خواتین کو باوقار بنائے بغیر معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 8 مارچ 2021
تحفظ حقوقِ خواتین کے حوالے سے موجود قوانین میں بہتری لائی جارہی ہے، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

تحفظ حقوقِ خواتین کے حوالے سے موجود قوانین میں بہتری لائی جارہی ہے، شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو: ایکسپریس

8 مارچ کو ہر سال خواتین کا عالمی دن منایا جاتاہے جس کا مقصد صنفی امتیاز کا خاتمہ اور خواتین کے مساوی حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ اس دن کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

بیگم آشفہ ریاض (صوبائی وزیر برائے ویمن ڈویلپمنٹ پنجاب)

معاشرے کی تشکیل ہو یا کسی تحریک کا آغاز، خواتین کا کردار ہمیشہ سے کلیدی رہا ہے۔ جنگ ِ آزادی، کورونا جیسی وباء کے خلاف اقدامات و دیگر مشکل حالات میں خواتین کا کردار انتہائی اہم رہا ہے اور انہوں نے ثابت کیا کہ وہ معاشرے کی کارآمد شہری اور کسی سے کم نہیں ہیں۔ ملازمت پیشہ شادی شدہ خواتین کے بچوں کی دیکھ بھال کے مسائل کا سامنا ہے جنہیں حل کرنے کیلئے ڈے کیئر سینٹرز انتہائی اہم ہیں۔ گزشتہ حکومت نے 6 برسوں میںپنجاب میں 65 ڈے کیئر سینٹرز بنائے، ہم نے خواتین کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان سینٹرز کے رولز کو ریوائز کیا جس کے بعد سے اب تک 221 ڈے کیئر سینٹرز قائم کیے جاچکے ہیں جبکہ 40 پائپ لائن میں ہیں۔ یہ سینٹرز 1 سے 4 سال کے بچوں کیلئے ہیں اور ان کی تین اقسام ہیں۔ پہلی قسم میں بچوں کی تعداد 20 سے 25 ہوگی، دوسری قسم میں 8 سے 12 جبکہ تیسری قسم میں 3 سے 6 بچے ہونگے، ان سینٹرز میں سہولیات کے لیے حکومت فنڈز دیتی ہے، ایک سال کیلئے ان کے یوٹیلیٹی بلز تین اقساط میں دیے جاتے ہیں، ایک سال بعد یہ خود انحصاری پر چلے جاتے ہیں۔ اس وقت پنجاب کا کوئی ایسا ضلع نہیں ہے جس میں ڈے کیئر سینٹر نہ ہو بلکہ ہم نے ہسپتالوں میں بھی یہ سینٹرز قائم کیے ہیں۔ ہم اس حوالے سے اشتہارات بھی دے رہے ہیں کہ ا ب کوئی بھی ڈے کیئر سینٹر بنانے کیلئے درخواست دے سکتا ہے۔ میں نے چارج سنبھالا تو ڈے کیئر سینٹرز کی کارکردگی اور فنڈز کے حوالے سے رپورٹ طلب کی مگرمحکمے کے پاس کوئی میکنز م اور ریکارڈ نہیں تھا۔ ہم نے اس پر توجہ دی اور اب ڈے کیئر سینٹرز اتھارٹی ایکٹ لارہے ہیں جس کے تحت تمام ڈے کیئر سینٹرز کی نگرانی کی جائے گی اور معاملات میں بہتری آئے گی۔ خواتین کو رہائش کے مسائل کا بھی سامنا ہے، اس حوالے سے ورکنگ ویمن ہاسٹلز اتھارٹی کا بل کمیٹی سے منظور ہوچکا ہے، یہ اتھارٹی جلد قائم کر دی جائے گی۔ اس سے سرکاری و نجی تمام ہاسٹلز کو ریگولرائز کیا جائے گا، چیک اینڈ بیلنس ہوگا، خواتین کسی بھی شہر میں آن لائن ہوسٹل بک کروا سکیں گی اور تمام شہروں میں ایک معیار کے ہاسٹل کاایک جیسا کرایہ ہوگا۔ کرونا وائرس کی مشکل گھڑی میں خواتین نے ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ لاک ڈاؤن میں خواتین کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں، گھر کے کام، ملازمت کے کام، کھانا، پکانا، ایس او پیز کا خیال و بیک وقت دیگر کاموں سے خواتین نے ثابت کیا کہ وہ ڈائنامک شخصیت کی مالک ہیں اور مشکل حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتی ہیں۔ ہم نے جینڈر سینسٹائزیشن پر کام کیا، پولیس، لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں کی تربیت کی، مختلف ورکشاپس منعقد کی گئی اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے جس سے قدرے بہتری آئی ہے۔ ہم say no to gender violence  اور say no to gender discrimination کے نعروں پر مبنی مہم چلا رہے ہیں تاکہ معاشرے میں احساس اور آگاہی پیدا کی جاسکے۔ میرے نزدیک کوئی بھی قوم، گھر یا معاشرہ اس وقت تک مضبوط نہیں ہوسکتا جب تک اس کی عورت باوقار نہ ہو۔ اگر ہم گھر کے اندر یا باہر عورت کا احترام نہیں کریں گے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عورت کو تحفظ نہیں دیں گے تب تک باوقار معاشرہ تشکیل نہیں دیا جاسکتا۔ آئین پاکستان صنفی امتیاز کی مخالفت کرتا ہے اور سب کو برابر حقوق کی گارنٹی دیتا ہے۔ پاکستانی خواتین کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مردوں کو ہیں تاہم عملدرآمد کے مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کیلئے کام جاری ہے۔ 2012ء میں پنجاب میں ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا مگر عملدرآمد کا فریم ورک نہیںبنایا گیا ۔ ہم نے یہ فریم ورک بنایا اور اس وقت پنجاب کے 17 ڈیپارٹمنٹ ہمارے ساتھ ہیں جبکہ دیگر سے بھی بات چیت جاری ہے۔ خواتین کی تربیت ودیگر اہم کاموں کیلئے لاہور میں وویمن کمپلیکس بنایا جا رہا ہے، اس حوالے سے ایل ڈی اے سے زمین حاصل کر لی گئی ہے، ڈائریکٹوریٹ کی عمارت الگ ہوگی، وہاں خواتین اپنے مسائل کے حل کیلئے رجوع کرسکتی ہیں۔ ہماری ہیلپ لائن 1043 چوبیس گھنٹے خواتین کی رہنمائی کرنے کیلئے دستیاب ہے اور کرونا کی وباء کے دوران بے شمار خواتین نے ہم سے رجوع کیا۔خاتون محتسب نے پنجاب بھر میں ریلیف کمیٹیاں قائم کردی ہیں جو خواتین کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی۔ ہم نے دختران پاکستان کے نام سے ایک قدم اٹھایا ہے جس کے تحت خواتین کی تربیت کی جارہی ہے، ان کے جذبہ حب الواطنی کو اجاگر کیا جارہا ہے۔ انہیں یہ اعتماد دیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کی بیٹیاں ہیں، ملک میں امن قائم کرنے، معیشت بہتر کرنے، معاشرہ تشکیل دینے اور خاندان کو چلانے میں ان کا کردار اہم ہے۔ ہماری حکومت صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے،تمام سطح کے ہسپتالوں کو بہتر کیا جارہا ہے، وزیراعظم عمران خان نے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں تمام شہریوں کو ہیلتھ کارڈز دینے کے پروگرام کا آغاز کیا ہے، ا س سے یقینا بہتری آئے گی اور اب غریب افراد خصوصاََ خواتین اپنا علاج کرواسکیں گی۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز فارن فنڈڈ پروگرام تھا جس کا مقصد آبادی کو کنٹرول کرنا تھا مگر انہیں پولیو کے بعد سے اضافی ذمہ داریاں دے دی گئیں جس سے ان کا اصل کام پیچھے رہ گیاجبکہ آبادی اور مسائل میں اضافہ ہوتا گیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے جن مسائل کا یہاں ذکر کیا گیا، انہیں دور کرنے پر کام کیا جائے گا۔ کاروبار میں خواتین کو سہولت دینے کیلئے یہاں SMEs میں WSMEs کے ذریعے خواتین کو شناخت دینے کی بات کی گئی جو بہترین ہے، اس پر کام کیاجائے گا۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کشمیر اور فلسطین کی خواتین کی جدوجہد اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہم آج کے دن ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر شہلا جاوید اکرم (بانی چیئرپرسن ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

خواتین کا عالمی دن ہمارے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن خواتین کی قربانیوں اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے اور ہم یہ دن اس طرح مناتے ہیں جیسے منانے کا حق ہے۔ خواتین کا استحصال ایک عالمی مسئلہ ہے جو ترقی یافتہ ممالک کی خواتین کو بھی درپیش ہے،ا نہیں ان کے حقوق نہیں مل رہے مگر ہمارے جیسے ممالک میں یہ مسائل زیادہ ہائی لائٹ ہوجاتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں جبکہ ان ممالک میں ایسے مسائل کو منظر عام پر آنے نہیں دیا جاتا لیکن جب تجزیے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی مسائل کافی ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ خواتین کے مسائل کو ہمارے ملک میں بھی سمجھا گیا ، اس پر حکومتی و نجی سطح پر کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ لوگوں کو آگاہی بھی دی جا رہی ہے جس سے کچھ بہتری آئی ہے مگر ابھی بھی ہمیں اس پر غور کرنا ہے کہ خواتین کے مسائل کو کس طرح سے حل کیا جائے اور ان کا حقوق و تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے۔ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے کافی قانون سازی ہوئی اور ادارے بنائے گئے جن میں نیشنل کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن، پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن، ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ و دیگر شامل ہیں۔ ان اداروں کی تشکیل اور خواتین کے حقوق و تحفظ کے قوانین میں قومی و صوبائی اسمبلیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان تمام اقدامات کے باوجود ایک مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی آواز معاشرے میںا س طرح قابل قبول نہیں ہے جیسے ہونی چاہیے۔اس کے لیے ہم نے یہ لائحہ عمل بنایا کہ میٹنگز میں مردوں کو بھی بلایا جائے، انہیں پروگرامز میں شامل کیا جائے کیونکہ اگر ان سے الگ ہوکر کام کیا جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف کام ہو رہا ہے، ہمیں اس سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ہمیں مردوں کو آگاہی دینا ہوگی تاکہ وہ خواتین کی اس جدوجہد کو قبول کریں، ان خواتین کے حقوق کے فوائد اور استحصال کے نقصانات کے بارے میں بتایا جائے، میرے نزدیک جب تک مرد اور عورت ایک ٹیم کی طرح آگے نہیں چلیں گے تب تک ملک ترقی نہیں کرے گا۔ تعلیمی اداروں کا جائزہ لیں تو یونیورسٹیوں میں سٹوڈنٹس کی تعداد کا 80 فیصد لڑکیاں ہیں جبکہ آزاد کشمیر کے میڈکل کالجز میں 92 فیصد لڑکیاں ہیں، یہ اعداد و شمار حوصلہ افزاء ہیں بھی اور نہیں بھی۔ حوصلہ افزاء اس طرح کہ لڑکیاں تعلیمی میدان میں آگے ہیں مگر دوسری طرف یہ عدم توازن ہے۔ ایک المیہ یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی خواتین کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے۔ عورت تعلیم مکمل کرنے کے بعد کام کرنا چاہتی ہے مگر معاشرہ تعاون نہیں کرتا۔ خواتین کا اپنا خاندان کاروبار کیلئے ان کی مالی معاونت کرنے کو تیار نہیں ہوتا حالانکہ لڑکے کو گھر پیچ کر بھی کاروبار کیلئے پیسے دے د یے جاتے ہیں، نقصان تو دونوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے خواتین کو قرض دینا شروع کیا جس سے انہیں کاروبار میں مدد ملی ہے۔ میرا سوال ہے کہ اگر تعلیمی ادارے اور حکومت خواتین پر اعتماد کر رہی ہے تو خاندان کیوں نہیں کرتا؟ گھر سے ہی لڑکے اور لڑکی میں امتیازی سلوک کو ختم کرنے سے معاشرے میں توازن قائم ہوجائے گا۔ جو خواتین کاروبار کرتی ہیں ان پر گھر اور معاشرے کا دباؤ ہوتا ہے، وہ تمام مسائل کا مقابلہ کرکے آگے آتی ہیں لہٰذا وہ بہتر پرفارم کرتی ہیں، ہمارے پاس چیمبر میں آنے والی خواتین انتہائی قابل ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش میں خواتین کو کاروبار میں سپورٹ کرنے اور ان کی محنت اور جدوجہد کو تسلیم کرنے کیلئے ’WSME’s‘ کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں بھی SMEsکے ساتھ WSMEs کو قانونی طور پر شناخت دی جائے، اس پر پالیسی بنائی جائے اور بنک و دیگر اداروں کو ان کے حوالے سے اقدامات کرنے کا پابند کیا جائے، ایسا کرنے سے خواتین کی ترقی میں مدد ملے گی۔

بشریٰ خالق (نمائندہ سول سوسائٹی)

خواتین کا عالمی دن پورے معاشرے کیلئے انتہائی اہم ہے کیونکہ کوئی بھی معاشرہ خواتین کی ترقی کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ آج اس دن کے موقع پر میں ماضی کی خواتین کی ان تحریکوں اور جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جن کی وجہ سے آج خواتین بااختیار ہیں۔ نیو یارک و دیگر ممالک کی خواتین نے اپنی جدوجہد سے بعد میں آنے والی خواتین کیلئے عظیم مثالیں رقم کی ہیں۔ پاکستانی خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہماری خواتین ملازمت بھی کرتی ہیں اور گھر کے کام بھی سنبھالتی ہیں۔ گزشتہ برس کرونا کی وباء کی وجہ سے بہت کڑا سال تھا۔ لاک ڈاؤن ویسے تو ہر کسی کیلئے مشکل رہا مگر خواتین مشکل ترین دور سے گزری ہیں۔ ان کے کام اور ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا، مردوں کے ساتھ ساتھ بے شمار خواتین کا روزگار بھی ختم ہوا۔ جو آن لائن یا گھر سے کام کر رہی تھی، ان کی ذمہ داریاں دوہری، تہری ہوگئی مگر انہوں نے گھر اور ملازمت کے کام احسن طریقے سے سرانجام دیے۔ کرونا کے دوران شعبہ صحت میں کام کرنے والی خواتین نے بہترین کام کیا۔ اس دن کے موقع پر لیڈی ڈاکٹرز، نرس، لیڈی ہیلتھ ورکرز و شعبہ صحت سے منسلک دیگر خواتین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے شعبہ صحت کا بجٹ بڑھایا جائے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جی ڈی پی کا 5 فیصد خواتین کی صحت کے لیے مختص کیا جائے اور خواتین کو ان کے گھر کی دہلیز پر صحت کی بنیادی سہولیات مفت فراہم کی جائیںاور ’بی ایچ یوز‘ کو بہتر کیا جائے۔ خواتین کو آمد و رفت کے مسائل کا سامنا ہے خصوصاََ رات کی شفٹ میں کام کرنے والی خواتین کو زیادہ مسائل درپیش ہیں۔ ہسپتالوں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی ٹرانسپورٹ، ڈے کیئر سینٹرز و دیگر سہولیات کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ یونیورسٹیز میں خواتین کی انرولمنٹ زیادہ ہوتی ہے مگر ان مسائل کی وجہ سے ملازمت میں کم خواتین آتی ہیں لہٰذا ہمیںان کے مسائل حل کرنے کیلئے سنجیدگی سے کام کرنا ہوگا۔ شعبہ صحت کی بہادر خواتین گھر گھر جاکر معاشرے کی صحت کیلئے کام کر رہی ہیں۔ پرائمری ہیلتھ ورکرز انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں 1 لاکھ لیڈی ہیلتھ ورکرز بھرتی کی گئی جن کی تربیت کی گئی اور ان کا مقصد آبادی کو کنٹرول کرنا تھا۔ ان ہیلتھ ورکرز نے ملک بھر میں محنت کی ڈیٹا اکٹھا کیا، ریکارڈ مرتب کیا مگر جب پولیو وائرس آیا تو انہیں پولیو کی ذمہ داری سونپ دی گئی ۔ بدقسمتی سے آج بھی پاکستان جنوبی ایشیاء میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے ۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا کام بڑھ گیا مگر ان کی تنخواہ و دیگر مسائل ویسے ہی رہے اور وہ آج تک استحصال کا شکار ہیں۔ انہیں ہراسمنٹ کا سامنا ہے، بے شمار ہیلتھ ورکرز کو قتل کر دیا گیا مگر وہ اپنے فرائض سے پیچھے نہیں ہٹی، یہ ہمارا اثاثہ ہیں لہٰذا ان کے حقوق و تحفظ کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں خواتین کے حوالے سے بہت اچھی قانون سازی ہوئی ہے، ہم ان ممبران اسمبلی کے بے حد شکرگزار ہیں جنہوں نے خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے کام کیا لہٰذا اب ان قوانین پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے اور جہاں خرابیاں ہیں انہیں دور کرنا چاہیے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ، بزنس کمیونٹی، میڈیا سمیت تمام شعبوں میں خواتین کے مخصوص مسائل کا خاتمہ کیا جائے اورا نہیں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ بقول شاعر:

کمتر ہو نہ حاوی ہو

عورت کا حق مساوی ہو

آج کے اس عالمی دن کے موقع پر ہمیں نچلی سطح تک خواتین کی جدوجہد اور کردار کو نہیں بھولناچاہیے، ہمیں چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے خواتین کو تیار کرنا ہوگا۔ بلدیاتی نظام خواتین کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس میں خواتین کی نشستوں میں اضافہ کیا جائے۔ ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں کم عمر کی شادی کا قانون مختلف ہونے کی وجہ سے کم عمر لڑکیوں کی سمگلنگ ہورہی ہے، اس کی روک تھام پر توجہ دینا ہوگی اور قانون کو بہتر بنانا ہوگا۔

نبیلہ بانو (لیڈی ہیلتھ ورکر)

لیڈی ہیلتھ ورکرز گھر گھر جاکر خواتین کی صحت کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ دیہاتوں میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی وجہ ان کا ریگولر چیک اپ اور نرسوں کا نہ ہونا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز ان خواتین کو نہ صرف آگاہی دیتی ہیں بلکہ ان کے ریگولر چیک اپ میں مدد فراہم کرتی ہیں، انہیں بی ایچ یو تک لے کر جاتی ہیں اور اگر کیس پیچیدہ ہو تو بڑے ہسپتال میں بھی لے جایا جاتا ہے ، اس سے دوران زچگی شرح اموات میں خاصی کمی آئی ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز ویکسی نیشن کا کام بھی کرتی ہیں، یولیو، خسرہ،، ٹائیفائڈ و دیگر بیماریوں کی ویکسی نیشن کا اضافی بوجھ لیڈی ہیلتھ ورکرز پر ڈالا گیا ہے، ہم جتنا کام کرتی ہیں اتنا معاوضہ نہیں ملتا۔ یہ کہا جاتا ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز شعبہ صحت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں مگر یہ صرف الفاظ کی حد تک ہے، ہم حکومت سے اپیل کرتی ہیں کہ ہمیں سائڈ لائن نہ کیا جائے، ہمیں جائز سہولیات دی جائیں۔ بے شمار لیڈی ہیلتھ ورکرز بیوہ ہیں اور اکیلے اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہیں، وہ 20 ہزار میں کام کرنے پر مجبور ہیں، انہیں ٹرانسپورٹ کے مسائل کا بھی سامنا ہے، دن ہو یا رات، جہاں زچگی کے وقت ضرورت ہوتی ہے وہ جاتی ہیں اور خاتون کو ہسپتال لے کر جاتی ہیں جو آسان کام نہیں ہے۔ جب ہم بڑے ہسپتالوں میں جاتی ہیں تو وہاں ڈاکٹرز ہمیں کچھ نہیں سمجھتے اور اچھا سلوک نہیں کرتے، ہم اس سوچ کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔کرونا کی وباء کے دوران سب کو اپنی اپنی پڑی تھی مگر ہم نے گھر گھر جاکر لوگوں کو آگاہی دی۔ ہم نے مختلف اداروں کی جانب سے دیے جانے والے ماسک، سینی ٹائزر، دستانے و غیرہ لوگوں کو مفت فراہم کیے ، بیشتر کو مالی امداد بھی دی گئی، ہم نے افواج پاکستان کے ساتھ بھی شانہ بشانہ ڈیوٹی کی اور معاشرے کہ وہ طبقات جنہیں نظر انداز کر دیا گیا تھا ہم نے انہیں راشن پہنچایا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا کردار انتہائی اہم ہے، ہم بھی چاہتی ہیںکہ ہماری باوقار شناخت ہو اور ہماری عزت کی جائے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔