بیس سو بیس میں کیا کچھ بیتا

رضوان طاہر مبین  اتوار 3 جنوری 2021
گزرے سال دنیا اور پاکستان میں ہونے والے اہم ترین واقعات۔ فوٹو: فائل

گزرے سال دنیا اور پاکستان میں ہونے والے اہم ترین واقعات۔ فوٹو: فائل

لفظ سے لفظ بنانے اور بات سے بات نکالنے والوں نے2020ء کو کرکٹ کے جدید اور مختصر میچ ’ٹوئنٹی ٹوئنٹی‘ سے تشبیہہ دی تھی۔۔۔ لیکن جب یہ برس شروع ہوا، تو اصل صورت حال اس کے بالکل برعکس نکلی۔۔۔

سال کے شروع میں ہی چین کے شہر ’’ووہان‘‘ سے اٹھنے والی وبا ’کورونا‘ نے ساری دنیا کے معمولات کو تلپٹ کر کے رکھ دیا۔۔۔ عالمی قرار دی جانے والی یہ وَبا دنیا کے کونے کونے میں پھیلی اور اس نے لوگوں کو گھروں میں خوف زدہ ہوکر محصور کر دیا۔۔۔ سبھی جگہ ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے، معمولات زندگی کئی ہفتوں تک معطل رہے، پھر ہار کر جب زندگی کے معمولات بحال ہونے لگے تو کڑے حفاظتی اقدام کا ایک غلغلہ مچا۔۔۔ کئی نام ور شخصیات اس مہلک اور لاعلاج وبا کی نذر ہوگئیں۔۔۔

یوں تو اس برس قومی اور عالمی منظر نامے پر اور بھی بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے۔۔۔ لیکن ’کورونا‘ نے اس 2020ء کو ایسے نشانے پر رکھا کہ اِسے ’کورونا کا سال‘ کہنا بے جا نہ ہوگا۔۔۔ اب جب کہ یہ برس دَم اخیر پر ہے۔۔۔ اس وبا کی دوسری لہر سر اٹھا رہی ہے۔۔۔ شاید ہم اگلے برس بھی اس وبا کے سائے میں ہی داخل ہوں، لیکن امید اور دعا یہی ہے کہ جلد اس بیماری کا کام یاب علاج سامنے آئے اور دنیا کے طول وارض میں انسانوں کے درمیان فاصلوں کی اس وبا کا انت ہو سکے۔۔۔

تو آئیے، تھوڑی دیر کے لیے وقت کے پہیے کو اُلٹا سِرکا کر ذرا دیکھتے ہیں، کہ بیتے ہوئے برس میں کیا کچھ ’خبر‘ ہوا اور مورخ نے پنوں پر کیا کچھ رقم کیا۔۔۔

ایران امریکا جھڑپ۔۔۔!

2020ء کی شروعات میں ہی عالمی سطح پر ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی سے تیسری عالمی جنگ جیسے خدشات ظاہر کیے جانے لگے، اس کی وجہ تین جنوری 2020ء کو بغداد میں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کیا جانے والا امریکی حملہ بنا، جس میں ایرانی کمانڈو فورس القدس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی سمیت سات فوجی جان سے گئے۔۔۔ امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون نے کہا کہ ایرانی جنرل امریکی سفارت کاروں اور فوجیوں پر حملے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

دوسری طرف ایران کی جانب سے اس کارروائی کا انتقام لینے کے اعلان سے صورت حال میں تناؤ پیدا ہوگیا، جس کے بعد تہران کی جانب سے آٹھ جنوری کو امریکی فضائی اڈوں پر میزائل حملوں میں 80  امریکی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔ ایرانی کارروائی کی تصدیق امریکی محکمہ دفاع نے کی تو، لیکن فوجیوں کی ہلاکت کی تردید کی گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بولے ’کچھ نہیں ہوا!‘ یوں عالمی سطح پر کشیدگی منطقی انجام سے دوچار ہوئی۔ دوسری طرف سات جنوری کو ایرانی شہر کرمان میں جنرل قاسم سلیمانی کے جنازے میں بھگدڑ مچنے سے 50  جانیں چلی گئیں۔۔۔ سانحے کے سبب حکام کو تدفین ایک روز کے لیے موخر کرنا پڑی۔

ایرانی میزائل سے مسافر طیارہ تباہ ہوا

آٹھ جنوری کو تہران میں یوکرین کا ایک مسافر طیارہ تباہ ہونے سے 176 مسافر ہلاک ہوگئے۔ اس طیارے میں 82 ایرانی اور 63 کینیڈین سوار تھے۔ ابتداً حادثے کی وجہ فنی خرابی قرار دیا گیا، لیکن پھر 10 جنوری کو کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ طیارہ ایرانی میزائل سے تباہ ہوا، جس کے بعد  11جنوری کو ایران نے غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ طیارے کو کروز میزائل سمجھ کر نشانہ بنایا گیا۔۔۔!

شادی کی تقریب میں تھپڑ ’کھلا دیا‘ گیا

وفاقی وزیر فوادچوہدری نے پانچ جنوری کو وزیرزراعت محسن لغاری کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں حالات حاضرہ کے ٹی وی پروگراموں کے میزبان مبشر لقمان کو تھپڑ رسید کر دیا۔۔۔ خبر کے مطابق وزیرموصوف نے تلخ کلامی کے بعد انھیں تین، چار چانٹے مارے۔۔۔! اس اشتعال کی وجوہات میں ٹی وی میزبان کے ’یوٹیوب‘ اکاؤنٹ پر فواد چوہدری سے متعلق ایک ویڈیو گنوائی گئی۔۔۔ وقوعے کے بعد فواد چوہدری نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر کہا کہ ’’یہ وہ۔۔۔ہیں، جو صحافت میں گھس گئی ہیں، ایسے صحافتی۔۔۔ کو بے نقاب کرنا سب کا فرض ہے۔‘‘

 فوجی سربراہوں کی تعیناتی کا قانون بنا

سات جنوری 2020ء کو فوجی سربراہوں کی تعیناتی کا ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور ہوا، یہ بل وزیر دفاع پرویزخٹک نے پیش کیا، جس کے مطابق وزیراعظم کی تجویز پر صدرِ مملکت تین سال کے لیے تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں تین سال توسیع یا ان کی دوبارہ تقرری کر سکیں گے۔ ایوان میں پیپلزپارٹی نے بھی اپنی ترامیم واپس لے لیں اور ’ایم کیو ایم‘ ق لیگ اور حکومتی اتحادیوں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) نے بھی حمایت کی، جب کہ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) اور ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ نے ’احتجاجاً‘ واک آؤٹ کیا۔ آٹھ جنوری کو یہ قانون سینیٹ سے منظوری ہوا اور نو جنوری کو صدر عارف علوی کے دستخط کے بعد قانون بن گیا۔

چوہدری نثار کا ’’روزہ‘‘ توڑنے کا اعلان!

ایک خبر کے مطابق سات جنوری کو سابق وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ وقت آنے پر ’چُپ کا روزہ‘ توڑ دوں گا۔۔۔! انھوں نے یہ بات حاجی شیخ غلام رسول کے صاحب زادے کی شادی کے موقعے پر کہی۔۔۔ مختصر خبر میں یہ بالکل بھی واضح نہیں ہے کہ انھوں نے یہ بات اشاروں سے کہی یا تحریری طور پر۔۔۔ کیوں کہ بقول انھی کے کہ وہ ’روزے سے ہیں‘ جسے وہ ’وقت آنے پر‘ توڑ دیں گے۔۔۔ اگر یہ زبان سے ادا کیا ہے، تو پھر سچ پوچھیے تو ان کا روزہ تو جاتا رہا۔۔۔ انھیں ہمارا ’مشورہ‘ ہے کہ انھوں نے جب روزہ رکھ ہی لیا ہے، تو اسے خوامخواہ توڑنے کی بات بھی نہ کریں۔۔۔

ہم نے بڑوں سے سنا ہے کہ ایسی باتیں کرنے سے نہ صرف ’ثواب‘ ضایع ہوتا ہے، بلکہ روزہ بھی ’مکروہ‘ ہو جاتا ہے۔ اگر آپ نے واقعی روزہ توڑا، تو کہیں لوگ یہ نہ کہتے پھریں گے کہ چوہدری نثار نے ’وقتِ عصر روزہ توڑ لیا۔۔۔!‘ اس لیے یہ اچھا ہوگا کہ اپنا روزہ ’پورا‘ کریں اور جس کی ’’اذان‘‘ پر روزہ رکھا ہے، افطار کے واسطے بھی اسی کی ’صدا‘ پر کان لگائے رہیں۔۔۔ کیوں کہ یہی طریقہ ’مناسب‘ معلوم ہوتا ہے۔۔۔ اور پھر یہ بھی تو نہیں پتا ناں، کہ یہ روزہ ’نفلی‘ ہے یا ’فرضی‘۔۔۔! یا پھر کسی ’منّت‘ کا نتیجہ ہے۔۔۔ وہ ان تمام باتوں پر غور کریں، ویسے پورا 2020ء بیت گیا۔۔۔ جانے ’’روزے‘‘ کا کیا بنا۔۔۔ کچھ خبر نہیں!

برطانوی شاہ زادے اعلیٰ حیثیت سے دست بردار!

برطانوی شاہ زادے ہیری اور ان کی اہلیہ میگھن مارکل نے 9 جنوری کو اپنی اعلیٰ شاہی حیثیت چھوڑنے کا اعلان کردیا اور برطانیہ کے علاوہ اپنا وقت شمالی امریکا میں گزارنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ مالی طور پر خودمختار ہونے کے لیے اقدام کریں گے، لیکن ’ملکۂ برطانیہ‘ کی مکمل معاونت اور حمایت جاری رکھیں گے۔ دوسری طرف برطانوی شاہی خاندان نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ لندن کے مشہور ’مادام تساؤ کے عجائب گھر‘ سے شاہی خاندان کے مجسموں سے ان کا ’مومی وجود‘ ہٹا دیا گیا ہے۔۔۔ یعنی جب حقیقت میں ساتھ نہیں ہیں، تو ان کی موم کی مورتیاں بھی یک جا کیوں رہیں۔۔۔!

ڈاکٹر عطاالرحمٰن کے لیے چینی اعزاز

10جنوری کو چینی صدر ژی جن پنگ کی جانب سے معروف پاکستانی سائنس داں اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹرعطاالرحمٰن کو علم کیمیا کے شعبے میں گراں قدر خدمات کے اعتراف میں چین کا سب سے اعلیٰ سائینٹیفک ایوارڈ ’گریٹ پیوپلز ہال‘ دیا گیا۔ ڈاکٹر عطا الرحمٰن یہ اعزاز حاصل کرنے والے پہلے مسلمان سائنس داں ہیں۔

’’ہم ایک ارب کا چندہ جمع کرلیں گے۔۔۔!‘‘

12 جنوری کو وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے وزیرانفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنی وزارت چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو کراچی کو ایک ارب دینے میں مشکل ہو رہی ہے، ہم اگر چندہ جمع کریں، تو ایک ارب جمع کر لیں گے، وزارتیں ہمارا مسئلہ نہیں ہیں۔ شہری علاقوں کے عوام کی نظریں ہم پر ہیں۔

ہم ان کے مسائل حل نہیں کر سکے۔۔۔‘ اور ساتھ ساتھ آسمان نے یہ تماشا بھی دیکھا کہ ان کی جماعت کے ووٹوں سے منتخب سینٹیر اور وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم سے متعلق فرمایا کہ وزارت کے لیے ان کا نام ہم نے نہیں دیا۔۔۔! یاابوللعجب! کہاں ’فوجی‘ نظم وضبط والی ’ایم کیو ایم‘ اور کہاں ’کنوینئر‘ سرِبازار یہ ’رونا‘ رو رہا ہے کہ اس کی جماعت کے سینٹیر ہی ’اس کے‘ نہیں۔۔۔! اس لیے انھوں نے فروغ نسیم سے استعفا لینے کی خواہش تک ظاہر نہیں کی، وہی فروغ نسیم جو ایک بار آرمی چیف اور ایک بار وفاقی حکومت کی وکالت کرنے کے لیے وزارت چھوڑ چکے۔

ان کے لیے ان کے جماعت کے ’بڑے‘ کی لاچارگی بہت سبق آموز تھی۔۔۔! 17 جنوری 2020ء کو بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے کنوینئر کے بیان کا جواب دیا، اور بولے کہ ’’خالد مقبول کے کہنے پر ہی وزارت سنبھالی‘‘ ان کی گفتگو کا اگلا حصہ زیادہ اہم تھا کہ ’’وزیراعظم کو اپنا ’بھائی‘ سمجھتا ہوں۔‘‘ تو، اب عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے صاحب، 23 اگست 2016ء کو ’ایم کیو ایم‘ نے ڈاکٹر فاروق ستار کی زیر قیادت یہی تو اعلان کیا تھا کہ ساتھیو! آج سے ’’بھائی اپنا اپنا۔۔۔‘‘ تبھی تو فروغ نسیم اور خالد مقبول نے اس بات کو دبا دینے میں ہی ’عافیت‘ جانی۔۔۔ ہاں، البتہ یہ ضرور ہوا کہ 22 اپریل کو ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی جگہ امین الحق نے ان کی چھوڑی ہوئی وزارت کا حلف اٹھالیا، اس کی کوئی معقول وجہ بھی سامنے نہیں آئی، بھئی اگر خالد مقبول روٹھ کر اب مَن گئے تھے، تو خود ہی لوٹتے ناں، یا اپنی جگہ امین الحق کو بھیجنے کی کوئی مناسب وجہ بتا دیتے، یا پھر یہی کہہ دیتے جیسے فروغ نسیم کو ’کسی اور‘ نے بنا دیا، ایسے ہی امین الحق بھی اُن کے وزیر نہیں۔۔۔!

پرویز مشرف کی سزا کالعدم ہوئی

13جنوری کو لاہور ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویزمشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کالعدم قرار دے دی اور ملزم کی غیرموجودگی میں سنائی جانے و الی سزا کالعدم قرار دے دی۔۔۔

جنرل بابر افتخار نئے ترجمان پاک فوج

16 جنوری 2020ء کو ڈی جی ’آئی ایس پی آر‘ میجر جنرل آصف غفور کا تبادلہ کرتے ہوئے انھیں اوکاڑہ میں ڈویژن کی کمان سونپی گئی اور ان کی جگہ میجر جنرل بابر افتخار نئے ڈی جی ’آئی ایس پی آر‘ تعینات ہوگئے، میجر جنرل بابر افتخار نے 1990ء میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا۔

’بے نظیر انکم سپورٹ‘ کے ’’مفلس‘‘ اعلیٰ سرکاری افسران

17 جنوری کو ملک کے مستحق افراد کے لیے جاری کردہ معروف فلاحی منصوبے ’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ سے فائدہ اٹھانے والے 17 گریڈ سے 21 گریڈ تک کے 14  ہزار افسران کو برطرفی کے نوٹس جاری کر دیے گئے۔۔۔ یعنی کہ وہ محدود سی رقم جو ملک کے مفلس ونادار شہریوں کی گزربسر کے لیے سرکاری خزانے سے ادا کی جا رہی تھی، وہ تک ’سرکاری اُچکے‘ اپنی جیبوں میں بھر رہے تھے۔۔۔ اور وہ بھی عام ملازمین نہیںِ، بلکہ 17 گریڈ سے 21گریڈ کے اعلیٰ افسران، یا تو ہمارے سرکاری ملازمین کی حالت اتنی ’ابتر‘ ہوگئی ہے کہ انھیں اپنی ضرورتوں کے لیے ’بیت المال‘ سے استفادہ کرنے کی حاجت ہوگئی یا پھر انھیں ’چُھوٹ‘ اتنی ملی کہ انھوں نے غربا کے چند روپے تک بھی نہ بخشے!

کبھی پاکستان کے اتنے قریب نہ تھے۔۔۔ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’’ہم کبھی پاکستان کے اتنے قریب نہیں تھے، جتنے اب ہیں!‘‘ شکر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات ’کورونا‘ کے عام ہونے سے پہلے 21 جنوری کو ’عالمی اقتصادی فورم‘ میں عمران خان سے ملاقات کے موقع پر کہی۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکا کا شمار ہمارے ہاں عوامی سطح پر اُن ممالک میں ہوتا ہے، جن کی قربت سے ہی ہمیں زیادہ ’خطرہ‘ محسوس ہوتا ہے، شاید انھی کے لیے کہا جاتا ہے کہ ’’روٹی تندور کی اچھی، دوستی دور کی اچھی!‘‘ سوئٹزر لینڈ میں عمران خان کو دوست قرار دیتے ہوئے امریکی صدر نے ان سے تیسری ملاقات پر اظہارِمسرت ہی نہیں کیا، بلکہ یہ ’انکشاف‘ بھی کر ڈالا کہ ’وہ کشمیر کی صورت حال دیکھ رہے ہیں!‘ جی تو ہمارا یہ چاہتا ہے کہ پوچھیں ’’اَماں! کیا دیکھ رہے ہیں۔۔۔؟‘‘ لیکن خیال آتا ہے کہ شاید وہ تماشا سمجھ کر ہی دیکھ رہے ہیں۔۔۔ انھوں نے یہ بھی فرمایا کہ ’کشمیر پر ثالثی کر سکتے ہیں۔‘ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔۔۔ بلکہ سچ پوچھیے ’تو اسی ’ثالثی‘ سے تو ڈر بھی لگے ہے ہمیں۔۔۔‘

چین میں کورونا، پاکستان میں تنبیہ جاری ہوئی!

22جنوری 2020ء کو چین میں دسمبر 2019ء سے جاری ایک پراسرار بیماری کا عقدہ ’کورونا‘ کے نام سے کھل گیا۔۔۔ تب تک چین میں 9 افراد ہلاک اور 450 متاثر ہو چکے تھے، اس کے ساتھ ہی پاکستان میں ہوائی اڈوں پر ’کورونا‘ کا الرٹ جاری ہوا، 31 جنوری کو کراچی کے چار بڑے اسپتالوں میں آئسولیشن وارڈ قائم کیے گئے، جس میں جناح اسپتال، سول اسپتال، ڈاؤ اوجھا کیمپس اور آغا خان اسپتال شامل تھے۔ 29 جنوری کو چین سے سرحد بند کرنے کا فیصلہ ہوا اور جاپان کی جانب سے چار ٹیسٹنگ کٹ عطیہ کرنے کا اعلان ہوا۔

امریکا برطانیہ کے لیے ’محفوظ‘ ہوا پاکستان

اس کا یہ مطلب نہ لے لیجیے گا کہ خدانخواستہ پاکستان کو امریکا یا برطانیہ وغیرہ کے لیے ’محفوظ کرلیا گیا ہے‘ ہوا یہ ہے کہ 24 جنوری کو برطانیہ نے پاکستان کو اپنے شہریوں کے لیے محفوظ ملک قرار دے دیا۔ نئی سفری تجاویز جاری کرتے ہوئے یہاں امن وامان کی صورت حال بہتر قرار دی گئی، فرمان ہوا کہ برطانوی شہری اب ’شمالی علاقہ جات‘ (واقعی، وہی قابلِ سیاحت شمالی علاقے، کوئی مجازی معنوں میں ’شمالی علاقے‘ نہ سمجھے) کے سفر سے بہ ذریعہ سڑک بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

اس کے بعد 31 جنوری کو امریکا نے بھی پاکستان کو محفوظ ملک قرار دے دیا۔۔۔ جس پر یقیناً عوام نے ڈر کر امریکا سے محفوظ رہنے کی دعا کی ہوگی، کیوں کہ 26 جنوری کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی گاڑی کی ٹکر سے خاتون جاں بحق ہوگئیں، مارگلہ تھانے کی حدود فیصل چوک میں لینڈ کروزر کی ٹکر سے خاتون نادیہ بی بی چل بسی خاوند سمیت پانچ افراد زخمی ہوئے۔ متوفیہ کے بیٹے اسامہ اشفاق کے مطابق ہمارے اہل خانہ فوتیدگی پر جا رہے تھے کہ یہ افسوس ناک حادثہ پیش آگیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرتے ہوئے ڈرائیور امجد خان کو گرفتار کر لیا۔

’نیست ونابود کر دیں گے!‘ مصطفیٰ کمال

24جنوری کو سابق میئر کراچی اور موجودہ ’پی ایس پی‘ کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے لاڑکانہ میں ایک عدد جلسہ کیا اور وہاں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’سندھ کے ٹکڑے کرنے والوں کو نیست ونابود کر دیں گے!‘‘ کہاں تو وہ 2016 ء سے بالکل ’معصوم‘ اور ’سراپا امن‘ بن کر پھرا کیے اور کہاں خود کو ’پاک سرزمین‘ سے سمیٹ کر ایک صوبے کی وحدانیت تک سکیڑ لیے۔۔۔ وہ مزید بولے کہ ’جب تک ’سندھ دھرتی کا بیٹا‘ مصطفیٰ کمال اور اس کی پارٹی موجود ہے، کوئی سندھ کے ٹکڑے نہیں کر سکتا۔‘ ا

گر یہ بات کسی بھی قوم پرست کے نام کے ساتھ لگا دی جائے، تو کوئی پہچان نہیں سکتا کہ یہ ایک صبح شام ’پاکستانیت‘ کے دَم بھرنے والے سیاست داں کی زبان ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں وہ فطری طور پر پیپلز پارٹی کے مکمل ہم نوا دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ تاہم اپنی پچھلی جماعت کے بانی پر ’یوٹرن‘ کے الزامات عائد کرنے والے سابق ناظم کراچی ان دنوں دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح ’کراچی کے حقوق‘ کے بہاؤ میں غوطہ زَن دکھائی دیتے ہیں، اور بھول چکے ہیں کہ وہ پاکستان کے ’قومی راہ بر‘ بننے کا سپنا سجائے بیٹھے تھے۔۔۔

ہندوستان کی ویزا پالیسی پر ہندو برادری کا مطالبہ

25جنوری کو پاکستان کی ہندو برادری نے ہندوستان میں اپنے مُردوں کی ’استھیاں‘ بہانے کے لیے ویزے جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ دیوان چند چاؤلہ نے کہا کہ سندھ کے مختلف مندروں میں سیکڑوں ہندوؤں کی استھیاں امانتاً رکھی ہوئی ہیں، لیکن بھارت کی سخت ویزا پالیسی کے باعث ہندوستان میں آخری رسومات کی ادائی کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

گروہ بندی پر حکومتِ خیبر پختونخوا‘ کی کارروائی

26 جنوری 2020ء کو وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے مبینہ طور پر ’گروہ بندی‘ میں ملوث تین اہم وزرا کو برطرف کردیا، جن میں سینئر وزیر عاطف خان، شہرام ترکئی اور شکیل احمد شامل تھے۔ صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے گروہ بندی کا الزام لگاتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کی ہدایت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا، ان وزرا میں سے ایک ’وزیراعلیٰ‘ کے بھی امیدوار تھے۔، تینوں کو بہت سمجھایا، یہاں تک کہ بات وزیراعظم تک پہنچ گئی، اس پر خاموش رہتے تو مسائل پیدا ہوتے۔

بچے کی پیدائش پر والدین کو چھٹیاں

27 جنوری کو سینیٹ نے ’مدریت پدریت‘ بل منظور کرلیا، جس کے مطابق بچے کی پیدایش پر ماں کو 6 اور باپ کو 3 ماہ کی رخصت دی جائے گی۔ بل کی محرک قرۃ العین مری نے کہا کہ اگر آجر ملازمین کو چھٹی نہیں دیتے، تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ سینیٹ کی معزز رکن کی یہ بات نہایت ’غیرمناسب‘ ہے، کیوں کہ ہمارے آجران ذرا ذرا سی بات پر ملازمین کو ’چُھٹی‘ ہی تو دے دیتے ہیں۔۔۔ اب مزید کس بات کا تقاضا ہے، کہیں تنخواہ شرم ناک حد تک کم ہے، کہیں تاخیر ہوتے ہوتے اب عملاً چھے، چھے ماہ پہلے کی تنخواہ دی جاتی ہے۔۔۔ برس ہا برس سے تنخواہ بڑھائی نہیں گئیں، اور اگر مہنگائی کے پیمانے پر پرکھیے، تو حقیقت میں یہ نتخواہیں اب نصف رہ گئی ہیں۔۔۔ لیکن یہ سب چھوڑ کر فقط بچوں کی پیدائش پر ’چُھٹیاں‘ نہ دینے پر کارروائی کا مطالبہ ہمیں تو سچی بات ہے کہ پیٹ بھروں کی باتیں لگتی ہیں!

افغانستان میں امریکی طیارہ گر گیا

27 جنوری کو افغانستان کے صوبے غزنی میں امریکی فوجی طیارہ گر کر تباہ ہونے سے 10 افراد ہلاک ہو گئے۔۔۔ اس طیارے کو طالبان نے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا اور الزام لگایا کہ طیارہ امریکی خفیہ مشن پر تھا، عملے کے تمام اہل کار سمیت امریکی ’سی آئی اے‘ کے افسران بھی ہلاک ہوئے، امریکا نے واقعے کو حادثہ قرار دیا۔۔۔

مہنگائی9  سال کی بلند ترین شرح پر!

یکم فروری 2020ء کو ادارۂ شماریات کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق ملک میں ہوش رُبا مہنگائی گذشتہ نو سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ دسمبر 2010ء کو مہنگائی کی شرح 15.5 ریکارڈ کی گئی تھی، جس کے بعد یہ 14.6 کی سطح تک جا پہنچی، جس کا بڑا سبب کھانے پینے اور بجلی وگیس کی قیمت میں اضافہ بتایا گیا۔

غیرملکی صرف انگریزی بولیں، برطانیہ میں دھمکی

2 فروری کو برطانیہ میں ایک نفرت آمیز خط میں غیرملکیوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صرف انگریزی زبان بولیں، انگلستان کے شہر نوروِچ میں غیر ملکیوں سے اظہار نفرت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انگریزی کے سوا کوئی دوسری زبان بولنے والا برداشت نہیں کیا جائے گا۔ 31 جنوری اور یکم فروری 2020ء کی درمیانی شپ چسپاں کیے جانے والے خط میں یہ ڈراوے دیے گئے۔

کتنا عجیب وقت آگیا ہے کہ ’جمہوریت کا گھر‘ قرار دیا جانے والے دیش میں ہی لوگوں کا بنیادی حق تلف کرنے کی سوچ پیدا ہوگئی۔۔۔ ٹھیک ہے آپ کا ملک ہے، آپ اپنی زبان کو آگے رکھیں، بڑھاوا دیں، رائج کریں اور فخر دیں۔۔۔ کوئی نہیں روک رہا، لیکن کسی اور سے یہ تقاضا کرنا کہ وہ فقط انگریزی بولے، ورنہ ۔۔۔ یہ سراسر غیرانسانی رویہ ہے، کیوں کہ کوئی بھی انسان اپنا مذہب تو راتوں رات تبدیل کر سکتا ہے۔

شہریت بھی بدل سکتا ہے، لیکن جیسے اپنا شجرہ اور رنگ ونسل نہیں بدل سکتا، بالکل ایسے ہی اپنی مادری زبان کو بھی نہیں چھوڑ سکتا، اس لیے اس سے یہ تقاضا کرنا منطقی اعتبار سے بھی خاصا مضحکہ خیز ہے۔ یہ بات ہم اپنے ملک میں بھی ایسی سوچ رکھنے والوں کو بھی کہتے ہیں کہ کسی سے اس کی تہذیب وثقافت کو ترک کروانے کی خواہش بھی نرم سے نرم الفاظ میں ’ثقافتی دہشت گردی‘ ہے!

عمران خان، مہاتیر محمد ملاقات

پانچ فروری کو عمران خان اور ملائیشیائی وزیراعظم مہاتیر محمد کے درمیان ملاقات ہوئی، جس میں عمران خان نے دسمبر 2019ء میں منعقدہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرنے پر اظہارِافسوس کرتے ہوئے کہا کہ وہ آئندہ ایسے اجلاسوں میں شریک ہوں گے۔ انھوں نے کشمیری کے لیے آواز اٹھانے پر ملائیشیائی ہم منصب کا شکریہ ادا کیا، مہا تیر محمد نے پاکستان سے تعلقات مضبوط کرنے کا عزم ظاہر کیا، تاہم وہ 24 فروری 2020ء کو اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔

بچوں سے زیادتی پر سرِعام پھانسی

سات فروری کو قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی کے مجرم کو سرِعام پھانسی دینے کی قرارداد منظور ہوئی، پیپلزپارٹی کی جانب سے اس کی مخالفت کرتے ہوئے راجا پرویز اشرف نے کہا کہ سزا بڑھانے سے جرائم کم نہیں ہوتے۔ دنیا سے مخالفت سامنے آسکتی ہے، پھانسی کی سزا ممکن نہیں، پاکستان پر اقوام متحدہ کے قانون لاگو ہوتے ہیں۔

ملزم کو ایسی سزا دیں کہ وہ جیل میں ہی مرجائے! دوسری طرف وفاقی وزرا شیریں مزاری اور فواد چوہدری نے بھی سرِعام پھانسی کی مذمت کی اور اسے انتہاپسندانہ سوچ کا عکاس قرار دیا۔ شیریں مزاری نے اپنی جماعت کے رکن کی قرارداد کو انفرادی عمل بتایا۔ اس سے قبل 10 جنوری کو بچوں کے خلاف جرائم پر تین ماہ میں فیصلے اور 14سال قید کے حوالے سے قومی اسمبلی میں اتفاق رائے سے بل منظور ہوا۔

2017ء میں گرفتاری دینے والا احسان اللہ احسان فرار!

سات فروری کو ایک بڑی خبر سامنے آئی، جس میں ’تحریک طالبان پاکستان‘ کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی مبینہ طور پر ایک حساس آپریشن کے دوران فرار کا بتایا گیا۔۔۔! احسان اللہ احسان نے پانچ فروری 2017ء کو رضاکارانہ طور پر سرنڈر کرتے ہوتے ہوئے خود کو اینٹیلی جینس اداروں کے حوالے کیا اور 26 اپریل 2017ء کو ایک اعترافی بیان دیا، دورانِ تفتیش حکام کو انتہائی حساس اور اہم معلومات فراہم کیں، جس کی بنیاد پر ملک میں دہشت گردی کے بہت سے ’زنجیرے‘ توڑے گئے، ابھی آپریشن جاری تھے اور ایسے ہی ایک آپریشن کے دوران احسان اللہ احسان فرار ہوگیا۔۔۔

120 سالہ ’خوشی ملنگ‘ کے مرنے کی خوشیاں

نو فروری کو 120 سال کی عمر پانے والے معمر بزرگ بابا خوشی ملنگ مسیح چیچہ وطنی میں گزر گئے۔۔۔ سب سے دل چسپ چیز ان کی عمر سے بھی زیادہ ان کے چلے جانے پر سوگواران کی خوشی تھی۔۔۔! جنھوں نے آنجہانی پر نوٹ نچھاور کیے اور مٹھائی بانٹ کر انھیں سپردِخاک کیا۔ ان کے بچوں اور بچوں کے بچوں کی کل تعداد 70 ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے وہاں میونسپل کمیٹی میں 60 سال نوکری کی، وہ آخری ایام تک صحت مند رہے۔

وزیرخارجہ کو پتا چلا کہ ’’ہاتھ پھیلانے والوں پر دنیا توجہ نہیں دیتیِ‘‘

10فروری کو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے معیشت کا جنازہ نکال دیا ہے، چار لاکھ بے روزگار ہوگئے ہیں!‘ واقعی شاہ محمود نے یہی کہا، نہ ان کی زبان پھسلی تھی اور نہ ہی انھوں نے اس پر کوئی وضاحت کی، کیوں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی مظالم پر محو کلام تھے۔ ایک اور ’انکشاف‘ جو آج بھی ہم سب کے لیے ’مشعلِ راہ‘ ہے، وہ یہ بات ہے کہتے ہیں کہ ’بنیادی طور پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ بہت اہم ہے، جو ہاتھ پھیلاتا ہے اس پر دنیا توجہ نہیں دیتی۔‘ چلیے ’دیر آئے، درست آئے!‘ اب وہ ’تپسیا‘ کے بعد اس نتیجے پر پہنچ ہی گئے ہیں، تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ یہ بات ’آئی ایم ایف‘ کے در پر جانے والی اپنی حکومت کے گوش گزار بھی کرا دیتے۔۔۔

مودی والوں کو اپنی راج دہانی میں شکست

11 فروری کو نئی دہلی کے ریاستی چناؤ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت ’بی جے پی‘ کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسے 70 میں سے فقط آٹھ نشستیں مل سکیں، جب کہ دلی میں ’عام آدمی پارٹی‘ مسلسل تیسری بار سرخرو ہوئی اور 62 نشستوں پر میدان مار گئی۔۔۔ دراصل گذشتہ برس مودی کے متنازع شہریت بل کے بعد دلی میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا اور شاہین باغ اور دلی کے دیگر علاقوں میں خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا۔ اس لیے اس چناؤ کے نتائج کو اسی متنازع قانون کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ دوسری طرف ہندوستانی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کو یہاں ایک نشست بھی نہ مل سکی۔

کالعدم جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید کو سزائیں

12 فروری کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور ان کے ساتھی ملک ظفر اقبال کو دو مختلف مقدمات میں مجموعی طور پر 11 سال قید 30 ہزار جرمانے کی سزا سنا دی۔ انھیں سزا سنا نے کے بعد جیل منتقل کر دیا گیا۔ حافظ سعید اور ان کی تنظیم کے دیگر راہ نماؤں پر غیرقانونی فنڈنگ کے الزام میں فردِ جرم دسمبر 2019ء میں عائد کی گئی تھی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ساڑھے 10 سال کی ایک سزا رواں برس نومبر میں بھی سنائی گئی۔

’’طیب اردوان یہاں کلین سوئپ کرجائیں گے‘‘

13فروری کو ترک صدر رجب طیب اردوان پاکستان کے دورے پر آئے اور 14 فروری کو پاکستانی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا، جس میں انھوں نے دوستی کے جذبات کا والہانہ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو اپنا مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ سرحدیں اور فاصلے مسلمانوں کے دلوں کے درمیان دیوار نہیں بن سکتے۔ ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس میں عمران خان بولے کہ ’ترک صدر (پاکستان میں) اتنے مقبول ہیں کہ اگر چناؤ لڑیں، تو کلین سوئپ کر جائیں۔‘ شکر ہے طیب اردوان نے جواباً یہ نہیں کہہ دیا کہ ’کیا فائدہ، آپ تو پھر مجھ پر دھاندلی کا الزام لگا کر دھرنا دے کر پر بیٹھ جائیں گے!‘

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل آئے

16 فروری کو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ملاقات کی اور مسئلہ کشمیر پر سہولت کاری کی پیش کش کی اور بولے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کا حامی ہوں، اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل کیا جائے۔‘ اب کوئی ہم جیسا ہوتا ان کے سامنے، تو پوچھ ہی لیتا کہ حضور، قراردادوں پر عمل کرائے گا کون۔۔۔؟‘ سچ پوچھیے تو اگر ’اقوام متحدہ‘ کوئی پاکستانی ادارہ ہوتا، تو اس قدر ’ناکامی‘ اور ’خساروں‘ کے بعد کبھی کی اس کی نج کاری ہو چکی ہوتی۔۔۔ اور اب اس حوالے سے کمیشن کی چکربازیوں کے مختلف مقدمے ہماری عدالتوں میں زیرِسماعت ہوتے۔۔۔!

کیماڑی میں پُراسرار گیس سے ہلاکتیں

16 فروری 2020ء کو کراچی کے ساحلی علاقے کیماڑی میں پراسرار زہریلی گیس سے دو خواتین سمیت چار افراد جاں بحق ہوگئے۔ مسان چورنگی اور اطراف میں پیش آنے والے اس واقعے میں اگلے دن مزید تین اور تیسرے روز 18 فروری کو مزید سات افراد جان سے گئے، ماہرین کی پہلی رپورٹ میں ساحل پر لنگر انداز سویابین کے جہاز کو ذمہ دار قرار دیا گیا، لیکن پھر اسے بھی کلین چٹ دے دی گئی اور صورت حال واضح نہ ہو سکی کہ اصل ماجرا کیا تھا۔۔۔

کرائے کے لوگوں کی خبر دینے والے صحافی کی موت

16 فروری کو صوبہ سندھ میں ایک سندھی چینل اور اخبار سے وابستہ سنیئر صحافی عزیز میمن کو قتل کر دیا گیا۔ ایس ایچ او محراب پور عظیم راجپر نے بتایا کہ 56 سالہ صحافی عزیز میمن کی نعش گلے میں تار پھنسے ہوئے ملی، خدشہ ہے کہ انھیں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق صحافی عزیز میمن نے بلاول بھٹو کے ٹرین مارچ میں کرائے کے لوگ لائے جانے کی خبر دی تھی، جس کے باعث انھیں پولیس کی طرف سے دھمکیاں ملی تھیں۔ انھوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں، انھیں اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، لہٰذا انھیں انصاف دیا جائے۔

کام یاب میزائل تجربات

18 فروری 2020ء کو پاکستان نے کروز میزائل ’رعد ٹو‘ کا کام یاب تجربہ کیا، جو زمین اور سمندر میں اپنے ہدف کو 600 کلو میٹر تک مار کر سکتا ہے۔ اس میں جدید نیوی گیشن سسٹم موجود ہے۔ اس سے قبل 23 جنوری کو 290 کلو میٹر تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل غزنوی کا کام یاب تجربہ کیا۔ ’آئی ایس پی آر‘ کے مطابق مختلف وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اٹارنی جنرل سے استعفا لیا گیا

20 فروری کو سپریم کورٹ کے ججوں پر الزام لگانے پر حکومت نے اٹارنی جنرل انور منصور سے استعفا لے لیا اور ان الزامات سے اظہارِلاتعلقی کیا۔ ساتھ ہی خالد جاوید کو نیا اٹارنی جنرل بنایا گیا۔ سپریم کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے حکومت نے کہا کہ حکومت لاعلم تھی۔ دوسری طرف سابق اٹارنی جنرل نے مستعفی ہونے کی وجہ پاکستان بار کا مطالبہ قرار دیا، جس سے صورت حال کافی ڈرامائی ہوگئی۔

دہلی میں مسلمانوں پر حملے

ایک طرف ہندوستان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد ہوئی، تو دوسری طرف متنازع قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر تشدد کا آغاز ہوا، جس میں 24 فروری کو ہیڈ کانسٹیبل سمیت پانچ افراد جان سے گئے، مسلم آبادی میں گھروں کو نذر آتش کرنے کی اطلاعات ملیں، جس کے بعد مشتعل افراد کے جلاؤ گھیراؤ کے بعد فوج کو طلب کرلیا گیا۔

25 فروری کو مزید آٹھ جانیں گئیں، مسلمانوں کی املاک جلائی گئیں، مسجد شہید کی گئی۔ شمال مشرقی دلی کسی چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا، حالات پر قابو پانے کے لیے بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے دیا گیا، بلوؤں کے چوتھے روز ہلاکتیں 38 ہوگئیں۔ اس سے قبل 30 جنوری کو بھی تشدد کا ایک واقعہ پیش آیا تھا، جب دہلی میں موہن داس گاندھی کی تصاویر اٹھائے مظاہرین پر پولیس کی موجودگی میں فائرنگ کی گئی تھی۔

’کورونا‘ کا پاکستان پر وار۔۔۔

26 فروری کو عالمی وبا ’کورونا‘ پاکستان آگئی۔۔۔! ابتدائی طور پر ایران سے آنے والے دو مریضوں میں اس کی تصدیق ہوئی، متاثرہ مریض 22 سالہ یحییٰ جعفری کو آغا خان اسپتال میں زیرعلاج رکھا گیا۔ 27 فروری کو سعودی عرب کی حکومت نے وبائی صورت حال پر قابو پانے کے لیے عمرہ روک دیا۔۔۔! اس سے قبل 22 فروری کو کورونا ایران پہنچنے پر بلوچستان میں ہنگامی حالت نافذ کی گئی تھی، لیکن اس کے باوجود کورونا ملک میں داخل ہوگیا۔

افغان طالبان امریکا تاریخی سمجھوتا ہوا

29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 18 سالہ جنگ کے بعد افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا، جس کے تحت افغانستان سے اتحادی افواج کا انخلا 14 ماہ میں مکمل ہوگا، سمجھوتے پر طالبان راہ نما ملا عبدالغنی برادر اور امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے دستخط کیے، تقریب میں امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو سمیت 50 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی، جب کہ31  رکنی طالبانی وفد بھی تقریب میں موجود تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔