عالمی ضمیر سے پاکستان کا سوال

اسرائیل کا قیام جبر کے بل بوتے پر ہوا، دس سالہ فلسطینی بچی نے جو کام کیا، تمام حکومتیں شاید مل کر نہ کر سکتیں۔


Editorial May 19, 2021
اسرائیل کا قیام جبر کے بل بوتے پر ہوا، دس سالہ فلسطینی بچی نے جو کام کیا، تمام حکومتیں شاید مل کر نہ کر سکتیں۔ فوٹو: فائل

SRINAGAR/NEW DELHI: سپریم و بالادست پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا جس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتیں فلسطین کے مسئلہ اور اسرائیلی بربریت پر ایک پیج پر نظر آ رہی ہیں، مگر ظلم کی یہ داستان ادھوری نہیں رہنی چاہیے، ملت اسلامیہ کا مشن مکمل ہونا شرط ہے۔

قومی اسمبلی اور دوسری طرف مسلم امہ ایک بڑے سوال کو اٹھا رہی ہے اور وہ اسرائیلی جارحیت، بربریت پر نوحہ خواں ہے، القدس، غزہ اور عالم اسلام میں اسرائیل کے خلاف جس بنیاد پر اجتماعی فیصلہ کی جانب قدم بڑھانے کا مسئلہ زیر بحث ہے وہ اسرائیل کی طرف سے عالم اسلام کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کی دیدہ دلیری کا ہے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس اس سوال پر ہے کہ اسرائیل سے عالم اسلام کس بنیاد پر مزاحمت کی اس جنگ کا حساب لے گا، کیا اس اسرائیلی جارحیت کے سوال پر مسلم امہ ارض فلسطین کا حساب بے باق کرنے کا اپنا لائحہ عمل پیش کر سکے گی، کیا قومی اسمبلی اس بار اسرائیل سے اپنی عددی مسابقت، سیاسی و تزویراتی اور سیاسی کشمکش کو ''ونس فار آل'' دنیا کے سامنے رکھنے کا تہیہ کر چکی ہے۔

قوم اس عالمگیر اسلامی منظر نامہ کی اصل حقیقت کو عالم اسلام کے مستحکم فیصلہ کی شکل میں واضح کرے جب کہ غیر مبہم شکل میں ملت اسلامیہ کے ایک طے شدہ مستحکم فیصلہ کے طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین کے روبرو یہ کہہ کر پیش کرے کہ عالم اسلام کا یہ مشترکہ و متفقہ فیصلہ ہے۔

اہل پاکستان دنیا بھر کے مسلم رہنماؤں اور انسانیت کے علم برداروں، انسانی حقوق کے رہنماؤں اور سپر پاورز کے ضمیر کے سامنے فلسطین کیس کو ایک ٹیسٹ کیس کی صورت پیش کرے، کسی لیت و لعل اور سیاسی تاویل، توضیح اور دفاعی انداز تخاطب کی گنجائش کے بغیر عالمی ضمیر سے فلسطینیوں اور بیت المقدس کے دینی اور ملی سوال کو عالمی برادری کے چنیدہ اذہان اور سیاسی دانش کے سپرد کیا جائے، ہمارے منتخب نمایندے جب ایوان سے اقوام متحدہ کو دو ٹوک انداز میں فلسطین کے مظلوم عوام کی جانب سے یہ پوچھنا چاہیں گے کہ اسرائیل کو اس ظلم و بربریت کی اجازت کس نے دی ہے۔

اس کی تونگری کو کس نے پشت پناہی مہیا کی ہے اور امریکا سمیت دنیا بھر کے طاقتور اور صنعتی طور پر مستحکم ممالک اسرائیلی بربریت کو روکنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں، کیا وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سیز فائر کے فیصلہ میں تاخیر کا سامان مہیا کرنے والی طاقتوں سے فیصلہ کن مکالمہ پر زور نہیں دے رہی، تو انھیں سوالوں کے جواب مل جانے چاہئیں، اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے، جنگ بندی ناگزیر ہے، دو قومی ریاست اب ضروری ہے، داخلی سیاسی کشمکش میں بھی حکومت دل کشادہ رکھے، سیاسی مفاہمت سے کام لے، اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر بھی فلسطین، غزہ اور قبلہ اول کے کاز کو ہر شے پر فوقیت ملنی چاہیے۔

یہ خوش آیند پیش رفت ہے کہ مسئلہ فلسطین پر حکومت اور اپوزیشن ایک ہوگئیں، قومی اسمبلی کے اجلاس میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیلی بربریت کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کر لی گئی جس میں فلسطینیوں کے لیے آزاد اور خود مختار ریاست جب کہ سلامتی کونسل سے اسرائیلی جارحیت رکوانے کا مطالبہ کیا گیا۔

پیر کو اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر اسد قیصر نے اجلاس فلسطین کے نام کرنے کا اعلان کیا۔ مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے معمول کا ایجنڈا معطل کرنے کی قرارداد پیش کی، جسے منظور کر لیا گیا۔ بعدازاں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے خطاب میں کہا میں آج حکومتی چیرہ دستیوں اور اپوزیشن کے خلاف ظلم کا ذکر نہیں کروں گا، اسرائیل کی بدترین سفاکی زوروں پر ہے۔

ماضی میں فاشسٹ ہٹلر جہاں تھا، آج وہاں نیتن یاہو کھڑا ہے۔ غزہ میں الجزیرہ چینل کی عمارت کو گرتے سب نے دیکھا۔ انھوں نے اوسلو معاہدے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ یاسر عرفات، منہام بیگن کو نوبل پرائز ملے لیکن آزاد فلسطین کا قیام آج تک نہ ہو سکا، کشمیر کی طرح فلسطین کی قراردادوں کو بھی ٹھکرا دیا گیا۔

وہاں قتل عام اسلامی دنیا کے لیے پیغام ہے، ایسی حرکت کوئی اسلامی ملک کرتا تو عالمی طاقتیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی نہ رہتیں بلکہ فوری پابندیاں اور جنگ مسلط کر دی جاتی، آج عالمی میڈیا خاموش ہے، اس کی زبان کو تالے لگ گئے ہیں۔ شہباز شریف نے جمعہ کو یوم القدس منانے اور حکومت سے کشمیر اور فلسطین کا مقدمہ لڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا اسرائیلی فوج 1948سے نہتے فلسطینیوں پر ظلم کر رہی ہے، مشرقی یروشلم میں انتہا پسند یہودیوں نے مارچ کیا، عالمی طاقتیں کہاں ہیں؟ کیا فلسطینیوں کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں، اگر اس معاملے پر کمزوری دکھائی گئی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم پرویز اشرف نے کہا وزیر اعظم عمران خان کو آج کے اجلاس میں شریک ہونا چاہیے تھا، ہمیں قراردادوں سے آگے سوچنا چاہیے، عملی قدم کون اٹھائے گا؟ وزیر اعظم کو عوامی امنگوں کی ترجمانی کرنا چاہیے تھی۔

اسرائیل کا قیام جبر کے بل بوتے پر ہوا، دس سالہ فلسطینی بچی نے جو کام کیا، تمام حکومتیں شاید مل کر نہ کر سکتیں۔ قومی اسمبلی میں سامنے لائے جانے والے سارے سوالات قوم کی روح کی گہرائی سے اٹھنے والے سوالات ہیں، اسرائیل برسہا برس سے عالم اسلام کے دل میں پھنسا ہوا ایک کانٹا ہے، ایک ناسور ہے اسے اس خیال سے بھی نکالنے کی خلش اور تمنا ہر مسلمان کے دل میں ہونی چاہیے کہ قبلہ اول کی طرف اسرائیل کے ناپاک قدم آیندہ نہ بڑھیں۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے21 مئی کو فلسطینیوں کا دن منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا قوم ان کے ساتھ پرامن اور شائستہ طریقے سے اظہار یکجہتی کرے۔ پاکستان وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں قائدانہ کردار ادا کریگا، اسرائیلی مظالم کے خلاف ترکی کے ساتھ اقوام متحدہ جانے کا فیصلہ کیا ہے، وہاں بھرپور آواز اٹھائیں گے، پہلی ذمے داری فلسطین میں جنگ بندی کرانا ہے، چین کی قیادت کو خراج تحسین کہ اس نے سلامتی کونسل کو یکجا کرنے کی کوشش کی، تمام ارکان قائل ہو چکے تھے لیکن امریکا نے ویٹو کرکے رکاوٹ ڈالی، وہ فوری جنگ بندی کرا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا وعدہ ہے مسئلہ فلسطین اور کشمیر پر آنچ نہیں آنے دیں گے، راستے کٹھن اور عالمی دنیا کا دہرا معیار لیکن سچائی میں بڑا وزن ہوتا ہے، اپنا موقف دو ٹوک الفاظ میں پیش کر دیا۔ اس موقعے پر انھوں نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کی قرارداد پیش کی جو متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔

اے پی پی کے مطابق شاہ محمود قریشی نے پالیسی بیان میں کہا قبلہ اول پر حملہ اسلام پر حملہ ہے، اب عالم اسلام کی آزمائش کا وقت ہے، وزیر اعظم عمران خان اور مہاتیر محمد کے درمیان اس معاملے پر بات چیت ہوئی، میں نے چین، مصر، سعودی عرب، فلسطین، افغانستان اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ سے تفصیلی بات کی، ملائیشیا کے وزیر خارجہ سے بھی بات ہوگی۔ او آئی سی فورم سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بلانے کی درخواست کی جائے گی۔ پاکستان، ترکی، سوڈان اور فلسطین کے وزرائے خارجہ اس سلسلے میں نیویارک کا دورہ کریں گے۔

انھوں نے کہا افغانستان کے حالات بھی نازک کروٹ لینے والے ہیں، ہماری خواہش امن کی ہے، افغان صدر اشرف غنی سے سوال ہے ایک طرف آپ پاکستان سے مدد طلب کرتے ہیں، دوسری طرف آپ کے کارندے پاکستان کے اداروں کو نشانہ بناتے ہیں، واضح کریں، کیا چاہتے ہیں؟ ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی بولے پاکستان اسلام کے نام پر جب کہ اسرائیل، اسلام کے خلاف بنا، پاکستان کو عالم اسلام کا ماڈل بننا تھا، ہم نے منڈی بنا دیا، اگر ضمیر مردہ ہو تو زبان بوجھ ہوتی ہے، عالمی کے بجائے قومی ضمیر جگانے کی ضرورت ہے، قوم کے دل سے اندیشہ نکال دینا چاہیے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں پر ہونے والے حملوں کو روکنے اور اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کے لیے اقدامات کرے، اسرائیلی بمباری سے خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 200 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور شہر کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے۔

انھوں نے گزشتہ روز سلامتی کونسل کی اوپن وڈیو کانفرنس میں اسرائیل، فلسطین کے علاقہ غزہ اور مقبوضہ بیت المقدس کے مشرقی حصے میں بڑھتی ہوئی حالیہ کشیدگی پر اپنے خطاب میں کہا کہ سلامتی کونسل القدس الشریف کو فلسطین کا دارالحکومت اور 1967سے قبل آزاد سرحدوں کے ساتھ قابل عمل اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فلسطین اور اسرائیل کے دو ریاستی حل پر مکمل نفاذ کو فروغ دے۔

انھوں نے کہا کہ ہم خطے میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پس منظر میں سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے چارٹر کے مطابق اپنی ذمے داریوں کو پورا کرتے ہوئے فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت، طاقت کے بے جا استعمال کو فوری طور پر روکنے، فلسطینیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور فلسطینی شہریوں کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے حق، مذہبی آزادی، آزادانہ نقل و حرکت اور پرامن اجتماع سمیت اسرائیل کو انسانی حقوق کے قوانین اور بین الاقوامی انسانی حقوق پر عملدرآمد کرنے کے لیے یقینی اقدامات کرے اور اسرائیل کو مقبوضہ بیت المقدس کی حیثیت تبدیل کرنے اور یہودی بستیوں سمیت غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات سے فوری روکے۔

منیر اکرم نے کہا کہ ہم اسرائیل کی جانب سے رمضان المبارک کے دوران فلسطین کے مقدس مذہبی مقامات مسجد الاقصیٰ اور حرم الشریف میں عبادت کرنے والے فلسطینی شہریوں کے خلاف کیے جانے والے منظم اور سوچے سمجھے حملوں، مقدس مقامات کے تقدس کی پامالی، غیر قانونی یہودی بستیوں میں توسیع، فلسطینی شہریوں کو زبردستی ان کے گھروں سے نکالنے اور ان کے گھروں کو مسمار کرنے اور مقبوضہ بیت المقدس میں بین الاقوامی میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں پر حملوں کی مذمت کرتے ہیں اور اسرائیل کے یہ اقدامات ناقابل قبول اور بین الاقوامی قوانین کے اصولوں کے منافی ہیں۔

اسرائیلی بربریت کے نئے درد انگیز منظرنامہ میں ہمارے اکابرین سیاست اور مسلم امہ کے دانشوروں، علمائے کرام اور مورخین و سیاسی مفکرین کو علامہ اقبال کا یہ شعر ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے جو درجنوں سیاسی تقاریر، بیانات اور جلسے جلوسوں پر بھاری بھی ہے اور فلسطین اور بیت المقدس کو آزاد کرانے کے کہنہ و فرسودہ بیانیہ کا جواب بھی۔ قوم کو اسرائیلی بربریت کے خلاف ایک عملی پروگرام کی ضرورت ہے۔ شعر یہ ہے۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

مقبول خبریں