حکومت کے لیے نیا غذائی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟

رضوان آصف  بدھ 3 فروری 2021
ان دنوں محکمہ خوراک میں ’’کوٹہ‘‘ سسٹم کے تحت آئے افسروں میں سے چند کے بارے میں بہت کچھ سنائی دے رہا ہے۔

ان دنوں محکمہ خوراک میں ’’کوٹہ‘‘ سسٹم کے تحت آئے افسروں میں سے چند کے بارے میں بہت کچھ سنائی دے رہا ہے۔

 لاہور: وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کا جائزہ لیں تو انہوں نے جوانی سے لیکر آج تک چیلنجز کا سامنا ایک کامیاب جنگجو کی مانند کیا ہے ،موجوں کے مخالف تیرتے ہوئے کبھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔

کپتان آج بھی اپنے ناتجربہ کار، نالائق سیاسی کھلاڑیوں اور بیوروکریسی کی غلطیوں اور خامیوں کے سبب ڈگماتے ہوئے اپنے تخت اقتدار کو زمین بوس ہونے سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

کچھ ایسا ہی معاملہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے ساتھ ہے،ابتداء میں وہ بھی اپنی ناتجربہ کاری اور سادہ پن کی وجہ سے معاملات سنبھال نہیں پا رہے تھے لیکن اب وہ بہت کچھ سیکھ اور سمجھ چکے ہیں لیکن ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے پاس بیوروکریسی کی ایسی شاندار ٹیم دستیاب نہیں جو ’’ٹیک آف‘‘ فراہم کر سکے۔

گزشتہ ڈھائی برس کے دوران پنجاب بیورو کریسی میں اتنی تبدیلیاں کی گئی ہیں کہ اب تو ہر افسر بستر باندھے دفتر جاتا ہے کہ شاید آج کسی دوسرے محکمہ کی جانب سفر کرنا پڑ جائے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کو ابھی تک مکمل ادراک نہیں ہو رہا کہ ان کے ساتھ ’’گیم‘‘ کھیلی جا رہی ہے۔

بریفنگز میں اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کے ساتھ مکمل زمینی حقائق بیان کیئے بغیر ادھورے سچ اور حقائق پیش کر کے ان سے ایسے فیصلے اور اقدامات کروائے جا رہے ہیں جو نت نئے بحرانوں اور سکینڈلز کو جنم دیکر ان کی حکومت کو کمزور کر رہے ہیں اور عوام بالخصوص کاروباری طبقات میں حکومت کو غیر مقبول بنایا جا رہا ہے۔

فیصلہ ساز بیوروکریسی اپنی نالائقیوں، مبینہ کرپشن، غلط منصوبہ بندی ،ذاتی پسند وناپسند میں سے کسی ایک یا تمام عوامل کی بنیاد پر کیئے گئے اقدامات کی ذمہ داری سے بچنے کیلئے ’’چور مچائے شور‘‘ والے محاورے پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کو چور قرار دینے کا ڈھول بجاتی رہتی ہے ۔ اس وقت عمران خان اور سردار عثمان بزدار کو جو سب سے سنگین چیلنجز درپیش ہیں ان میں سے ایک آٹا گندم چینی سے متعلقہ ہے۔ اس معاملے کے چار سٹیک ہولڈر ہیں جن میں کسان، فلورملر، صارف اور حکومت شامل ہیں۔

آج یہ صورتحال ہے کہ کسان، صارف اور فلور مل مالک ’’ ایک پیج ‘‘ پر ہیں اور انہیں حکومتی اقدامات اور دعووں پر شدید تحفظات اور اعتراضات ہیں جبکہ حکومت ان تینوں کو غلط قرار دیتی ہے۔ بالخصوص فلورملنگ انڈسٹری کو ’’چور‘‘ کہہ کر پکارنا سرکاری اجلاسوں میں معمول بن چکا ہے۔کسان کا شکوہ ہے کہ حکومت اربوں روپے کی گندم امپورٹ کر کے غیر ملکی کسان کو فائدہ دے رہی ہے لیکن اپنے کسان کی اسے پرواہ نہیں۔

صارف کی شکایت ہے کہ حکومت 860 روپے میں وافر آٹا فراہمی کا دعوی کرتی ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہے جبکہ فلور مل مالک کو شکایت ہے کہ چندغیر ذمہ دار ملز کی وجہ سے محکمہ تمام ملز کو چور کہتا ہے جبکہ اپنی کوتاہیوں کی پردہ پوشی کے لئے ملز کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔کئی سینئر بیوروکریٹس اس ’’آب حیات‘‘ کو پا چکے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں کے سامنے کسی فرد یا صنعت کو چور کہا جائے تو وہ بنا تحقیق و تصدیق کے خوش ہو کر اس افسر کو محنتی اور ایماندار ہونے کا تمغہ دے ڈالتے ہیں۔

پنجاب گزشتہ د وبرس سے مسلسل آٹا گندم بحرانوں کا شکار ہے اور رواں برس سمیت آئندہ برس بھی صورتحال میں کوئی نمایاں بہتری آنے کا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔گزشتہ برس جب محکمہ خوراک نے گندم خریداری کا آغاز کیا تو اس کے پاس ڈھائی لاکھ ٹن کے ذخائر موجود تھے جبکہ محکمہ نے پنجاب بھر ’’کرفیو‘‘ کی طرز میںپوری انتظامی طاقت استعمال کر کے 41 لاکھ ٹن کے لگ بھگ گندم مزید خریدی ہے لیکن وفاقی حکومت سے 11 لاکھ ٹن امپورٹڈ مزید گندم ملنے کے بعد بھی محکمہ اس پوزیشن میں نہیں کہ کھلے ہاتھ سے گندم کوٹہ دے سکے ۔محکمہ خوراک پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ابھی گندم خریداری مہم جاری تھی کہ حکومت نے فلورملز کو گندم کی فروخت شروع کردی ،ابتک 35 لاکھ ٹن گندم ملز کو دی جا چکی ہے اور مزید ڈھائی ماہ یہ فراہمی جاری رہے گی۔

اس وقت ایک سنگین بحران جنم لے رہا ہے،  چیئرمین فلورملز ایسوسی ایشن عاصم رضا،  سینئر رہنما میاں ریاض، لیاقت علی خان سمیت سینئر وائس چیئرمین شیخ خالد، وائس چیئرمین عثمان محمود، حافظ احمد و دیگر کی جانب سے گزشتہ کئی ہفتوں سے سیکرٹری اور ڈائریکٹر فوڈ کو یہ شکایات اور اطلاعات فراہم کی جا رہی ہیں کہ بہت سے گندم مراکز سے فلورملز کو مہیا کی جانے والی گندم میں مٹی ملائی جا رہی ہے یا پھر ان پر پانی کا چھڑکاو کیا جا رہا ہے تا کہ وزن بڑھ سکے۔

یہ شکایات اتنی زیادہ تعداد میں ٹھوس شواہد کے ساتھ سامنے آرہی ہیں جس سے یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ شاید مبینہ طور پر ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ان شکایات پر کوئی خاص ایکشن نہ ہونا بھی کئی سنجیدہ اور سنگین سوالات اور خدشات کو جنم دے رہا ہے، جو اللہ کرے غلط ثابت ہوں۔کسانوں کا ہمیشہ یہ شکوہ اور الزام رہا ہے کہ محکمہ خوراک جب ان سے گندم خریدتا ہے تو فی بوری ایک تا ڈیڑھ کلو زائد وزن لیا جاتا ہے اور یہ وزن لینے کیلئے محکمہ خوراک کا عملہ گندم میں نمی کا تناسب 10 فیصد سے زائد ہونے کو جواز بناتا ہے ۔

چیئرمین عاصم رضا سمیت پنجاب بھر سے مل مالکان کی  جانب سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ انہیں گندم فراہم کرتے ہوئے فوڈ سٹاف فی بوری آدھا کلو گندم لے رہا ہے ۔ مٹی کی ملاوٹ اور پانی کے چھڑکاو سے بھی تقریبا فی بوری آدھا کلو سے ایک کلو (اوسط)کا ’’ٹیکا‘‘ لگایا جا رہا ہے۔ اس وقت اوپن مارکیٹ میں گندم کی اوسط قیمت 2 ہزار روپے فی من سے زائد ہے اور اس سیزن میں تقریبا 5 کروڑ بوری ملز کو فروخت کی جائے گی جس میں سے ساڑھے تین کروڑ فروخت کی جا چکی ہے۔

اس تناسب سے زائد وزن کی وصولی کے ذریعے 4 تا5 ارب روپے کی سپیڈ منی سنٹر انچارج سے سے شروع ہو کر نجانے کس کس سطح پر ’’حصہ بقدر جثہ‘‘ کے مطابق تقسیم ہوتی ہے۔عاصم رضا کے مطابق دلچسپ امر یہ کہ مٹی کی ملاوٹ اور پانی کے چھڑکاو میں مبینہ طور پر ملوث سنٹر انچارج صاحبان کو ہی فلورملز کی انسپکشن کی ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔عاصم رضا کا شکوہ اپنی جگہ لیکن شاید ’’سہولت کاروں‘‘ کا مطمع نظر یہ ہو کہ فلورملنگ سیکٹر ناقص اور ملاوٹ شدہ گندم کے معاملے پر اپنی زبان بند رکھے۔

دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ فلورملز کی انسپکشن تو کروائی جا رہی ہے ا س مقصد کیلئے خصوصی سکواڈ بنا کر سرکاری گاڑیاں بھی فراہم کی جا چکی ہیں لیکن آج تک ’’مشکوک‘‘ گندم مراکز کی انسپکشن کیلئے کوئی باضابطہ اور منظم طریقہ اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ ملز کی انسپکشن ضرور ہونا چاہئے اور جو ملیں کرپشن میں ملوث ہیں انہیں نشان عبرت بنا دینا ہی سب سے بہتر ہے لیکن اتنا ہی ضروری یہ بھی ہے کہ ملاوٹ اور کرپشن میں ملوث فوڈ سٹاف کو بھی نشان عبرت بنایا جائے۔

خود احتسابی ہر صورت ترجیح ہونا چاہئے۔ اگر کوئی بھی سرکاری افسر ’’ایماندار‘‘ ہونے کے دعویدار ہے تو یہ اس کا انفرادی فعل اور خوبی ہے کیونکہ اس کے ماتحتوں میں اگر اربوں روپے کی کرپشن ہو رہی ہے اور وہ اسے روکنے میں ناکام ہے تو اس کے ایماندار ہونے کا فائدہ حکومت یا عوام کو ہر گز نہیں ۔ یہ تو وہی معاملہ ہے کہ کنویں میں کتا گر جائے تو اسے پاک کرنے کیلئے ایک سو بالٹی پانی تو نکالا جائے لیکن کتا کنویں میں ہی رہنے دیا جائے ۔ سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان اور ڈائریکٹر فوڈ دانش افضال عمدہ انسان ہیں اگر فلور ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے انہیں شواہد کے ساتھ کسی کرپشن یا غلط کام کی اطلاع مل رہی ہے تو انہیں اس پر ایکشن لینا چاہئے ۔

ان دنوں محکمہ خوراک میں ’’کوٹہ‘‘ سسٹم کے تحت آئے افسروں میں سے چند کے بارے میں بہت کچھ سنائی دے رہا ہے۔کہیں تین روپے فی بوری نذرانہ لیا جا رہا ہے تو کہیں 5 ہزار روپے فی رولر باڈی ماہانہ بھتہ وصول ہو رہا ہے اور  جنوبی پنجاب کے کچھ افسر اپنے ماتحت افسروں کے ذریعے فلورملز کے خلاف اضافی ایکشن کروا رہے ہیں تا کہ وہ بھی ’’منتھلی‘‘ کے نظام میں شامل ہو جائیں۔ اس حوالے سے مختلف حلقوں کی جانب سے چیف سیکرٹری اور ڈائریکٹر فوڈ کو مسلسل آگاہ کیا جا رہا ہے گو کہ ابھی تک کوئی ایکشن ہوتا دکھائی نہیں دیا لیکن امید ہے کہ حکومت اس معاملہ میں اپنی ذمہ داری نبھائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔