اقتصادی صورتحال اور زمینی منظرنامہ

ایڈیٹوریل  اتوار 28 فروری 2021
یہ تبدیلی اب نعرے سے زیادہ عمل سے تعلق رکھتی ہے، آنے والے دن سیاستدانوں اور ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

یہ تبدیلی اب نعرے سے زیادہ عمل سے تعلق رکھتی ہے، آنے والے دن سیاستدانوں اور ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ملکی سیاسی و معاشی صورت حال کو ایک غیر معمولی بریک تھرو سے نکلنے کے لیے جادو اثر اقتصادی حکمت عملی درکار ہے، عوام ایسی پالیسیوں کے انتظار میں ہیں جو ایشین ٹائیگر بننے کے لیے دیر پا اور استحصال، کرپشن اور ناانصافی سے پاک معاشی و عوام دوست معاشی فیصلوں سے عوام کو ہمہ جہتی ریلیف مہیا کرے۔

معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور قطر کے درمیان ایل این جی فراہمی کا نیا معاہدہ طے پانا اس سمت میں ایک اہم قدم ہے، اقتصادی مشکلات کے خاتمہ میں حکومت کو جو بنیادی چیلنجز درپیش ہیں ان میں توانائی بحران سب سے اعصاب شکن ہے جس نے عوام پر بے پناہ مالی بوجھ ڈالا ہے، صارفین پہلے ہی اشیا خورو نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان تھے اور اب پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک بار بھر اضافہ کا خدشہ ہے، تاہم یہ خوش آئند اطلاع ہے کہ حکومت نے قطر سے ایل این جی منگوانے کا فیصلہ کرکے عوام کو ایک خوش خبری دی ہے۔

اس تقریب میں وزیر اعظم عمران بھی شریک ہوئے، معاہدے کے تحت قطر پاکستان کو10  سال کے لیے 3 ملین ٹن ایل این جی فراہم کرے گا، معاون خصوصی ندیم بابر کا کہنا ہے کہ معاہدے سے باہمی تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا، پاکستان اور قطر کے درمیان ایل این جی معاہدہ تاریخی ہے، اسی سال موسم سرما میں اضافی ایل این جی لے سکیں گے، ایل این جی کی قیمتوں میں کمی کا سہرا حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے،  وزیر توانائی عمر ایوب اور قطر کے وزیر توانائی نے معاہدے پر دستخط کیے۔

پریس کانفرنس میں معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کا کہنا تھا کہ نئے معاہدے کے تحت دس سال میں تین ارب ڈالر کی بچت ہوگی، پہلے معاہدے کے تحت 170 ملین ڈالر کی لیٹر آف کریڈٹ حکومت دیتی تھی۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا مہنگے کنٹریکٹس کو31 فیصد سستی ایل این جی سے ختم کر رہے ہیں اسپاٹ پرچیز سے بھی سستی ایل این جی لارہے ہوں گے، 2024 میں ایل این جی خریداری دو گنا کر دیں گے، یہ گیس ٹرمنل ٹو پر آئے گی، نئے معاہدے کے تحت ایک جہاز (ویسل)21 ملین ڈالر کا ملے گا، پرانے معاہدے کے تحت ایک جہاز27 ملین ڈالر کا ملتا تھا، ندیم بابر کا مزید کہنا تھا نیا معاہدہ برینٹ کی قدر کے 10.2 فیصد کے برابر اور دس سال کے لیے طے کیا گیا ہے، چار سال بعد معاہدے کی ری اوپننگ ہوگی۔

عوام کو اصل خوشی ایل این جی کی سستی اور مستقل فراہمی سے ہوگی، اس کے لیے ایک موثر میکنزم اور فعال انفرا سٹرکچر کا ہونا ناگزیر ہے جو عوام کی ضروریات اور روزمرہ سہولت کی تکمیل کو یقینی بنائے، اس کے ساتھ ہی شفافیت بھی ضروری ہے، تاکہ متبادل توانائی کے سسٹم میں جو مسائل پیدا ہوئے اور تنازعات نے جنم لیا ان سے دامن بچا رہے۔ بجلی، گیس اور ایل این جی کا پہیہ چلے گا تب ہی ملکی صنعتیں ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنا سکتی ہیں۔ اچھی خبروں کا جزوی سلسلہ جاری ہے۔

وفاقی وزارت مالیات نے امید ظاہر کی ہے کہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی کے دوران معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی اور افراط زر میں کمی واقع ہوگی تاہم رواں ماہ کے دوران افراط زر کی شرح کے حوالے سے غیر یقینی نظر آتی ہے اور وزارت کی جانب سے ماہ فروری کے دوران افراط زر کی شرح 5 اعشاریہ 5 سے 7 اعشاریہ 5 کے درمیان رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بھی آٹھ ماہ کا نظر ثانی شدہ ہدف حاصل کر لیا ہے اور اس عرصے کے دوران ادارے نے 6 فیصد اضافے کے ساتھ مجموعی طور پر2 کھرب 90 ارب روپے محصولات کی مد میں وصول کیے۔ اعداد و شمار کے مطابق ماہ فروری کے دوران ایف بی آر کو 327 ارب روپے کے محصولات حاصل ہوئے۔

معاشی مستقبل کے حوالے سے جاری رپورٹ کے مطابق وزارت مالیات کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی اور بہتری کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ وزارت مالیات کے مطابق کپاس کی فصل کی پیداوار میں کمی کے خدشات ہیں تاہم خریف کی دیگر فصلوں کی بہتر پیداوار کے سبب ان خدشات پر کمی پائی جاسکتی ہے، اسی طرح ربیع کے سیزن میں اس سال گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل کیے جانے کی امید ہے۔

اس سال ربیع کے موسم میں یوریا کی فروخت میں ایک اعشاریہ ایک فیصد کمی رہی اور مجموعی طور پر1817 ٹن یوریا فروخت ہوا جب کہ DAP کی فروخت میں بھی 8 اعشاریہ 9 فیصد کمی رہی اور 791 ٹن فروخت رہی۔ اعداد و شمار کے مطابق وسیع صنعتی پیداوار ماہانہ بنیاد پر مثبت رہی اور دسمبر 2019 کے مقابلے میں دسمبر 2020 میں اس میں11 اعشاریہ 4 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

وزارت کے مطابق ماہ فروری کے  دوران درآمدات میں کمی کی توقع ہے جب کہ برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق مہنگائی میں اضافہ، برآمدات اور سرمایہ کاری میں کمی، ٹیکس وصولی اور ترسیلات زر بڑھ گئیں، سات ماہ میں مہنگائی کی اوسط شرح 8.2 فیصد رہی، درآمدات 7.2 فیصد بڑھی، اقتصادی شرح نمو اور تجارتی توازن میں مزید بہتری متوقع، زرمبادلہ کے ذخائر 20.2 ارب ڈالرز ہوگئے۔

ادارہ شماریات کے مطابق آٹا، گھی، دال، انڈے اور مرغی سمیت 25 اشیا ء کی قیمتوں میں اضافہ جب کہ صرف 5 اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی، ادھر اوگرا نے پٹرولیم قیمتوں میں 20 روپے لیٹر اضافے کی سفارش کرتے ہوئے ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں بھی 19روپے 61 پیسے اضافے کی تجویز دی ہے۔

رواں مالی سال کے پہلے7 ماہ جولائی تا جنوری کے دوران ترسیلات زر میں اضافہ، برآمدات اور سرمایہ کاری میں کمی ہوئی، سات ماہ میں ملک میں مجموعی سرمایہ کاری میں 78 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، سات ماہ میں 75 کروڑ50 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جب کہ اس عرصے کے دوران گزشتہ برس 3 ارب 43 کروڑ81 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔

وزارت خزانہ کے جاری اعداد و شمار کے مطابق سات ماہ میں ترسیلات زر میں گزشتہ برس کے مقابلے میں24.1 فیصد اضافہ ہوا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق برآمدات میں 3.8 فیصد کمی اور درآمدات میں 6.1 فیصد اضافہ ہوا جب کہ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق برآمدات میں5.6 فیصد اضافہ ہوا اور درآمدات میں 7.2 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکسٹائل کے شعبے میں8.2 فیصد اضافہ ہوا۔

سات ماہ میں اوسط مہنگائی کی شرح 8.2 فیصد رہی، گزشتہ برس اس عرصے میں مہنگائی کی اوسط شرح11.6فیصد تھی، رواں برس جولائی تا دسمبر کے چھ ماہ میں پاکستان کا بجٹ خسارہ 1137 ارب90 کروڑ روپے رہا جو کہ جی ڈی پی کا 2.5 فیصد ہے گزشتہ برس اس عرصے میں بجٹ خسارہ 2.3 فیصد یعنی994 ارب 70 کروڑ روپے تھا۔

فروری کو جاری معاشی آؤٹ لک کے مطابق بیرونی سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب 14 کروڑ 53 لاکھ ڈالر رہا گزشتہ برس اس کا حجم ایک ارب 57 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا اس میں کمی ہوئی، بیرون ملک سے ترسیلات زر16ارب 50 کروڑ ڈالر رہی جوکہ گزشتہ برس 13ارب 30 کروڑ ڈالر تھی۔ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر تیل اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا رحجان ہے تاہم حکومتی اقدامات کے باعث مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔

وزارت خزانہ نے بین الاقوامی سطح پر خصوصاً تیل اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے حالیہ رجحان کے باعث آیندہ ماہ افراط زر 5.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ گزشتہ ماہ افراط زر کی شرح 5.7 فیصد رہی۔

جمعہ کو وزارت خزانہ کے جاری بیان کے مطابق مالی بچت کے حوالے سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے بروقت اقدامات، نقل و حرکت پر عائد پابندیوں میں نرمی، ویکسی نیشن کے لیے فوری اقدامات اور سازگار مالی پالیسیوں کی وجہ سے مشکل وقت میں اقتصادی سرگرمیاں جاری رہیں اور آیندہ مہینوں میں ان سرگرمیوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے ہمراہ فیڈمک ہیڈ آفس میں اجلاس سے خطاب کیا۔ اسد عمر نے کہا کہ فیڈمک کے اکنامک زونز میں آمد و رفت کی آسانی کے لیے جھمرہ انٹرچینج کی منظوری دے دی گئی ہے جس پر جلد کام شروع کر دیا جائے گا، فیڈمک کو وافر مقدار میں بجلی اور گیس فراہم کی جائے گی تاکہ یہاں لگنے والی صنعتوں کو توانائی کی فراہمی سے متعلق کسی قسم کا مسئلہ نہ ہو۔

اقتصادی اعداد و شمار میں نشیب و فراز کی جو تصویر کشی کی گئی ہے وہ اگرچہ معیشت کے استحکام کی طرف بہتری کا اشارہ کرتی ہے لیکن مبصرین نے مجموعی ملکی سیاسی صورتحال کے اقتصادی اور معاشی پہلو پر ایک غیر معمولی جست کی ضرورت پر زور دیا ہے، کیا حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ کورونا کے باعث ملک کو بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کے ہوشربا مصائب کا سامنا ہے، یہ صورتحال کسی شاعر نے یوں بیان کی ہے کہ

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

بلاشبہ مہنگائی نے عوام کے اعصاب جھنجھوڑ کر رکھ دیے ہیں، کورونا نے یوں تو دنیا بھر کی معیشت کو بحران کا شکار بنایا ہے لیکن لاکھوں مزدور فیکٹریوں سے نکالے جا چکے ہیں، ملک میں متوسط طبقہ کی معاشی اور تہذیبی طاقت زمین بوس ہوچکی، بیروزگاری نے گھروں میں فاقے ڈال دیے، عمومی سیاسی صورتحال اب بھی روزگار، مہنگائی اور غربت کے خطرات کے حوالہ سے بڑے فیصلہ کرنے پر زور دیتی ہے، ملک سماجی و سیاسی صورتحال کی بہتری کے لیے کسی اہم بریک تھرو کا منتظر ہے، یہ تبدیلی اب نعرے سے زیادہ عمل سے تعلق رکھتی ہے، آنے والے دن سیاستدانوں اور ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔