دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان

محمد کامران کھاکھی  منگل 9 مارچ 2021
پاکستان تحریک انصاف ’’دو نہیں، ایک پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر میدان میں اتری۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان تحریک انصاف ’’دو نہیں، ایک پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر میدان میں اتری۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان تحریک انصاف، جو یہ نعرہ لگا کر میدان میں اتری کہ ایک نہیں دو پاکستان، ایک غریب کےلیے اور ایک امیر کےلیے، جو کہ ناانصافی ہے اور اب دو نہیں ایک پاکستان ہوگا اور وہ ہوگا نیا پاکستان۔ اس سوچ نے عوام میں ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس کے علاوہ بھی ان کے منشور میں کئی محیرالعقول ایجادات شامل تھیں جیسے پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں۔ مگر ان کو فی الحال ایک طرف بھی کرلیں اور اسی ایک بات پر فوکس کریں تو پاکستان تحریک انصاف ’’ایک نہیں دو پاکستان‘‘ کے مقابلے میں اپنے نعرہ ’’دو نہیں ایک پاکستان۔ نیا پاکستان‘‘ پر کس حد تک پورا اتری ہے؟

2018 کے سینیٹ الیکشن کی ویڈیو، جو خود پاکستان تحریک انصاف نے پھیلائی، جس میں پیسے لے کر بکنے والے بھی پاکستان تحریک انصاف کے لوگ ہیں۔ ان کو بھی پارٹی سے نکال دیا؟ وہ آج بھی سینیٹ انتخاب میں حکومتی وزرا کے ساتھ ’’پاوری‘‘ کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر خان کسی کو این آر او نہیں دے گا۔ دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان۔

پہلے اگر کسی بھی اور جماعت کا کوئی رکن پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرتا تو ببانگ دہل یہ اعلان کیا جاتا کہ ایک اور وکٹ گرگئی۔ اور اگر آج وہی ارکان واپسی کا سوچتے ہیں تو کرپٹ ہیں۔ میں ان کو نہیں چھوڑوں گا۔ دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان۔

موجودہ سینیٹ کے الیکشن میں حفیظ شیخ کی شکست اس وجہ سے ہوئی کہ ہمارے سولہ منسٹرز بک گئے اور بکنے والوں کو تو خان چھوڑتا ہی نہیں۔ ہاں مگر ان سے اعتماد کا ووٹ لے کر انہیں معافی دی جاسکتی ہے تاکہ کرسی سلامت رہے۔ اور آج وہ ووٹ بھی مل گیا۔ وزیراعظم زندہ باد۔ دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان۔

غریب و مجبور سرکاری ملازمین اور اساتذہ، جو ہمارے سروں کے تاج ہونے چاہیے تھے، وہ سڑکوں پر مطالبات لے کر نکلے تو ان پر ایکسپائرڈ آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے اور آج تحریک انصاف کے چند کارکن پورے اسلام آباد میں دندناتے پھر رہے ہیں اور پولیس صرف تماشائی ہے۔ اور تو اور اپوزیشن کے ارکان پر حملہ بھی کر دیا اور وہ بھی پارلیمنٹ لاجز کے باہر۔ مگر ان کو سب معاف ہے۔ کیونکہ دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان۔

جمہوریت کا حسن ہی خفیہ ووٹنگ میں ہوتا ہے تاکہ ہر کوئی بغیر کسی دباؤ کے اپنا ووٹ کا حق ادا کرسکے۔ اگر اوپن ووٹنگ ہو تو کوئی بھی اپنی مرضی سے ووٹ ہی نہیں ڈال سکتا اور سینیٹ کےلیے ووٹنگ تو پھر سرے سے ہی بے وقعت ہوکر رہ جاتی ہے۔ کیونکہ جس جماعت کے جتنے ارکان ہوں گے وہ اس کے ووٹ ہوں گے اور اسی حساب سے فیصلہ بھی ہوجائے گا۔

اپوزیشن کے تمام کیسز پر جب نیب کوئی فیصلہ لیتا ہے تو پورے کروفر کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ یہ کیسز بھی ہم نے نہیں کیے اور نیب کا چیئرمین بھی ان ہی کا لگایا ہوا ہے۔ بالکل ٹھیک بات، مگر اپنے ہی پسندیدہ چیئرمین الیکشن کمیشن آج بہت برے لگے جب انہوں نے ڈسکہ میں ری الیکشن کا فیصلہ کیا اور سینیٹ میں ہار ہوگئی۔ مگر الیکشن کمیشن نے اوپن بیلٹنگ کےلیے کچھ نہیں کیا۔ دو نہیں ایک پاکستان، نیا پاکستان۔

ابھی تو چند ایک مثالیں دی ہیں، دو نہیں ایک پاکستان کے حق میں۔ اگر اب بھی کسی کو یہ یقین نہیں آتا ہو کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ملکی تاریخ میں پہلی بار دو نہیں ایک پاکستان یعنی نیا پاکستان بنا تو نہ آئے۔ مجھے تو پورا یقین ہے اس بات پر کہ واقعی پہلے کی طرح اب دو نہیں ایک ہی پاکستان ہے جو کہ نیا پاکستان ہے۔ اور وہ کسی غریب کا نہیں، کسی اپوزیشن والے کا نہیں، کسی استاد کا نہیں، کسی سرکاری ملازم کا نہیں، کسی کاشت کار کا نہیں اور نہ ہی کسی عام آدمی کا پاکستان ہے۔ بلکہ وہ پاکستان صرف اور صرف پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ ہر اس وزیر کا ہے جو اپنے حلقے میں اکیلا جانے کے قابل نہیں رہا۔ وہ ان امپورٹڈ مشیروں کا ہے جو کسی بھی وقت اپنا بوریا بستر لپیٹ کر اپنے رہائشی ملک جاسکتے ہیں۔ وہ ان ارکان کا ہے جو کسی اچھی پوزیشن کے انتظار میں ہیں اور ان ٹائیگرز کا ہے جو صرف خان کی محبت میں ہلکان ہیں اور صرف خان کو ہی اپنا مسیحا اور آخری امید تصور کیے ہوئے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔