغیاں‘‘ یا ’’بھیڑوں کا ریوڑ۔‘‘ ہمارے محبوب راہ نما مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی اگرچہ انتخابی نشانات کی فہرست سے اپنے پرچم تک ڈولفن کو اپنا چکی ہے، لیکن سمندری مخلوق کے نام پر زمین کے مسائل کے حل کے لیے تنظیم بنانا مناسب نہیں ہوگا۔

یوں بھی بے چاری ڈولفن سکھائے ہوئے کرتب دکھانے کے علاوہ انسانوں کے کس کام آتی ہے! سو پاک سرزمین پارٹی کے لیے یہ نشان موزوں ہے، لیکن زمین پر سرگرم تنظیم بنانا ہے تو پاک سرزمین پارٹی کو کوئی سرزمین کا جانور منتخب کرنا پڑے گا۔ ہمارے رائے میں ’’بِلّی‘‘ جیسے معصوم جانور کا نام مناسب رہے گا۔۔۔’’بلی غول‘‘ کیسا ہے۔ یہ نام رکھنا فائدہ مند بھی ہوسکتا ہے، کیوں کہ کبھی کبھی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ جاتا ہے۔

سیاسی جماعتوں کو یہ مشورے تو ہم نے اپنی سیاست میں مداخلت کی عادت کے تحت دے ڈالے، حالاں کہ ہمارا موضوع تھا جانوروں سے پاکستانیوں کی محبت، پتا نہیں یہ عادت ہمیں کیسے پڑی، حالاں کہ یہاں غالب کی طرح سو تو کجا ایک پشت سے بھی ’’پیشۂ آبا سپہ گری‘‘ نہیں۔ خیر، عرض بس اتنا کرنا تھا کہ اگر جانوروں سے پاکستانیوں کی محبت کی دنیا بھر میں تشہیر کیجیے، اس ’’مشہوری‘‘ مہم میں یہ تذکرہ خاص طور پر کیا جائے کہ ہم جانوروں کا اتنا خیال رکھتے ہیں کہ ہمارے وزیراعظم نے ایوان وزیراعظم سے بھینسوں کو محض اس لیے دیس نکالا دیا کہ کَٹوں کی تربیت اچھے ماحول میں ہو، انھوں نے معیشت کو مرغی پر منحصر کرکے مرغی کا درجہ طائرلاہوتی سے بھی بڑھا دیا، اسی طرح ہمارے صدر نے غریب انسانوں کے لیے لاکھوں مکان بننے سے پہلے توتے کا پنجرہ بنوانا ضروری سمجھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔