زباں فہمی : پھر وہی دھوبی کا کُتّا....

سہیل احمد صدیقی  اتوار 31 جنوری 2021
’’دھوبی کا کتا ہوتا ہے یا کتکا؟‘‘ اور یہ کہ ’’دھوبی کا کتا کہاں کا؟‘‘ آج ایک نیا انکشاف ہوا ۔

’’دھوبی کا کتا ہوتا ہے یا کتکا؟‘‘ اور یہ کہ ’’دھوبی کا کتا کہاں کا؟‘‘ آج ایک نیا انکشاف ہوا ۔

زباں فہمی نمبر 82

خاکسار نے کالم زباں فہمی نمبر 72(’’دھوبی کا کُتّا ہوتا ہے یا کتکا؟‘‘) مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ 8نومبر 2020ء میں یہ مسئلہ واضح طور پر حل کردیا تھا کہ دھوبی کا کُتّا [Dog] ہی ہوتا ہے، کتکا نہیں ہوتا۔ سوئے اتفاق یہ ہوا کہ جب یہ کالم ویب سائٹ کی زینت بنا تو اس کے منتظم کی غلطی سے اُسی اقتباس کا عکس نمایاں ہوگیا جس کی تردید میں یہ کالم لکھا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ یارلوگ بات لے اڑے اور انٹرنیٹ پر وہی اقتباس میرے نام کے اضافے (مع القاب) سے پھیلادیا کہ دیکھیے جناب! ان جیسا فاضل بھی اس کی تصدیق کررہا ہے۔

(یعنی کُتّے کی جگہ کتکا)۔ ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہیے۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ویب سائٹ پر اصلاح کے باوجود، کسی کسی جگہ (براؤزر پر) وہی غلط بیان میرے کالم کے سرنامہ پر موجود ہے، سو، پچھلے دنوں ایک فاضل بزرگ نے (غالباً) میرا اصل کالم پڑھے بغیر، اسی اقتباس کی بنیاد پر، بذریعہ ای میل مکتوب بھیج کر، میری کھنچائی فرمادی۔ خاکسار ایسے تمام قارئین کی اطلاع کے لیے موصوف کا خط یہاں نقل کررہا ہے جو سہواً یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ: ا)۔ سہیل بھی دھوبی کے کُتّے کی بجائے کتکے کا قائل ہے (حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہے) اور ب): زباں فہمی لکھنے والا سہیل ، بغیر کوئی کتاب دیکھے، اندھا دھند اپنی علمیت کے اظہار کا عادی ہے۔

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس اول

{۲۸؍ دسمبر ۲۰۲۰ء

محترم سہیل احمد صدیقی صاحب

السلام علیکم!

آپ کا کالم ۸ نومبر ۲۰۲۰ء روزنامہ ایکسپریس سنڈے ایڈیشن میں پڑھنے کے بعد میں اپنے طور پر اس لفظ ’’کتکا ‘‘ پر تحقیق شروع کی ہی تھی کہ ۱۵ نومبر کی شام ’’کورونا‘‘ میں مبتلا ہوگیا ۔ تقریباً چالیس روز اس مرض میں مبتلا رہا۔ ۲۲ دسمبر کو اس مرض سے نجات ملی۔ میرے اس مضمون کا مقصد صرف اور صرف آپ کی اور آپ کے قارئین کی ’’غلط فہمی‘‘ دور کرنا ہے۔

احقر

شجاع الدین غوری

[email protected]

mob:0302-9252758

٭…٭

۸نومبر ۲۰۲۰ء کے سنڈے ایکسپریس میں اپنے کالم ’’ زبان فہمی‘‘ کے زیرعنوان آپ لکھتے ہیں:۔

’’دھوبی کا کتا ہوتا ہے یا کتکا؟‘‘ اور یہ کہ ’’دھوبی کا کتا کہاں کا؟‘‘ آج ایک نیا انکشاف ہوا ۔ یہ پرانی کہاوت جس طرح سننے میں آتی ہے ‘ غلط ہے ۔ ’’دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ‘‘ میں لفظ کتا صحیح نہیں ہے۔ اصل میں یہ لفظ کتکا ہے جو لوگوں کی زبان پر چڑھ کر (کثرت استعمال سے بگڑ کر) کتا بن گیا۔

کتکا لکڑی کے اس ’’بھاری بھرکم‘‘ ڈنڈے کو کہتے ہیں جس سے دھوبی میلے کپڑوں کو کوٹتے ہیں ایسے ہی ڈنڈے سے بھنگ بھی کوٹی جاتی ہے۔ یہ لفظ اردو لغت میں موجود ہے۔ (کاش کہ آپ نے ایک نظر اردو لغت دیکھ لی ہوتی تو آپ کی یہ ’’غلط فہمی‘‘ دور ہوجاتی)۔ یہ ڈنڈا ’’بھاری بھرکم‘‘ ہوتا ہے‘ اس لیے دھوبی اسے اٹھا کر گھر نہیں لاتے‘ بلکہ راستے میں رکھ کر کہیں چھوڑتے ہیں۔

اسی بنا پر یہ کہا جاتا ہے نہ یہ گھر آتا ہے اور نہ گھاٹ پر چھوڑا جاتا ہے۔ محترم! معذرت کے ساتھ یہ گھڑنت اور مفروضہ تو ہوسکتا ہے‘ حقیقت نہیں۔ اگر یہ کتکا اتنا ہی وزنی اور ’’بھاری بھرکم‘‘ ہوتا ہے تو دھوبی‘ گھاٹ سے چھپانے یا رکھ چھوڑنے کی جگہ تک کیسے لے جاتا ہے؟ اگر یہ ’’بھار ی بھرکم‘‘ کتکا دھوبی اپنی لادی کے ساتھ گدھے پر لاد کر لے جاتا ہے تو پھر راستے میں چھوڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ اسے یوں بھی گھر لے جاسکتا ہے۔

دوسری بات یہ ’’گرز نما‘‘ کتکا اتنا بھاری بھرکم ہوتا کہ دھوبی کو اٹھا کر گھر لے جانے میں مشکل ہوتی ہے تو پھر وہ سارا دن اس بھاری بھرکم ڈنڈے کو کپڑوں کو کوٹنے کے لیے سر سے کیسے بلند کرتا ہوگا؟ ’’شاید کپڑے کوٹتے وقت اس کے جسم میں جناتی طاقت آجاتی ہوگی یا سلاجیت کھا کر گھاٹ میں اتر تا ہوگا }۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

وعلیکم السلام محترم شجاع الدین غوری ِصاحب

گمان غالب یہی ہے کہ آپ نے خاکسار کا کالم لفظ بہ لفظ نہیں پڑھا، ورنہ اس کھکھیڑ میں پڑنے کی زحمت گوارانہ فرماتے۔ بندہ آپ کی اور آپ کی طرح دیگر ناواقفین کی اطلاع کے لیے مجبوراً زباں فہمی کالم نمبر بہتّر (72) کا ابتدائی حصہ نقل کررہا ہے جسے پڑھے بغیر یہ معاملہ کہیں سے کہیں پہنچا دیا گیا:

کالم زباں فہمی نمبر 72(’’دھوبی کا کُتّا ہوتا ہے یا کتکا؟‘‘) مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، مؤرخہ 8 نومبر 2020ء۔

واٹس ایپ بزم ’زباں فہمی ‘ میں کبھی کبھی بہت دل چسپ بحث چھِڑ جاتی ہے جو ہمارے تمام اراکین کے لیے معلومات میں اضافے کا سبب بھی بنتی ہے۔ اب کے جو بحث چھِڑی تو وہ دیگر واٹس ایپ حلقوں تک بھی جاپہنچی۔ کسی نے انٹرنیٹ سے مندرجہ ذیل مواد نقل کرکے ارسال کیا:’’دھوبی کا کُتّا، کہاں کا؟: آج ایک نیا انکشاف ہوا۔ یہ پرانی کہاوت جس طرح سننے میں آتی ہے، غلط ہے۔ ’دھوبی کا کُتّا، گھر کا نہ گھاٹ کا‘ میں لفظ کُتّا صحیح نہیں; اصل میں یہ لفظ کُتکا ہے جو لوگوں کی زبان پر چڑھ کر کُتّا بن گیا۔

کُتکا لکڑی کے اس بھاری بھرکم ڈنڈے کو کہتے ہیں جس سے دھوبی میلے کپڑوں کو کوٹتے ہیں۔ ایسے ہی ڈنڈے سے بھنگ بھی گھوٹی جاتی ہے۔ یہ لفظ اردو لغت میں بھی موجود ہے۔ یہ بہت وزنی ہوتا ہے، اسی لیے دھوبی اسے اٹھاکر گھر نہیں لاتے، بلکہ راستے میں کہیں رکھ چھوڑتے ہیں۔ اسی بناء پر کہا جاتا ہے، نہ یہ گھر آتا ہے اور نہ گھاٹ پر چھوڑا جاتا ہے۔

ایسا ہی لفظ ’خُتکا‘ ترکی زبان میں بھی ہے۔ انٹرنیٹ پر یہ معلومات محمد صادق صاحب نے فراہم کی ہیں۔ میں نے بھی اپنے بزرگوں کی زبانی دو کہاوتیں سنی ہیں، جو اَصل میں ایسی نہیں، جیسی اب رائج ہیں۔ بزرگ بتاتے ہیں کہ ’نہ نومن تیل ہوگی (ہوگا) نہ رادھا ناچے گی‘، اصل میں یوں تھا کہ ’نہ مَن ہوگا، نہ رادھا ناچے گی‘۔ اور دوسری کہاوت اصل میں یوں تھی،’یہ منہ (منھ) اور منصور کی دار؟‘ جسے لوگوں نے مَسور کی دال بنادیا۔ سچ کیا ہے، اللہ ہی جانے‘‘۔ یہی عبارت قدرے مختلف انداز میں ایک دوسرے واٹس ایپ حلقے میں اس طرح نقل کی گئی:’’دھوبی کا کتکہ۔ نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ جو نئے دور میں بگڑ کر کتا بن گیا۔ دھوبی کا کتا، گھر کا نہ گھاٹ کا، اس میں کتا سے مراد ”کُتا””dog” ہی لیا، سمجھا اور پڑھا بھی جاتا ہے لیکن آج نئی بات علم میں آئی تو ہماری علمیت کا جنازہ نکل گیا۔

یہ لفظ کُتا نہیں بلکہ کَتا ہے جس سے مراد کپڑے دھونے کا وہ ڈنڈا ہے جسے دھوبی ساتھ لیے پھرتا ہے اصل لفظ کتکہ ہے جو بگڑ کر کتا بن گیا۔ پرانے وقتوں میں کپڑے گھاٹ پر دھوئے جاتے تھے اور کپڑوں کو صاف کرنے کے لئے دھوبی اک بھاری بھرکم ڈنڈے کا استعمال کیا کرتا تھا جس کو کتکہ کہا جاتا تھا۔ وہ کتکہ گھاٹ پر نہیں رکھا جاتا تھا کیوں کہ کوئی اور اٹھا لے گا اور گھر لانے میں بے جا مشقت کرنی پڑتی۔ اس لئے (اس لیے) دھوبی وہ کتکہ راستے میں مناسب جگہ چھپا دیتا اور اگلے دن نکال کر پھر استعمال کر لیتا۔ اس طرح کتکہ نہ گھر جا پاتا اور نہ گھاٹ پر رات گزارتا۔ منقول‘‘۔ واٹس ایپ بزم ’زباں فہمی‘ میں ہمارے بزرگ معاصر، معروف سخنور، (سابق شیخ الجامعہ لال شہباز قلندر یونی ورسٹی، خادم علی شاہ بخاری انسٹی ٹیوٹ و نیو پورٹ یونی ورسٹی، سابق رجسٹرار جامعہ کراچی) محترم پروفیسرمحمدرئیس علوی نے تردید کرتے ہوئے فرمایا:’’جناب کتا درست ہے۔ دھوبی اپنے ساتھ کو ئی ڈنڈا لے کر گھاٹ پر کبھی نہیں گیا۔

اس کے ساتھ گدھے پر لادی اور پیدل عام طور پر کتا ہوتا تھا۔ وہ گھاٹ پر کپڑے کوٹتا نہیں تھا بلکہ پاٹ پر کپڑے مارتا/ پٹختا تھا۔ پاٹ اس پتھر کی سل یا لکڑی کے بنے ہوئے موٹے تختے کو کہتے تھے جس پر وہ کپڑوں کو کئی کئی بار زور زور سے مارتا یا پٹختا تھا۔ کُشتی کا داؤں، دھوبی پاٹ بھی دھوبی کے کپڑوں کو اٹھا کر پاٹ پر پٹختے سے مستعار ہے۔ آج کل دھوبی کس طرح کپڑے دھوتے ہیں، ہمیں نہیں معلوم‘‘۔۔۔۔۔ہمارے ایک اور بزرگ کرم فرما، محترم انیس احمدصدیقی (شعبہ تشہیر کی نامور ہستی ) نے تائید کرتے ہوئے ارشاد کیا: ’’یہی صحیح ہے۔

تاریخی طور پر گدھا اور کتا دھوبی کے کلیدی معاونین رہے ہیں۔ جب کپڑے دھو کر دور تک سوکھنے کے لیے پھیلائے جاتے تو کتا ہی اُن کی رکھوالی کرتا۔ شریک بحث، رکن واٹس ایپ بزم زباں فہمی جناب محسن رضا (ایم فل اسکالر)نے کہا: کتا (dog) نہیں ہے، بلکہ کتا (زبرسے) ہے۔ ایک پروفیسر صاحب نے بتایا تھا۔ اور فُلاں نیوز چینل پر ایک صاحب پروگرام کرتے ہیں انھوں نے بھی یہ بتایا تھا۔ کتے پر دھوبی کپڑے پٹخ پٹخ کر دھوتا تھا–کتا (dog) ہر دھوبی کے ساتھ تو نہیں ہوتا ہو گا۔ خاکسار نے عرض کی: یہ بات بلاسندوحوالہ پھیل رہی ہے۔۔۔۔۔تو محترم محسن رضانے فرمائش کی:’’جی سر! پھر ہمیں حوالہ دے دیں تاکہ ہم لوگوں کو بتا سکیں۔ خاکسار کا جواب یہ تھا: ’’لغات اور اہل زبان کا روزمرہ، محاورہ ہی سند ہے۔ پروفیسرمحمدرئیس علوی اور محترم انیس احمدصدیقی دونوں ہی صاحب علم ہیں۔

محسن رضاصاحب نے صوتی پیغام میں ایک مشہور ٹی وی ’بقراط‘ کا نام لیتے ہوئے مزید استفسارکیا کہ آیا گھوڑے بیچ کر سونا درست ہے یا (اُن فاضل کے بقول) بِیچ کر (بے کے نیچے زیر)۔ ہم نے اس پر توجہ دیے بغیر کہا کہ موصوف ایک مشہور شاعر کے فرزند اور بیرون ملک سے سندیافتہ ہیں۔ بہرحال اہل زبان نہیں۔ ماضی قریب میں انھوں نے ایک پھلجڑی چھوڑی تو خاکسار نے کالم زباں فہمی میں اس کے متعلق لکھا تھا۔ وہ نہ تو اہل زبان ہیں نہ ہی ماہرزبان۔۔۔۔۔۔اس طرح کی بات کہتے ہوئے سندوحوالہ لازم ہے۔ محترم رئیس صاحب نے مزید ارشاد کیا کہ ’’حوالے کے لیے کشتی کا داؤں، دھوبی پاٹ کافی ہے کہ اس میں بھی مخالف کو اپنی پشت پر لے کر سامنے پٹختے ہیں، یہی کام کپڑوں کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ دھوبی ان کو اٹھا کر سامنے پاٹ پر پٹختا ہے۔ پاٹ کی تعریف پہلے آچُکی ہے۔ دھوبی کپڑوں کو کسی لکڑی سے نہیں پیٹتا ہے بلکہ کپڑوں کو پاٹ پر مارتا یا پٹختا ہے‘‘۔

تازہ ترین از قلم سہیل احمدصدیقی:

محترم شجاع الدین غوری صاحب نے اپنے زیرِبحث مکتوب میں خاکسار کو لغات کے حوالوں سے آگہی فراہم کرنے کی سعی فرمائی ہے، کیونکہ وہ ماقبل لکھ چکے ہیں کہ میں نے (بقول اُن کے) کوئی لغت اٹھاکر نہیں دیکھی۔ اب اُن کے مکتوب کا دوسرا اقتباس پیش کرتا ہوں:

مکتوب جناب شجاع الدین غوری بنام سہیل احمدصدیقی: اقتباس دوم

{آپ لکھتے ہیں کہ یہ لفظ ’’کتکا اردو لغت میں موجود ہے۔‘‘ آئیے دیکھتے ہیں یہ لفظ (کتکا) اردو لغت میں کس طرح موجود ہے اور مرتبین لغت نے اس کے کیا معنی لکھے ہیں: فرہنگ آصفیہ‘ جلد سوم ( س تا ک)، الفیصل ناشران لاہور ‘ ۲۰۱۹ء ‘ صفحہ نمبر۲۱۲۷۔ کُتک:(ہ) اسم‘ مذکر (دیکھو خُتک) سونٹا ‘ موسل‘ موسلی۔ کُتکا: (ہ) اسم‘ مونث (دیکھو خُتکا) بھنگ کوٹنے کا سونٹا ‘ موسل۔ فیروزاللغات ‘ جامع ایڈیشن(نیا)، فیروز سنز لمیٹڈ‘ سن اشاعت موجود نہیں۔ الحاج مولوی فیروزالدین ؒ(صفحہ نمبر ۹۹۱): کُتک۔ کُتکا۔ (کُ۔تک: کُت کا) (ھ۔ا) مذکر‘ ختکا ‘ بھنگ کوٹنے کا سونٹا ‘ موسل‘ ڈنڈا۔ علمی اردو لغت (جامع) طبع دوم ۱۹۷۹ء،علمی کتب خانہ ‘ لاہور، مرتب: وارث سرہندی ( صفحہ نمبر ۱۱۱۵): کتک: (ف) مذکر: سونٹا‘ ڈنڈا‘ موسل، کتکا (ھ) مذکر: بھنگ کوٹنے کا ڈنڈا۔

نوراللغات۔ جلد دوم۔ طبع سوم (۲۰۰۶ء)، نیشنل بک فاؤنڈیشن۔ اسلام آباد، مرتب مولوی نورالحسن نیر مرحوم (صفحہ نمبر ۹۵۲/۲۵۳): کتکا ( ھ ) مذکر: سونٹا۔ موسل۔ کتکا (ترکی میں موٹا ڈنڈا ) ( مذکر) بھنگ کوٹنے کا سونٹا۔ لغاتِ کشوری، چوبیسواں ایڈیشن (۱۹۸۱ء)، مطبع منشی تحکیمار (پ ل) وارث نولکشور پریس لکھنؤ، مولوف: سید تصدق حسین صاحب رضوی، مرتب ڈاکٹر نور الحسن‘ صدر شعبہ علوم شرقیہ (عربی/ فارسی) لکھنؤ یونیورسٹی، (صفحہ ۵۸۲): کتکہ: موٹا ڈنڈا۔ لغات سعیدی (طبع جدید)، ایچ ایم۔ سعید کمپنی پاکستان چوک۔ کراچی۔ اکتوبر ۱۹۷۱ء، ادارہ ترتیب: مولوی عبدالعزیز صاحب‘ مولانا محمد سعید انصاری، مولوی محمد منیر لکھنوی‘ حضرت شمس بریلوی، (صفحہ۶۱۴): کتکہ: دبیر ڈنڈا۔ اگر کتکا بھاری بھرکم ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے لکھا تو پھر دھوبی سارا دن ایک دو نہیں بیسیوں کپڑے دھونے‘ کوٹنے‘ کچلنے اور صاف کرنے کے لیے سیکڑوں بار سر سے بلند کرکے کپڑوں پر پٹکتا ہوگا وہ یہ تو کرسکتا ہے۔

اس کے لیے اس کے جسم میں طاقت بھی ہے اور قوت بھی۔ بس ایک ذرا سی کمزوری ہے وہ اسے اٹھا کر گھر نہیں لے جاسکتا‘ ہے نا مزے کی بات! اب میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اردو لغت کے تمام مرتبین‘ مولفین ’’کتکا ‘‘ کے معنی نہیں جانتے تھے اور نہ ہی وہ یہ جانتے تھے کہ ’’کتکا ‘‘ وہ چیز یا آلہ ہے جسے دھوبی کپڑے دھونے اور صاف کرنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے }۔

جواب از سہیل احمدصدیقی

محترم شجاع الدین غوری صاحب! آپ کی نگارش کے متعلق محتاط تبصرہ یہی کیا جاسکتا ہے کہ: یارب! وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مِری بات۔آپ نے کالم پورا پڑھنے کی زحمت اُٹھائی ہوتی تو اتنی تفصیل نگاری کی ضرورت پیش نہ آتی۔ اب ذیل میں ملاحظہ فرمائیے کہ زیرِبحث کالم میں خاکسار نے کیا لکھا تھا۔ یہ پورا اقتباس دیکھ لیں تو معلوم ہوجائے گا کہ سہیل نے بغیرلغات کھنگالے، محض اپنی علمیت کا رُعب نہیں جھاڑا:

ہم نے اپنے نجی کتب خانے میں موجود کچھ مستند لغات کی گَرد جھاڑی تو حسب معمول، لغات کشوری سے ابتداء کی۔ مولوی سید تصدق حسین رضوی نے لفظ ’کتکہ‘ کا مطلب موٹا ڈنڈا لکھتے ہوئے اسے فارسی الاصل قرار دیا ہے۔ نوراللغات میں پہلے لفظ کُتَک لکھا ہے جس کے معنی ہیں، سونٹا اور مُوسل۔ یہ ہندی الاصل لفظ مذکر ہے،}راجہ راجیسور راؤ اصغرؔ کی ہندی۔ اردو لغت میں شامل نہیں۔ جبکہ اسی لغت میں کُتکا کے ذیل میں لکھا ہے: مذکر، ترکی (زبان) میں موٹا ڈنڈا، بھنگ گھوٹنے کا سونٹا۔ فرہنگ آصفیہ کے بیان کی رُو سے کُتَک (نیز خُتک) کے تے پر تشدید بھی ہے اور اس کے معانی میں مُوسل کے ساتھ مُوسلی بھی شامل ہے۔ اب دیکھیے یہ انکشاف کہ اسی لفظ سے ترکی کا خُتکا /کُتکا بنا ہے، جس کے معانی ہیں : بھنگ گھوٹنے کا سونٹا، سونٹا، موسل (فرہنگ آصفیہ)۔ ]جاری ہے[

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔