ٹک ٹاک: پابندی لگاؤ، پابندی ہٹاؤ

شایان تمثیل  جمعـء 2 اپريل 2021
محض 19 دن میں ٹک ٹاک پر لگائی گئی پابندی دوبارہ ہٹا لی گئی۔ (فوٹو: فائل)

محض 19 دن میں ٹک ٹاک پر لگائی گئی پابندی دوبارہ ہٹا لی گئی۔ (فوٹو: فائل)

لیجئے جناب! ٹک ٹاک ایپلی کیشن پر سے ایک بار پھر پابندی ہٹا دی گئی ہے اور اب پاکستان میں ٹک ٹاک کے شیدائی بغیر ’’وی پی این‘‘ کے بنا روک ٹوک محضوظ ہوسکیں گے۔

لیکن ابھی وقت ہی کتنا ہوا تھا آخری بار ٹک ٹاک پر پابندی لگائے جانے کو؟ گزشتہ ماہ 11 مارچ ہی کو تو پشاور ہائیکورٹ نے ڈی جی پی ٹی اے کو ٹک ٹاک ایپ بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ اور محض 19 دن بعد ہی یہ پابندی دوبارہ ہٹا دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ وہ اعتراضات جس کے بعد اس ایپ کو بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا تھا، کیا وہ اعتراضات ختم ہوگئے؟ یا ایپلی کیشن بنانے والی کمپنی نے کوئی یقین دہانی کرائی ہے؟

اسی بات پر یاد آیا کہ گزشتہ برس بھی 9 اکتوبر کو پی ٹی اے نے فحش مواد نہ ہٹائے جانے پر ٹک ٹاک کو ملک بھر میں بند کردیا تھا۔ اگر بعد ازاں یہ ایپ دوبارہ کھولی بھی گئی تھی تو کیا وہ اعتراضات ختم ہوگئے تھے؟ یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ پی ٹی اے کی جانب سے نوٹسز جاری ہونے کے بعد ٹک ٹاک نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پاکستان سے درجنوں متنازع ویڈیوز کو ہٹادیا ہے جب کہ وہ اخلاقی اور اچھا مواد تیار کرنے کےلیے حکومت اور مواد تیار کرنے والے افراد کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔ اگر ایسا ہی ہوا تھا تو دوبارہ پابندی لگانے کا جواز کیا تھا؟

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح ’’پابندی لگاؤ، پابندی ہٹاؤ‘‘ جیسے ڈرامائی فیصلوں سے پاکستان کے اعلیٰ اداروں کی ساکھ تو مجروح نہیں ہورہی؟ کیا اس قسم کے فیصلے جگ ہنسائی کا باعث نہیں بنیں گے؟ اگر ٹک ٹاک کے علاوہ بھی بات کریں تو زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یوٹیوب جیسے بڑے پلیٹ فارم پر پابندی لگا کر نہ صرف پاکستانی یوٹیوبرز کو نقصان پہنچایا گیا تھا بلکہ پاکستانی عوام کو اس بڑے پلیٹ فارم سے دور کرنے کی بھی کوشش کی گئی جہاں صرف تفریح ہی نہیں بلکہ کئی قسم کا علمی مواد بھی موجود ہے۔ کیا آج ٹیکنالوجی کے دور میں اس قسم کی پابندیاں ’’افورڈ‘‘ کی جاسکتی ہیں؟

اب ذرا ان اعتراضات اور ریمارکس پر بھی توجہ دیجئے جو پابندی کے فیصلے سے پہلے منظر عام پر آئے۔

  • ٹک ٹاک پر جو ویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہیں، وہ ہمارے معاشرے کےلیے قابل قبول نہیں ہیں۔
  • ٹک ٹاک ویڈیوز سے معاشرے میں فحاشی پھیل رہی ہے لہٰذا اسے فوری طور پر بند کیا جائے۔
  • ٹک ٹاک سے سب سے زیادہ نوجوان متاثر ہورہے ہیں۔
  • ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن سوشل میڈیا پر ریٹنگ اور شہرت کےلیے پورنوگرافی پھیلانے کا ذریعہ بھی بن رہی ہے۔

ان اعتراضات پر بات کرنے سے پہلے ٹک ٹاک ایپ کے بارے میں جانکاری حاصل کرتے ہیں۔ 2019 میں بھی جب ٹک ٹاک ایپ بند کیے جانے کی بات ہورہی تھی تو ہم نے ایک بلاگ اس سلسلے میں لکھا تھا، اس بلاگ کے مندرجات قارئین کےلیے دوبارہ پیش کرتے ہیں۔

ٹک ٹاک کہلائی جانے والی یہ ایپ 2014 میں میوزیکلی کے نام سے متعارف کروائی گئی تھی، صرف دو سال کے عرصے یعنی 2016 میں اس کے استعمال کنندگان کی تعداد 90 ملین ہوگئی جبکہ مئی 2017 کے اختتام تک میوزیکلی کے یوزرز کی تعداد 200 ملین تک پہنچ گئی۔ 2 اگست 2018 کو اس ایپ کا نام تبدیل کرکے ٹک ٹاک رکھ دیا گیا اور حالیہ دنوں دنیا بھر سے اس ایپ کو استعمال کرنے والوں کی تعداد 600 ملین سے تجاوز کرچکی ہے۔ آخر اس ایپلی کیشن میں ایسا کیا ہے جو لوگ اس کے اس قدر دیوانے ہورہے ہیں؟ اسی قبیل کی دیگر ایپلی کیشنز بھی موجود ہیں جنھیں وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی جو ٹک ٹاک کا خاصہ ہے۔ یہ ایک عام سی ایپلی کیشن ہے جس میں مختلف مکالموں یا گانوں پر (Lip Sync) ہونٹ ہلاتے ہوئے پرفارم کرنا ہوتا ہے۔

اس ایپلی کیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ آپ کو اپنا ٹیلنٹ دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے، جس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں۔ مکالموں یا گانوں پر ہونٹ ہلاتے ہوئے آپ اداکاری اور رقص کرسکتے ہیں، یا آپ کے پاس دیگر فنون لطیفہ سے متعلق کوئی بھی ہنر ہے تو وہ بھی آپ پندرہ سیکنڈ سے ایک منٹ کی ویڈیو بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ ایک بہت ہی سستے اور آسان طریقے سے گھر بیٹھے دنیا کو اپنے ٹیلنٹ سے آگاہ کرنا کس طرح غلط ہوسکتا ہے جبکہ آپ کے ملک میں نہ صرف مواقعوں اور سہولیات کی کمی ہے بلکہ ابھرنے والے ٹیلنٹ کو گلا گھونٹ کر، محبوس کرکے فنا ہونے پر مجبور کردیا جاتا ہے۔ ہماری حکومتوں نے نہ صرف قوم کو تعلیمی انحطاط کا شکار بنایا بلکہ اکثریت کو دانستہ پسماندہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں کسی خودساختہ طریقے سے اپنے ٹیلنٹ کی پذیرائی کروانے والوں کو روکنا ظلم کے مترادف ہی کہلا سکتا ہے۔

اب ذرا اس ایپلی کیشن کے ایک اور پہلو کا جائزہ لیجیے۔ یہ ایپلی کیشن اپنے استعمال کنندگان کو کمائی کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ یعنی اگر آپ میں ٹیلنٹ ہے اور آپ اس ایپ کے دیگر استعمال کرنے والوں کو ’’متوجہ‘‘ کرکے خود کو دیکھنے پر مجبور کرسکتے ہیں تو آپ اس ایپ سے اچھی خاصی رقم بھی کماسکتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ہی موجود معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ اس ایپ کے ٹاپ 10 یوزرز کی دو ہفتوں کی کمائی تقریباً 46 ہزار ڈالر ہے، بارک بیکر نامی ایک یوزر نے اپنی ابتدائی ایک درجن پرفارمنس سے تقریباً 30 ہزار ڈالر کمائے۔

یہ ہوشربا کمائی سرفہرست دس لوگوں کی ہے لیکن باقی افراد بھی پیچھے نہیں، ایک عام یوزر جو ایک ملین فین بنا کر گولڈن کراؤن کا حقدار ہوجاتا ہے اس کی ماہانہ کمائی بھی دو سے تین ہزار ڈالر ہوسکتی ہے، یعنی پاکستان روپے میں 2، 3 لاکھ روپے ماہانہ۔ ہمارا پڑوسی ملک جسے ہم ازلی حریف سمجھتے ہیں، میں بھی یہ ایپ بہت مقبول تھی، جہاں محض ’’چین سے دشمنی‘‘ کے باعث بند کردیا گیا۔

دنیا بھر کے کئی عام لوگوں نے اس ایپ کے ذریعے اپنا ٹیلنٹ دکھایا اور بعد ازاں وہ اپنے اپنے ممالک میں شوبز اور دیگر شعبہ جات کے اسٹارز بن گئے۔ ان عام لوگوں کی زندگی میں آنے والی اس بڑی تبدیلی کے پیچھے بھی ٹک ٹاک کا ہی ہاتھ ہے۔ پاکستان کے کئی ٹک ٹاکرز بھی اس ایپ کے باعث شہرت حاصل کرکے شوبز میں اپنی انٹری دے چکے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے آپ کے ملک میں کتنے ادارے ہیں جو آپ کے ٹیلنٹ کی پذیرائی کررہے ہیں، مواقع فراہم کررہے ہیں؟ جو چند ایک ادارے ہیں ان تک بھی کس طبقے اور کتنے افراد کی رسائی ہے؟ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے پاکستان کے کسی گمنام ٹیلنٹ کی خبر ملتی ہے، پھر اس خبر پر اپنا کاروبار چمکانے کے بعد حکومتی نمائندے، بااختیار افراد یہاں تک کہ خود میڈیا بھی اسے فراموش کرکے بے سہارا چھوڑ دیتے ہیں۔

اب بات کرتے ہیں اس ایپلی کیشن پر اعتراضات کی، یعنی فحاشی اور بے حیائی پھیلانے کی۔ اس امر سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہر چیز کا مثبت یا منفی ہونا اس کے استعمال کرنے والے کی ذاتی خواہش پر منحصر ہوتا ہے۔ جب میں نے اس ایپ کو استعمال کیا تو میرے سامنے کوئی ایسی ویڈیو نہیں آئی جسے فحش کا نام دے سکیں لیکن چونکہ اس موضوع پر خامہ فرسائی مقصود تھی اس لیے یوٹیوب پر بطور خاص تلاش کیا تو کچھ ویڈیوز سامنے آئیں جن میں ذو معنی اور بیہودہ مکالموں کا استعمال ہوا تھا۔ لیکن قابل افسوس بات ہے کہ وہ ذومعنی اور بیہودہ جملے پاکستان کے ہی اسٹیج ڈراموں سے لیے گئے تھے، یعنی یہ برائی خود پہلے ہی آپ کے معاشرے میں موجود تھی جس کا تدارک نہیں کیا گیا۔ جبکہ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا کے ڈراموں اور اشتہارات میں اس سے کہیں زیادہ کھلے جملے اور مناظر دکھائے جارہے ہیں، اس طرح ٹک ٹاک سے پہلے آپ کا میڈیا گرفت میں آنا چاہیے۔

جہاں تک سوال جوان لڑکے لڑکیوں کی اپنی ویڈیو بنانے اور خود کو عام کرنے کا ہے، اس کے بھی دیگر پہلوؤں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جس طرح آج کل والدین نے نوجوان نسل کو بے مہار چھوڑا ہوا ہے، موبائل کی صورت میں ایک فتنہ ان کے حوالے کر رکھا ہے، کیا آپ صرف ایک ایپ پر پابندی لگا کر ان سب خرافات کے نقصان سے بچ سکتے ہیں؟

دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ اس ایپ کی برائیاں انٹرنیٹ پر جن پلیٹ فارمز پر ہورہی ہیں، وہ خود معاشرے کی خرابی اور فحاشی کے بہت بڑے محرک ہیں۔ فیس بک اور یوٹیوب پر کیا آپ کو صرف اخلاقی باتیں ملتی ہیں؟ واٹس ایپ کی خامیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یعنی پھر تو ان تمام میڈیمز کو بھی ’’پابند‘‘ کردینا چاہیے، جبکہ فیس بک جیسا پلیٹ فارم نہ صرف بے مہار آزادی بلکہ انتشار، رانگ انفارمیشن اور سیاسی انارکی کا بھی باعث بن رہا ہے لیکن چونکہ حکومتی زعما اور سیاستدانوں کے اپنے مقاصد اس پلیٹ فارم سے جڑے ہیں اس لیے کوئی اسے بند کرنے کی بات نہیں کرتا۔

دوسری جانب انٹرنیٹ اور موبائل پر کئی غلط ویب سائٹس اور ایپلی کیشن موجود ہیں جو ڈیٹنگ اور جسم فروشی کا کاروبار کررہی ہیں، لیکن پاکستان میں اس کی طرف بھی کسی کی نظر نہیں۔ ہم نہ تو ٹک ٹاک کے شیدائی ہیں اور نہ ہی بے جا طرف داری کرنا چاہتے ہیں لیکن جو مدعا اٹھا کر اس ایپلی کیشن کو بار بار بند کرنے کی بات کی جارہی ہے اس سے پہلے بڑے محرکات کا خاتمہ ضروری ہے۔ سب سے بڑھ کر ملک سے ’’بے کاری‘‘ اور ’’فراغت‘‘ کا خاتمہ کیجئے۔ ملک میں موجود ٹیلنٹ کی قدر اور انھیں مواقع فراہم کیجئے۔ اگر نوجوانوں کے پاس مصروفیت کےلیے مثبت سرگرمیاں ہوں گی تو انھیں ٹک ٹاک تو کیا، کسی بھی ایپ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ لیکن جب تک ایسا نہیں ہورہا یہ ’’پابندی لگاؤ، پابندی ہٹاؤ‘‘ جیسے ڈراموں سے اجتناب کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

Shayan Tamseel

شایان تمثیل

بلاگر کوچہ صحافت کے پرانے مکین ہیں اور اپنے قلمی نام سے نفسیات وما بعد النفسیات کے موضوعات پر ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔ معاشرت، انسانی رویوں اور نفسانی الجھنوں جیسے پیچیدہ موضوعات پر زیادہ خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ صحافت اور ٹیچنگ کے علاوہ سوشل ورک میں بھی مصروف رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔