بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

زاویہ
مصنف: اشفاق احمد، قیمت:400 روپے، صفحات:228
ناشر:ٹی اینڈ ٹی پبلشرز، بینک کالونی، سمن آباد، لاہور(03004191687)


اشفاق احمد ایک بہت بڑے ادیب تو تھے ہی اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عجب طرح کے رہنما تھے جو آپ کے گھٹنے کے ساتھ گھٹنا جوڑ کر بڑی بے تکلفی سے باتیں کرتے چلے جاتے تھے، لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ آپ کو کسی خاص سمت کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔

وہ تو ایک بے تکلف دوست کی طرح خوشگوار انداز میں باتوں کے انبار لگاتے رہتے تھے، ان کی باتوں سے مردہ دلوں میں زندگی کی رمک پیدا ہو جاتی تھی، اندھیروں میں گویا چراغ جلنے لگتے تھے، ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے اٹھ بیٹھتے تھے اور عمل کی طرف لپکنے لگتے تھے، وہ ایک بہت بڑا مقناطیس تھے جو زنگ لگے لوہے کو اپنی طرف کھینچ کر اس میں بھی کشش پیدا کر دیتے تھے۔

انھوں نے اپنی زندگی میں زاویہ پروگرام شروع کیا تو اس کا مقصد ہی یہی تھا کہ نوجوانوں کو اپنے قریب کر کے انھیں انسانیت کا درس دیا جائے، انھیں بتایا جائے کہ انسان کیا ہوتا ہے، اس کا معاشرے میں کردار کیا ہے ، اس زندگی کو کیسے برتا جائے، وہ کوئی فلسفہ نہیں جھاڑتے تھے، بس عام سی باتیں عام سے انداز میں کرتے چلے جاتے تھے مگر ان کی وہ عام سی باتیں دل میں اترتی چلی جاتی تھیں ، یا یوں کہیں کہ بڑے بڑے فلسفہ دان بھی چونک کر متوجہ ہو جاتے تھے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ جیسے فرماتے ہیں

٭ پاکستان کا نوجوان خاص طور پر ایک آدمی اس کندھے کی تلاش میں ہے جس پر وہ اپنا سر رکھ کر اپنا دکھ بیان کر سکے۔٭ جس ماضی کا حال شاہد نہ ہو وہ ماضی جھوٹا ہے۔ ٭ دیے بغیر کام آگے نہیں چل سکتا اور جوں ہی دینے سے ہاتھ روکتے ہیں تو کہیں نہ کہیں اس کا اثر ضرور پڑتا ہے اور ویرانی اور بربادی کے سامان ضرور شروع ہو جاتے ہیں ۔

زاویہ پروگرام میں کی گئی قیمتی گفتگو زاویہ کے عنوان سے شائع کر کے انسانیت کی بہت بڑی خدمت کی گئی ہے۔ فکر کی روشنی حاصل کرنے کے لئے اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

تاریخ میر پور
مصنف:پروفیسر صلاح الدین، قیمت:1600 روپے، صفحات:716
ناشر:ادبستان، پاک ٹاور، سلطانی محلہ، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور(03004140207)


تاریخ کے پرت ماضی کی داستانیں بیان کرتے ہیں، مختلف علاقوں اور خطوں کے عروج و زوال کی کہانیاں سناتے ہیں۔ جن کے مطالعہ سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ پروفیسر صلاح الدین تاریخ کے پروفیسر رہے ہیں، ان کی ملازمت کا دورانیہ انھی علاقوں میں گزرا ، وہ کہتے ہیں کہ ان علاقوں کی قدامت اور اہمیت نے ان کے دل و دماغ میں راسخ کر دیا کہ وہ یہاں کی تاریخ ضرور رقم کریں گے۔

پروفیسر منیر احمد یزدانی کہتے ہیں ’’ آپ نے تاریخ میر پور کو ایک ایسی دستاویز بنا دیا ہے جس میں مختلف علاقوں کے اسفار کا احوال بھی ہے اور نادر اور نایاب کتب مخطوطات اور نقشوں کی مدد سے مستند حوالوں کے ساتھ نتائج اخذ کیے ہیں اور اپنا تجزیہ بھی شامل کر دیا ہے۔

تاریخ ہی کی مدد سے قوموں کے عروج و زوال کے اسباب گزشتہ اقوام کی تہذیب و ثقافت اور بودوباش سے آگہی حاصل ہوتی ہے اور قوم اپنے ماضی کو سامنے رکھ کر حال کو بہتر اور مستقبل کو روشن کر سکتی ہے ۔‘‘ پروفیسر ضیاء الرحمان قریشی کہتے ہیں ’’میاں صلاح الدین صاحب روایات کا تجزیہ کر کے مناسب نتیجہ اخذ کرنے کی اہلیت سے بہرہ مند ہیں، آپ کا شمار ان ہی اصحاب دانش میں ہوتا ہے جو متعارض تاریخی مواد کا علمی و منطقی تجزیہ کر کے درست نتائج تک رہنمائی کر سکتے ہیں ۔

زیر نظر کتاب جس تحقیقی معیار کے مطابق مرتب کی گئی ہے یہ پی ایچ ڈی کے معیار کے حامل مقالوں سے زیادہ وقیع کام ہے۔ ‘‘ کتاب سولہ ابواب پر مشتمل ہے، ہر باب کے آخر میں حواشی بھی دیئے ہیں۔ آخر میں چار ضمیمے بھی شامل کئے گئے ہیں ۔ تاریخ کے طالبعلوں کو بالخصوص مطالعہ کرنا چاہیے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

مجبور آوازیں
مصنف: کے ایل گابا، نظر ثانی: ڈاکٹر عرفان احمد خان، قیمت:1000روپے
صفحات:271، ناشر:ٹی اینڈ ٹی پبلشرز، بنک کالونی سمن آباد، لاہور (03004191687)


کے ایل گابا ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کا نام کنہیا لال گابا تھا ، مگر وہ بعد میں مسلمان ہو گئے اور انھوں نے اپنا نام خالد لطیف گابا رکھ لیا ۔ ان کا شمار ہندوستان کے بڑے خاندانی سیاستدانوں میں رہا ہے، وہ ایک نامور وکیل بھی تھے ۔ تقسیم برصغیر کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں پر جو کچھ بیت رہی ہے انھوں نے بڑے دلگیر انداز میں تمام حقائق بیان کئے ہیں اور بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے اس کے جمہوری چہرے سے نقاب نوچ کر دنیا کو اس کا اصل چہرہ دکھایا ہے، انڈیا میں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے لے آئے ہیں ۔

نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کہتے ہیں’’ حقیقت یہ کہ انھوں نے اپنی اس کتاب میں مسلمانوں کی حالت زار ، ان کے خلاف سیاسی و معاشی تعصب ، ان پر چھوٹے چھوٹے بہانے سے بہیمانہ حملے اور قتل و غارت گری کی تفصیل بیان کی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے یہی کہا تھا کہ ’’ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں مسلمان نہیں رہے گا اور پاکستان میں اسلام نہیں رہے گا‘‘ یہ بات انھوں نے شورش کاشمیری کو ایک انٹرویو میں بتلائی تھی ، وہ آج حقیقت ہے۔

ہندوستان میں جو مسلمان ہیں وہ دن رات خوف سے ڈرتے رہتے ہیں کہ انتہا پسند ہندو کوئی بہانہ بنا کر ان پر حملہ نہ کر دیں ۔گابا نے اسلام قبول کر کے انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی یہ سوچ کر باہر سے یہ پارٹی لبرل یعنی اعتدال پسند نظر آتی تھی اور گاندھی ، نہرو وغیرہ نے مسلمانوں کو اور غیر ملکی عوام کو یہ دھوکا دے رکھا تھا کہ یہ لوگ بہت نرم مزاج اور اعتدال پسند ہیں جو بالکل جھوٹ تھا۔‘‘ بھارت جیسے انتہا پسند ملک کا شہری ہوتے ہوئے اقلیتوں پر ڈھائے جانے مظالم کا پردہ چاک کرنا انتہائی مشکل کام ہے، اس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔ بھارت کے بارے میں نرم رویہ رکھنے والوں کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ وہ بھارت کے اصل چہرے سے آشنا ہو سکیں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

گلہائے سرخ
مصنف: وقاص قاسم، قیمت:500 روپے، صفحات:128
ناشر: ٹی اینڈ ٹی پبلشرز، بنک کالونی، سمن آباد، لاہور (03004191687)


ناول ، ناولٹ، کہانی، افسانہ یہ سب ادب کی ایسی اصناف ہیں جن میں ادیب استعارے کا سہارا لے کر اپنے مشاہدات کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کر تا ہے ۔ ان سب ہی اصناف کو قبول عام حاصل ہے کیونکہ ادباء نے ہر صنف میں بڑی خوبصورت تحریریں عوام تک پہنچائی ہیں ۔ مگر افسانے کو ان اصناف پر آج کے دور میں اس لئے تھوڑی فوقیت حاصل ہے کیونکہ اس میں ادیب مختصراً اپنی بات کہتا ہے یوں آج کے مصروف قاری کو اسے پڑھنے میں آسانی رہتی ہے۔ افسانہ نشتر کی طرح ہوتا ہے جو معاشرے کے رستے ناسوروں کی چیڑ پھاڑ کرتا ہے اس لئے اس سے کراہت بھی محسوس ہوتی ہے مگر اس کی یہی خوبی اسے دوسری اصناف ادب سے نمایاں کرتی ہے ۔ مصنف نے بھی معاشرے کو نشتر کی چھبن دکھائی ہے ۔

ڈاکٹر عرفان احمد خان کہتے ہیں ’’ لوگ افسانہ لکھنے والوں کو کہتے ہیں کہ تم تو افسانوی باتیں کرتے ہو یعنی غیر حقیقی ۔ وہ منٹو جسے کسی زمانے میں چھپ چھپ کر پڑھا جاتا تھا اب سچائی کی علامت بن کر نئی نسل کا بھی بدستور ہیرو ہے ۔

وقاص قاسم بھی منٹو کی ادبی برتری تسلیم کرنے والا افسانہ نگار تو ضرور ہے لیکن اس نے منٹو سے بالکل ہٹ کر اپنی ایک الگ ہی راہ نکالی ہے ۔ منٹو کے افسانے زیادہ تر امرتسر ، دلی اور بمبئی کے پس منظر میں تھے، تھوڑا بہت ذکر کشمیر اور لاہور کا بھی رہا ۔ وقاص قاسم کی تو آنول نال لاہور شہر میں گڑی ہے وہ اب لاہور سے باہر کہاں جائے گا ۔ ہر تخلیق کار اپنے مزاج کے مطابق لکھنے کے لیے اپنا میدان منتخب کرتا ہے، جب کہ یہ زمانہ افسانے کا نہیں رہا لیکن وقاص قاسم نے اپنی تخلیقی اپچ کے لیے افسانے ہی کو منتخب کیا ۔ باد مخالف میں اڑنا بھی اپنی جگہ لائق داد ہے۔‘‘ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

شاداب چہرہ اور خوبصورت جلد
تحقیق و تالیف: ڈاکٹر اختر احمد، محمد شفیق، قیمت:1000روپے، صفحات:224
ناشر: ٹی اینڈ ٹی پبلشرز، بینک کالونی، سمن آباد، لاہور (03004191687)


صحت بہت بڑی نعمت ہے اس کا احساس تب ہی ہوتا ہے جب کوئی فرد کسی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ صحت کے ساتھ خوبصورتی بھی اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، انسان کی خوبصورتی میں شاداب چہرہ اور نرم و ملائم صحت مند جلد کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس لئے حسین اور خوبصورت نظر آنے کے لئے صحت مند جلد کا ہونا بھی ضروری ہے۔

مصنف نے اسی اہمیت کے پیش نظر یہ کتاب رقم کی ہے تاکہ آسانی سے جلد کی حفاظت کی جا سکے۔ اس کتاب میں ایسے طریقے بتائے گئے ہیں جن پر عمل کر کے ہر عمر کا فرد ہشاش بشاش اور فرحاں نظر آ سکتا ہے، اس کا شاداب چہرہ دوسروں کے باعث کشش ہو گا ۔ بعض جلدی عوارض کا آسان علاج بھی بتایا گیا ہے ۔ ویسے تو یہ کتاب ہر عمر کے فرد کے لئے ہے مگر خواتین کو بالخصوص اس کتاب کو اپنے پاس رکھنا چاہیے تاکہ وہ ہر ماہ ہزاروں روپے بیوٹی پارلر میں خرچ کرنے سے بچی رہیں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

انسائیکلو پیڈیا مانسہرہ
مصنف : سراج احمد تنولی، قیمت :1000 روپے
ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل، یثرب کالونی، بینک سٹاپ، والٹن روڈ، لاہور، 03000515101


زیرنظرکتاب کا عنوان ہی اس کا مکمل تعارف ہے۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو کسی بھی انسائیکلوپیڈیا میں ہوتا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کے بقول سراج احمد تنولی نے اپنی مٹی کا قرض ادا کیا ہے، اگر اس کتاب نے مستنصرحسین تارڑ جیسے بڑے ادیب اور سفرنامہ نگار کی معلومات میں اضافہ کیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ یہ انسائیکلوپیڈیا خاصے کی چیز ہے۔

اس میں سب سے پہلے مانسہرہ کی تاریخ بیان کی گئی ہے، جس میں ترکوں کا راج ، سکھوں کی آمد ، سواتیوںکی حکمرانی، برطانوی راج کے عنوانات سے ابواب شامل ہیں۔ اس کے بعد ضلع مانسہرہ کا تعارف کرایا گیا ہے، اس کی تحصیلوں کا مفصل ذکر کیا گیا ہے۔ جھیل سیف الملوک سے وابستہ رومانوی داستان بھی شامل کی گئی ہے جو نہایت پرلطف ہے۔

بعدازاں جامع ہزارہ، ضلع مانسہرہ کی معدنیات ، مانسہرہ کی تاریخی عمارات اور آثارقدیمہ ، اولیائے مانسہرہ اور ان کے مزارات کا ذکر ہے۔ صاحبان تصنیف ادباء، علماء ، مشائخ ، شعراء پر الگ الگ باب باندھے گئے ہیں۔

یہ کتاب پڑھ کر مانسہرہ والے فخر کریں گے جبکہ پاکستان کے دیگر لوگ اس خوبصورت ، پرفضا مقام کی طرف سفر کریں گے ۔یقیناً یہ کتاب سیاحوں کے لئے زادراہ ثابت ہوگی۔ ( تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)

Reflections on the Justice System of Pakistan
مصنف: ڈاکٹر ضیاء اللہ رانجھا ، ناشر: پاکستان لاء ہائوس، کراچی


کسی بھی ملک یا معاشرے میں نظام انصاف کی اہمیت کیا ہوتی ہے، یہ جاننے کے لیے کسی شخص کا عالم فاضل ہونا ضروری نہیں۔ حضرت علیؓ کے اس فرمان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے، لیکن ظلم کا نہیں۔ عربی میں ظلم کا مطلب ہے: ایک چیز کو اپنے محل کے بجائے، دوسری جگہ پر رکھنا۔ اور یہ عدل کی ضد ہے، جس کے معنی برابر کرنے کے ہیں۔

یعنی جس معاشرے میں عدل و انصاف کا نظام برائے نام یا کمزور ہو، وہاں ظلم و جبر کا چلن عام ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان کے نظام انصاف کو دیکھا جائے، جس میں فوری اور سستا انصاف ملنا بہت مشکل ہے، تو وطن عزیز میں لاقانونیت اور ناانصافی کی وجہ فوراً سمجھ آ جاتی ہے۔ یہ صورتحال قائم رہے تو ریاست اور شہریوں کے مابین تعلق کمزور ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ پاکستان کے نظام انصاف میں ہمہ جہت اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔
مصنف، ڈاکٹر ضیاء اللہ رانجھا، ماہر قانون اور سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ ہیں۔ زیرنظر کتاب میں مختلف ذیلی عنوانات کے تحت ان کے کالموں کو یکجا کیا گیا ہے، جو گزشتہ کچھ برسوں میں مختلف قابل ذکر انگریزی روزناموں اور جرائد میں شائع ہوئے۔ انہوں نے تواتر کے ساتھ اس نظام انصاف کے بارے میں لکھا ہے، جس کا براہ راست تعلق عام شہری کو بروقت اور سستے انصاف کی فراہمی سے ہے۔ قانون کی معیاری تعلیم سے وکلاء کی تربیت، بار کونسلز اور عدلیہ میں اصلاحات سے پیشہ ورانہ اخلاقیات تک، ہر موضوع پر انہوں نے تفصیل کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔

یہ شاید اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے جس میں ہمارے نظام انصاف کے تقریباً تمام پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مصنف نے صرف مسائل کی نشاندھی نہیں کی، بلکہ ان کے حل کا بہترین راستہ بھی تجویز کیا ہے۔ نظام انصاف کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے یہ کتاب وکلاء، منصفوں اور حکومت کو دعوت فکر دیتی ہے۔ڈاکٹر ضیاء اللہ رانجھا نے ترقی یافتہ ممالک کے نظام انصاف کو قریب سے دیکھا اور اپنی تحریروں کی مدد سے وہ وطن عزیز میں یہی نظام قائم کرنے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔

اس تردد میں پڑے بغیر کہ ان کی باتوں پر کتنا عمل ہو رہا ہے، وہ ایک ثابت قدمی کے ساتھ اپنی آواز بلند کیے جا رہے ہیں۔ ان سے سیکھنے والی ایک اور بات یہ ہے کہ تنقید کا اسلوب کیا ہونا چاہیے، اور کسی بھی شعبے کی بہتری کے لیے کس انداز میں آپ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں تنقید برائے تنقید نہیں، بلکہ عام شہری، اپنی پیشہ ورانہ برادری اور ملکی اداروں کے لیے خیر خواہی کا جذبہ پایا جاتا ہے۔ ایسے افراد کسی بھی شعبے کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کے نظام انصاف سے وابستہ افراد، بالخصوص نوجوان وکلاء کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ صفحات 286 اور قیمت 1200 روپے درج ہے۔

فلسفہ مغرب
مصنف: ظفر سپل،ناشر: بک ہوم لاہور،0301-4568820


فلسفے کی تاریخ کا مطالعہ اتنا سہل اور دلچسپ بھی ہو سکتا ہے، اس کا احساس ظفر سپل کی تصنیف ’’فلسفہ مغرب‘‘ پڑھ کر ہوتا ہے۔ ظفر سپل اوائل عمری سے ہی ادب و شاعری سے لگائو رکھتے تھے۔ زمانہ طالب علمی میں فلسفے کے مطالعے کا ایسا جنون سر پر سوار ہوا کہ شاعری، افسانہ سب چھوٹ گیا۔

20 سال قبل ’’فنون‘‘ جیسے موقر جریدے میں فلسفے پر پہلا مضمون شائع ہوا، جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان دو دہائیوں میں انہوں نے یونانی فلسفے سے ہم عصر مغربی فلسفے تک، فلسفے کی قریباً ڈھائی ہزار سالہ تاریخ قلمبند کی، جو اردو میں فلسفے کی تاریخ پر پہلا باضابطہ اور طبع زاد کام ہے۔ ’’ورثہ دانش یونان‘‘ (فلسفہ یونان) اور ’’مسلم فلسفے کا تاریخی ارتقاء‘‘ (مسلم فلسفہ) ان کی دیگر کتب ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ظفر سپل نے زرعی انجینئرنگ کی تعلیم امتیازی کامیابی کے ساتھ حاصل کی اور اس شعبے کی ایک بڑی کمپنی سے وابستہ ہیں۔

لیکن فلسفے پر ان کی گرفت کو قاضی جاوید، محمد کاظم اور محمد ارشاد جیسے علماء نے تسلیم کیا۔ جیسا کہ قاضی جاوید نے کتاب کے دیباچے میں لکھا، ’’۔معروف اردو ادبی جریدوں میں تاریخ فلسفہ کے موضوع پر ان کے متفرق مضامین شائع ہوئے اور کمال کے مضامین شائع ہوئے۔ فلسفے پر ان کے مضامین کا آج بھی بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے۔‘‘ زیرنظر کتاب میں دور متکلمین سے جدید مغربی فلسفے تک نمایاں فلسفیوں کے احوال زندگی اور فکر و فلسفے کو رواں اور سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

تین ہم عصر جدید فلسفیانہ تحریکوں نتائجیت، منطقی اثباتیت اور وجودیت کا جائزہ بھی شامل ہے۔ اختصار اور جامعیت کتاب کی جان ہیں، مصنف خوب جانتے ہیں کہ کون سی بات کس طرح اور کتنی کہنی ہے، جس نے کتاب کو بہت زیادہ خواندنی (highly readable) بنا دیا ہے۔ کہنے کو مصنف کے 20 سال کی کمائی ’’صرف‘‘ تین کتابیں ہیں، لیکن ان کو پڑھ کر ہی ان کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ یقیناً ہم اردو پڑھنے والوں کو مصنف کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ کتاب کے صفحات 240 اور قیمت 1200 روپے درج ہے۔n ( تبصرہ نگار: حسان خالد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔