آزادانہ الیکشن کے نتائج

قائداعظم کے کھوٹے سکوں کے راج میں قائد کے ملک کے عوام کا حال برا رہا۔ ایک طرف گرانی اور۔۔۔


Abdul Qadir Hassan December 30, 2013
[email protected]

قائداعظم کے کھوٹے سکوں کے راج میں قائد کے ملک کے عوام کا حال برا رہا۔ ایک طرف گرانی اور دوسری طرف غربت نے عوام کو اپنے دو پاٹوں میں پیس دیا لیکن ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ الیکشن منصفانہ بھی ہوئے اور آزادانہ بھی، نظر بظاہر اس انقلاب کا کوئی امکان نہیں تھا۔ مجھے تو یہ سب دو بڑی پارٹیوں کے درمیان سودا بازی کا نتیجہ لگتا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی باری لے چکنے کے بعد اس نے دانائی کا ثبوت دیا اور اپنی سیاسی کمزوری کو سامنے رکھ کر دوسری پارٹی کو جو اس کے دور اقتدار میں ایک دوستانہ اپوزیشن بن کر صبر و تحمل سے کام لیتی رہی اقتدار بذریعہ الیکشن اس کے سپرد کر دیا۔ بہر کیف یہ سب جمہوری طریقے سے ہوا اور کسی نے الیکشن کے خلاف کوئی مہم نہیں چلائی کیونکہ عمومی طور پر یہ الیکشن منصفانہ تھا پھر یہ بھی تھا کہ جیسا عرض کیا ہے جنھوں نے کوئی تحریک چلائی تھی وہ اپنے گھر میں مطمئن تھے چنانچہ وہ اقتدار میں آ گئے۔ نئے حکمرانوں نے جو ہر گز کبھی انقلابی نہیں رہے تعجب ہے کہ بعض انقلابی اقدامات کیے۔ ان میں سرفہرست پاکستان کے مسلمہ اور مصدقہ دشمن کے ساتھ برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کا آغاز تھا۔ اگرچہ بھارت کی طرف سے ابھی تک حوصلہ افزائی نہیں ہوئی لیکن ہم اس جوابی دوستانہ کارروائی سے بے نیاز ہو کر ابھی تک دوستی کی اس پالیسی پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

اس کا ایک بھارتی پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت کے ذہنی ارباب حل و عقد یعنی سیاسی و غیر سیاسی دانشوروں نے پاکستان کو ایک حقیر کمزور اور بے کار ملک سمجھ لیا ہے۔ وہ چند سبزیوں کی خریدوفروخت کی رعایت تک ہی پاکستانی دوستی کو محدود سمجھتے ہیں۔ غربت میں لتھڑے ہوئے عام بھارتی شہری کی کسی کو پروا نہیں اور نہ ہی بھارت کے پاس اس غربت کا کوئی علاج ہے اس لیے بھارتی حکمران غربت کے عادی اپنے شہریوں کو فی الحال ان کے حال پر ہی چھوڑنا مناسب سمجھتے ہیں اور وہ کسی بڑی عالمی سطح کی سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ اس خطے کا ایک بڑا ملک تو ہے ہی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے اب وہ خوش قسمتی سے اس خطے میں اپنے ایک حریف سے بھی فارغ ہو گیا ہے۔ جب کبھی بھارت کے پڑوسی کسی ملک مثلاً نیپال، سری لنکا وغیرہ میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے دانشور برملا یہ کہا کرتے کہ ہم پاکستان پر انحصار کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھارت سے بچائے گا۔ بھارت نے بڑی حد تک اپنے پڑوسیوں کا یہ زعم بھی توڑ دیا ہے اور امریکا کی سرپرستی میں وہ اب اس خطے کا بالادست ملک سمجھنے لگا ہے جس کا مقابلہ کبھی چین وغیرہ سے ہو سکتا ہے یا وہ بھارت ماتا کی گود میں اس خطے کے ملکوں کو سمیٹ سکتا ہے۔ اس خطے کی واحد ہندو مملکت نیپال ہو یا بدھوں کا ملک سری لنکا وہ ان سب پر حاوی ہے اور بنگلہ دیش کسمساتا رہے لیکن بھارت کی یہ تخلیق اس کے قابو میں ہے۔ یہاں پاکستان کا نام لینے والوں کی پھانسی کے احکامات دلی سے صادر ہوتے ہیں۔ ڈھاکہ ایک ذیلی دفتر کا کام کرتا ہے۔

بات شروع تو منصفانہ الیکشن سے کی تھی لیکن اس کے بعض نتائج ذہن میں آ گئے۔ سال گزشتہ کے منصفانہ الیکشن صرف قومی سطح پر ہی نہیں بلکہ کئی اہم مشہور اداروں کے بھی ہوئے۔ لاہور میں عامل اخبار نویسوں کے ایک ادارے کے الیکشن بخیر و خوبی ہو گئے اور اب وہ مبارک بادیں وصول کر رہے ہیں، میرے کارکن اخباری ساتھیوں کی طرح ہمارے ایک اور ادارے کے الیکشن بھی ہو گئے اور وہ بھی زبردست منصفانہ۔ یہ تھے لاہورجم خانہ کے الیکشن جسے ہم لوگ اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ ایک بار میں نے اس دوسرے گھر کے بارے میں کالم لکھا تو بھرے کلب کے چیئرمین تسنیم نورانی صاحب نے مجھے جواب دیا کہ جی ہاں دوسرے گھر کی خواہش بالکل رہتی ہے اور سب کو رہتی ہے۔ ان کے اس مزاح اور طنز سے ہم لوگوں نے بہت لطف اٹھایا۔ یعنی اس سال تین الیکشن ایسے ہوئے جن کا میں ووٹر تھا۔ ووٹ مانگتے تو سب ہیں لیکن برادرانہ انداز میں ان اداروں کے ووٹروں کو یاد کیا جاتا ہے۔

اس سال کے آخر میں ہمارے ایک شیخ الاسلام قسم کے لیڈر نے اپنے دوسرے وطن کینیڈا سے ہمیں بذریعہ ٹیلی فون خطاب کیا۔ جی ہاں حضرت شیخ الاسلام کا یہ دوسرا وطن جو مسیحیت کی سرپرست ملکہ برطانیہ کی شاباش اور سرپرستی میں قائم ہے یعنی حضرت شیخ الاسلام کے لیے یہ عیسائی ملک خدا و رسول کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک پاکستان کے برابر ہے۔ پریشان حال اور پراگندہ خیال غربت کے مارے ہوئے نیم ہوش رکھنے والے پاکستانی اس کے جلسوں میں بھی بڑی تعداد میں جاتے ہیں لیکن دو وقت کی روٹی کی تلاش میں بھٹکنے والے دو غلی شہریت اور دو متضاد ملکوں کی بیک وقت شہریت کی اس باریکی کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔

ہمارے صدر صاحب جناب محترم ممنون حسین نے یہ کہہ کر پوری قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں کہ 1480 ارب کے قرضے میں دبی ہوئی حکومت اپنا کشکول کیسے توڑ سکتی ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے اور صدر صاحب کی زبانی اس کا تجزیہ قوم کو ممنون کرنے والی بات ہے کہ ایک طرف اتنی مقروضیت اور پھر کشکول توڑنے کی شاعرانہ قسم کی خواہشوں میں کیا مناسبت ہے۔ بقول صاحب کے افیون کے نشے کے عادی کو اس نشے سے جان چھڑانے کے لیے مزید افیون درکار ہوتی ہے۔ اسے اگر ہم اس سال کا آخری پیغام سمجھیں تو کیا حرج ہے۔

مقبول خبریں