زمبابوین بچوں سے تو جیت جاتے

سلیم خالق  ہفتہ 24 اپريل 2021
اسے کوئی اتفاق یا تکا بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، پہلے میچ میں گرین شرٹس ہارتے ہارتے بچے تھے۔ فوٹو: فائل

اسے کوئی اتفاق یا تکا بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، پہلے میچ میں گرین شرٹس ہارتے ہارتے بچے تھے۔ فوٹو: فائل

آپ یہ کالم پڑھ رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ یقینی طور پر کرکٹ کے شوقین ہیں،اب ذرا ایک منٹ کیلیے رک جائیں اور آنکھیں بند کر لیں،پھردل ہی دل میں زمبابوے کے 11 نہیں صرف 5 کرکٹرز کے ہی نام سوچیں،مجھے یقین ہے کہ بیشتر افراد ایسا نہیں کر پائیں گے،رینکنگ میں 12 ویں پوزیشن کی حامل ٹیم کے بھی وہم و گمان میں نہیں ہوگا کہ وہ پاکستان جیسی سائیڈ جو کچھ عرصے قبل ہی نمبر ون تھی اسے ہرا دیں گے مگر ایسا ہوگیا۔

اسے کوئی اتفاق یا تکا بھی قرار نہیں دیا جا سکتا، پہلے میچ میں گرین شرٹس ہارتے ہارتے بچے تھے، اگر میزبان ٹیم کیچز ڈراپ نہ کرتی اور گراؤنڈ فیلڈنگ اچھی ہوتی تو یقیناً فتح مقدر بن جاتی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مشکل فتح سے پاکستانی کرکٹرز سبق سیکھتے اور زمبابوے کو آؤٹ کلاس کر دیتے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا،زمبابوے نے گذشتہ برس پاکستان کو ہوم گراؤنڈ پر ون ڈے میچ میں ہرا دیا تھا، اب مسلسل 15 شکستوں کے بعد ٹی ٹوئنٹی بھی پہلی بار جیت لیا، زمبابوے جیسی ٹیم برسوں میں کسی مضبوط حریف کیخلاف اپ سیٹ کرتی ہے،گرین شرٹس کا چند ماہ میں 2میچز ہارنا لمحہ فکریہ ہے۔

اس سے ہماری کرکٹ کی پستی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کارکردگی میں تسلسل نام کو موجود نہیں، چند روز قبل جنوبی افریقہ کیخلاف اس کی سرزمین پر 200 سے زائد کا ہدف عبور کر لیا، اب زمبابوے کیخلاف 119رنز نہ بن سکے اور 99پر اننگز کا اختتام ہو گیا، حالت کسی بظاہر ٹھیک نظر آنے والے مریض کے جیسی ہو گئی جو اچانک چلتے چلتے گر جاتا ہے، ایسا متواتر ہونے پر مکمل طبی معائنہ ہو تو کسی سنگین مرض کی ہی تشخیص ہوگی۔

ٹیم کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے، یہ درست ہے کہ جنوبی افریقہ میں بی یا سی ٹیم سے مقابلہ ہوا، ان کے اسٹار پلیئرز آئی پی ایل کھیلنے بھارت چلے گئے تھے، بعض انجری کے سبب باہر ہو گئے،اس کے باوجود پروٹیز ٹیم زمبابوے سے تو کافی بہتر ہی تھی، پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ ہمارے کرکٹرز کھیلنا ہی بھول گئے، کیا پچ پر کانٹے نکل آئے یا حریف ٹیم میں خطرناک فاسٹ بولرز یا اسپنرز موجود تھے،آخر کس چیز کا خوف تھا، میں نے کل بھی یہ نشاندہی کی تھی کہ ہماری ٹیم صرف 2 کرکٹرز بابر اعظم اور محمد رضوان کے سہارے چل رہی ہے۔

دونوں ناکام ہوئے تو جیتنا ممکن نہیں ہوتا، پہلے میچ میں بابر جلد آؤٹ ہوئے تو رضوان کی اننگز نے باعزت اسکور بنوایا، دوسرے میچ میں رضوان بڑی اننگز نہ کھیل پائے تو بابر پر دباؤ آ گیا اور وہ میچ فنش نہ کر پائے، بابر کیا سر ڈان بریڈ مین بھی کھیل رہے ہوں اگر دوسرے اینڈ سے سپورٹ نہ ملے تو بڑی اننگز کھیلنا آسان نہیں ہوتا، ساتھیوں کی سست بیٹنگ سے بابر بھی دباؤ میں آ گئے اور غلط شاٹ کھیل کر وکٹ گنوا دی، فخرزمان کو سلو پچ پر اندازہ نہیں ہوا کہ کیسا شاٹ کھیلنا ہے، وہ بھی جلد رخصت ہو گئے، حفیظ کی ناکامیوں کا سلسلہ دراز ہو رہا ہے، ویسے ہی پورا پاکستان کرکٹ بورڈ ان کیخلاف ہے، اگر ایسے موقع دیں گے تو باہر کر دیا جائے گا، حفیظ کچھ عرصے پہلے تک اچھی فارم میں تھے، امید ہے تیسرے میچ میں بڑی اننگز کھیلیں گے۔

جیسا کہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکا کہ اس ٹیم کی مڈل آرڈر بیٹنگ ہی موجود نہیں، دانش عزیز نے ٹھیک ہے ڈومیسٹک کرکٹ میں بعض اچھی اننگز کھیلی تھیں لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کا دباؤ جھیلنے میں وہ ناکام نظر آ رہے ہیں، انھیں کوٹہ سسٹم کے تحت اسکواڈ میں لیا گیا کہ کراچی کا کوئی کھلاڑی نہ ہوا تو وہاں کے لوگ شور مچائیں گے، اگر ایسا تھا تو آپ سرفراز احمد کو کھلا دیتے،اس وقت ٹیم میں جو پلیئرز کھیل رہے ہیں وہ بطور بیٹسمین بھی ان سے لاکھ درجے بہتر ثابت ہوتے، شکر ہے ’’ٹیلنٹیڈ‘‘ حیدر علی کی مسلسل ناکامیوں کے بعد مینجمنٹ نے انھیں باہر بٹھا دیا، مگر آصف علی کو نجانے کب تک کھلایا جاتا رہے گا، سمجھ نہیں آتا ان کے سر پر کس کا ہاتھ ہے، فہیم اشرف کو آل راؤنڈر کہناآل راؤنڈرز کی توہین ہے۔

وہ ایک میچ میں اچھی اننگزکھیلنے کے بعد اگلے کئی میچز میں کچھ نہیں کر پاتے، ٹیم کی بیٹنگ لائن دیکھ کر انضمام الحق کی یہ بات درست ہی لگتی ہے کہ ٹاپ تھری کے بعد ٹیل اینڈرز بیٹنگ کرتے محسوس ہوتے ہیں، ایسا کب تک چلے گا،یونس خان کس بات کے لاکھوں روپے ماہانہ لے رہے ہیں، کب تک بیٹنگ لائن ناکام رہے گی، دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں بولنگ اچھی رہی تو بیٹسمین کچھ نہ کر سکے، یہی ٹیم کا مسئلہ ہے، مگر افسوس پاکستان کرکٹ بورڈ کے بڑے چھٹیاں انجوائے کرنے میں لگے رہتے ہیں، ملک میں ان کا دل ہی نہیں لگتا، ان کا بس چلے تو قذافی اسٹیڈیم سے بورڈ کا ہیڈ کوارٹر بھی لندن لے جائیں۔

موجودہ بورڈ حکام کے دور میں بڑے بڑے مسائل سامنے آئے، اب یہ وقت آ گیا کہ ہم زمبابوین بچوں سے بھی ہار رہے ہیں، نجانے آگے کیا کچھ دیکھنے کو ملے گا، بولنگ کوچ وقار یونس تو خیر اس بار نجی مسئلے کی وجہ سے واپس گئے ہیں مگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو محسوس ہو گا کہ ان کا اب ٹیم کے ساتھ اتنا دل نہیں لگ رہا ہے،مصباح الحق کو بھی اس ناکامی نے دباؤ کا شکار کر دیا ہوگا۔

خیر ابھی ایک میچ باقی ہے اسے جیت کر سیریز اپنے نام کریں، اس سے شائقین کا کچھ تو غم غلط کیا جا سکے گا، البتہ میں آپ کو ابھی سے بتا دوں کہ ورلڈکپ میں اگر یہی اسکواڈ رہا تو زیادہ امیدیں نہیں لگائیے گا،محمد وسیم کو چاہیے کہ سوشل میڈیا کی دنیا سے باہر نکلیں، متوازن اسکواڈ تشکیل دیں جو حریفوں کا ڈٹ کر سامنا کر سکے،ابھی تو ایسا ہی ہے کہ کبھی کسی کوہرا دیا تو بورڈ مٹھائیاں بانٹنے لگتا ہے، ہار جائے تو خاموشی چھا جاتی ہے، دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے مگر سچی بات ہے کہ مجھے موجودہ بورڈ حکام کے دور میں کوئی بہتری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔