کورونا وائرس نے انسانی زندگی کے دو کروڑ سال کم کردیئے، تحقیق

ویب ڈیسک  ہفتہ 20 فروری 2021
کووڈ 19 کی عالمی وبا سے اب تک 11 کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوچکے ہیں جن میں تقریباً پچیس لاکھ اموات بھی شامل ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیشنل ریڈ کراس)

کووڈ 19 کی عالمی وبا سے اب تک 11 کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوچکے ہیں جن میں تقریباً پچیس لاکھ اموات بھی شامل ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیشنل ریڈ کراس)

لندن: وبائی ماہرین کی ایک عالمی ٹیم نے 81 ممالک سے دستیاب اعداد و شمار کی مدد سے تخمینہ لگایا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے جاری عالمی کورونا وبا سے مجموعی طور پر انسانی زندگی کے 2 کروڑ 5 لاکھ (20.5 ملین) سال کم ہوگئے ہیں۔

واضح رہے کہ ’’زندگی کے ضائع شدہ سال‘‘ (YLL) ایک طبی پیمانہ ہے جس میں مرتے وقت کسی شخص کی عمر کا موازنہ، اس ملک میں اوسط انسانی عمر سے کیا جاتا ہے۔

اگر مرنے والے کی عمر، اس اوسط سے کم ہو تو کہا جاتا ہے کہ وہ ’’وقت سے پہلے مر گیا‘‘ جبکہ اس فرق کو ’’زندگی کے ضائع شدہ سال‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔

مذکورہ مطالعے میں یہی پیمانہ استعمال کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ کووِڈ 19 کی وجہ سے انسانی زندگی کے ضائع شدہ سال موسمی زکام کے مقابلے میں اوسطاً 2 سے 9 گنا، جبکہ امراضِ قلب کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ رہے ہوں گے۔

کووِڈ 19 کی وجہ سے 55 تا 75 سال کے 45 فیصد لوگوں کی زندگی کم ہوئی، 55 سال سے کم عمر کے 30 فیصد افراد میں، جبکہ 75 سال سے زائد عمر کے 25 فیصد بزرگوں کی زندگی کم ہوئی۔

جن ممالک میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی صنف (مرد یا عورت) سے متعلق اعداد و شمار دستیاب تھے، ان کی روشنی میں یہ بھی پتا چلا کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں میں زندگی کے ضائع شدہ سال 44 فیصد زیادہ تھے۔

اس تحقیق میں 2019 کے اختتام سے لے کر 6 جنوری 2021 تک، کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کا ڈیٹا کھنگالا گیا جو 81 ممالک سے حاصل کیا گیا تھا۔

البتہ، ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ان کا اندازہ غلط بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ایک عالمی وبا کے دنوں میں خاص اسی وبا سے مرنے والوں کی تعداد کا درستی سے حساب رکھنا بہت مشکل کام ہے۔

مطلب یہ کہ کورونا کے باعث ضائع شدہ انسانی زندگی کے سال حقیقت میں 2 کروڑ 5 لاکھ (20.5 ملین) سے بہت کم یا پھر بہت زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔

یہ تحقیق آن لائن ریسرچ جرنل ’’سائنٹفک رپورٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے جسے برطانیہ، فن لینڈ، جرمنی، اسپین اور امریکا سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے مشترکہ طور پر مرتب کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔