ہریتک روشن اور سوزین کی علیحدگی آپ اپنے کام سے کام رکھیں

کیا شادی کے حوالے سے ہم ان کے مشیر ہیں؟ کیا ہم نے یہ جانا کہ ایک جوڑے کی حیثیت ان کے درمیان دراصل میں کیا ہورہا تھا؟


فرح ایس کمال December 29, 2013
ہم نے یہ فرض کرلیا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے اور اسی وجہ سے ہم نے اعلان کردیا کہ انہیں علیحدہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔

آپ کو اپنے شوہر کے ساتھ اپنی آخری تلخ کلامی یاد ہے؟ وہی جس میں آپ دونوں پارٹی میں جارہے تھے اور آپ نے اپنے آنسوؤں کو روکتے ہوئے فورا پلکیں جھپکالیں اور اپنے چہرے پر بہتے ہوئے مسکارا کو صاف کیا۔

آپ تقریباً اپنے مقام پر پہنچ چکے تھے اور پورا راستہ آپ دونوں ایک دوسرے بحث کرتے رہے۔ لیکن اس وقت کیا ہوا جب آپ اپنے دوست کے گھر پہنچے؟ آپ کے شوہر نے آپ کی کمر کے گرد اپنا باز رکھا اور آپ دونوں ایسے مسکرائے جیسے "ہم دونوں بہت خوش ہیں"، آپ نے بھی اپنے شوہر کو اس طرح تھام لیا جیسے کہ آپ دونوں کی بہترین شادی شدہ زندگی میں بظاہر کوئی شکن موجود نہیں۔

یہ صرف آپ کا ردعمل نہیں ہے، اس صورتحال میں زیادہ تر جوڑے یہی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

کیوں؟

کیوں کہ ہم سب لوگوں کا خیال ہے کہ شادی، رشتے، طلاق اور دیگر معاملات کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا ذاتی مسئلہ ہیں۔ تاہم ہم اپنی ذاتی زندگی کو اتنا ہی نجی رکھنا پسند کرتے ہیں جتنا ممکن ہوتا ہے اور اسے ایک مکمل پیش کرتے ہیں جتنا ممکن ہوتا ہے لیکن ہم میں سے صرف کچھ ہی لوگ ایسے ہیں جو اس بنیادی حق کی اپنے اردگرد موجود لوگوں اجازت دیتے ہیں ۔

ہم سب اپنے سماجی دائرے میں ایسے دوست، رشتہ دار اور لوگ رکھتے ہیں جن کی اپنی ایک ذاتی کہانی ہوتی ہے جو کہ اس سے قطعی مختلف ہوتی ہے جسے ہم معاشرے میں قابل قبول سمجھتے ہیں۔ کوئی بھی ایک ناخوشگوار رشتہ رکھ سکتا ہے، کوئی شاید اپنی پرتشدد شادی شادہ زندگی سے طلاق لے رہا ہو ، شاید کوئی بیوگی کے بعد دوبارہ شادی کررہا ہو یا شاید کوئی کسی ایسی حالت میں ہو جو ہمارے لئے مکمل طور پر ناقابل تصور ہو۔

اکثر اوقات یہ ہمیں متاثر نہیں کرتا ہے کم از کم براہ راست نہیں، لیکن زندگی کے کسی ایک پہلو کی وجہ سے ہم ایک مخصوص شخص کے ساتھ اپنا رویہ تبدیل کرلیتے ہیں۔

ہم خود ساختہ اخلاقی پولیس بن جاتے ہیں۔

اور یہ صرف ہمارے قریبی دائرے میں موجود افراد تک محدود نہیں ہے۔ کچھ دن قبل جب 17 سال کی رفاقت کے بعد ہریتک روشن اور ان کی اہلیہ سوزین خان کی علیحدگی کی خبریں لوگوں کے علم میں آئی تو لوگوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور یہ دعوی کیا گیا کہ اس علیحدگی سے ان کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔





ہم نے یہ فرض کرلیا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے اور اسی وجہ سے ہم نے اعلان کردیا کہ انہیں علیحدہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔

کیا شادی کے حوالے سے ہم ان کے مشیر ہیں؟ کیا ہم ان کے قریبی دوست ہیں؟ کیا ہم نے یہ جانا کہ ایک جوڑے کی حیثیت ان کے درمیان دراصل میں کیا ہورہا تھا؟

نہیں، ہے نا؟

پھر ہمارے پاس کیا اختیار ہے کہ ہم ان کی طلاق پر سوال یا ماتم کریں؟

چلیں میں آپ کو ماضی میں لے جاتی ہوں، آپ کو یاد ہے جب سیف علی خان نے امرتا سنگھ سے شادی کی تھی؟

لوگ اس وقت یہ کہتے ہوئے نہیں رک سکے کہ کس طرح ایک خوب صورت نوجوان 21 سال کے لڑکے نے اپنے سے 13 سال بڑی عورت امرتا سنگھ سے شادی کرلی۔ ہمیں کیسے جان سکتے ہیں کہ کس چیز نے اس کو ان سے شادی کی جانب مائل کیا؟ ہم کون ہوتے ہیں اس بات کا فیصلہ کرنے والے کہ ان کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط ؟

یہ ان کی زندگی ہے۔

انہی لوگوں نے اس وقت افسوس کا اظہار کیا جب ان کی ان کی علیحدگی ہوئی ( ظاہر ہے، اس بات پر زور دینا کہ "میں نے کہا تھا")

اور حال ہی میں جب سیف علی خان نے کرینہ کپور سے شادی کی تو لوگوں نے پھر باتیں بننا شروع کردیں کیونکہ اس دفعہ انہوں نے خود سے 10 سال چھوٹی لڑکی کی شادی کرنے کی ہمت کی تھی۔

میرا سوال ہے کہ: ان کا کسی سے بھی شادی کرنا اور نہ کرنا ہمیں کسے متاثر کرتا ہے؟

کم از کم ہریتک روشن اور سیف علی خان دونوں عوامی شخصیات ہیں اور وہ فوٹوگرافرز اور شائقین کی مداخلت کے عادی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے اردگرد موجود عام آدمی کو بھی روز مرزہ کی مداخلت اور قیاس آرائی سے نہیں بخشتے۔

ہم کیوں لوگوں کو ان کی زندگی گزارنے اور اپنے کام سے کام رکھنے کے قابل نہیں ہیں؟ بالخصوص اس وقت جب ہم ان سے اسی بات کی امید کرتے ہیں اور یہی چاہتے ہیں؟

میں نے اسے ہمیشہ مضحکه خیز لیا، یہ بتانے کرنے کے لیے نہیں کہ اس میں کوئی حقیقی تفریح نہیں جب لوگوں کو ان کے جاننے والے اپنے ذاتی زندگی کے مسائل بتاتے ہیں تو وہ بیزاری ظاہر کرتے ہیں اور پھر یہ لوگ معلومات تک رسائی کے لئے اکثر گھریلو ملازمین کو رشوت دینے پرتیار ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے کمپیوٹرز ہیک کرتے ہیں اور ایسے معاملات میں لامحدود گپ شپ میں مشغول ہوجاتے ہیں جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

بلآخر، ہم ایسےتانک جھانک کرنے والے پڑوسیوں سے بھی واقف ہیں جو پڑوس میں ہر آنے جانے والے پر نظر رکھتے ہیں۔

مجھے اکثر یہ سمجھنے سے قاصر ہوتی ہوں کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں ؟

کیا ہمارے پاس بہت زیادہ وقت ہے؟ کیا ہم اپنی زندگیوں سے اس قدر ناخوش ہیں جو ہمیں دوسروں کی زندگی میں غلطیوں کو تلاش کرنےاور چیڑنے پھاڑنے کی ضرورت ہے؟ کیا یہ صرف گھناؤنا چکر ہے کہ ہم تنقید کا نشانہ بنیں اور پھر ہم اپنی تنقید کا رخ دوسروں کی جانب موڑ دیں؟

شاید، یہ ان سب چیزوں کا ملاپ پے۔

لیکن ذاتی طور پر میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ یہ تنقید کا گھناؤنا چکر ہے جو ہمیں دوسروں کی جانب عدم رواداری پر ابھارتا ہے۔ ہم ان لوگوں کو قبول نہیں کرتے جو ہم سے ذرا بھی مختلف ہوں، ہم اپنے اردگرد موجود ہم جنس پرستوں، ہجڑوں اور بدقسمتی سے معذور لوگوں کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ وہ ہم سے مختلف ہوتے ہیں۔

ہم خود کو ترقی پسند کہتے ہیں کیونکہ ہم نے 21 ویں صدی کا طرز زندگی اپنا لیا ہے جہاں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور دوستی کرسکتے ہیں۔ ہم ٹیکنالوجی اور آلات کے استعمال میں ماہر بن گئے ہیں۔ لیکن چلیں اس بات کا سامنا کرتے ہیں کہ ہماری سوچ میں یہ بات رچ بس چکی ہے جس کی وجہ سے ہم طلاق، ناجائز تعلقات، بیوگی اور ہم جنس پرستی کی مذمت کرتے ہیں۔

ان میں سے کوئی بھی سب سے بہتر یا قابل تعریف انتخاب نہیں ہے۔ لیکن جب تک ہم ان حالات کے کی ان وجوہات کو نہ سمجھ لیں جو کہ لوگوں کو اس قسم کے فیصلے کرنے پر مجبور کرتی ہیں اور جب تک ہمیں اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ اگر ہمیں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا تو ہم بھی یہ اقدامات نہیں کریں گے، ہمیں نہ تو دوسروں کے ذاتی معاملات میں مداخلت کر سکتے ہیں نہ ہی کرنی چاہیے ۔

سادہ لفظوں میں؛ ہمیں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

مقبول خبریں