سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 27 جون 2021
آج لکھنے اور بولنے والوں کی مصلحتیں اور کچھ ’وقت کے تقاضے‘ اور مجبوریاں طرح طرح کے رنگ و روپ اختیار کر چکی ہیں۔فوٹو : فائل

آج لکھنے اور بولنے والوں کی مصلحتیں اور کچھ ’وقت کے تقاضے‘ اور مجبوریاں طرح طرح کے رنگ و روپ اختیار کر چکی ہیں۔فوٹو : فائل

کراچی: ہمارے خوف زدہ بچپن کی کچھ سہمی سہمی سی یادیں!

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

یہ بات بالکل درست ہے کہ آپ کسی کو بھی درست یا غلط سمجھتے ہوں اور آج آپ کا موقف کچھ بھی ہو، لیکن اگر آپ کراچی واسی ہیں، تو آپ 19 جون 1992ء کے واقعات سے سرسری بالکل بھی نہیں گزر سکتے۔۔۔ چوں کہ آج لکھنے اور بولنے والوں کی مصلحتیں اور کچھ ’وقت کے تقاضے‘ اور مجبوریاں طرح طرح کے رنگ و روپ اختیار کر چکی ہیں، جب کہ اس ’سانحے‘ کو تین دَہائیں تمام ہونے کو ہیں، اس لیے تاریخی طور پر یہ اور بھی ضروری ہے کہ آج کے نوعمروں، نوجوانوں اور بچوں کو کراچی کی تاریخ کے اِس اہم ترین واقعے کی خیر خبر پہنچائی جائے، اگر وہ باشعور ہیں، تو صحیح غلط کا فیصلہ خود ہی کر لیں گے۔۔۔

یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہم شہرقائد کی ایک ایسی بستی کے مکین رہے، کہ جو 1992ء کے اس خوں آشام دور میں شہر کے دیگر علاقوں کی طرح اس طرح متاثر نہ ہوئی، البتہ ہڑتالیں پورے شہر کی طرح یہاں بھی ہوتی تھیں، ہماری مِٹی مِٹی سی یادداشت میں آج بھی 1992ء کے اِس خوف کی پرچھائیں موجود ہے۔۔۔

1992ء ہی وہ برس تھا، جب پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ کا فاتح ہوا۔ یہ کیسا اتفاق ہے کہ پاکستان کا بین الاقوامی ڈائلنگ کوڈ بھی 92 ہی ہے اور ہمارے اسکول میں ’’کے جی‘‘ میں داخلے کا برس بھی 1992ء ہے۔۔۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ اسی برس کراچی میں ایک ریاستی آپریشن بھی شروع ہوا، تب ہم تو بچے تھے، اور نہیں جانتے تھے کہ آپریشن کیا بَلا ہوتی ہے۔ ہمیں تو بس اتنا یاد ہے کہ ہماری کالونی کے دونوں داخلی راستوں پر دروازے کے لوہے کے دیو قامت دروازے نصب تھے، جن کے دونوں کواڑوں کے نیچے ایک پہیا لگا ہوا ہوتا تھا اور زمین پر اس پہیے کے لیے اس آہنی دروازے کے ’زاویے‘ پر بنی ہوئی ایک لوہے کی ’پٹری‘ تھی، جس کے ذریعے یہ قوی ہیکل دروازہ کھلتا اور بند ہوتا ہوگا، لیکن ہمیں یہ ہمیشہ کھلا ہوا ہی یاد ہے۔۔۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ یہ دروازے نکال دیے گئے تھے اور یہ برسوں تک ہمارے گھر کے پچھلی طرف کے خالی پلاٹ پر پڑے رہے تھے۔۔۔

1992ء سے کراچی میں جبر وتشدد اور سیاسی تصادم کا ایک ایسا خوف ناک اور بھیانک دور شروع ہوا، جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔۔۔ اگرچہ ہمارا محلہ ایسے کسی بھی جبر وتشدد سے لگ بھگ محفوظ ہی رہا، لیکن یہاں کے مکین تو اپنے روزگار کے لیے شہر کی طرف جاتے تھے اور یہی وہ دور تھا، جب تک کام کاج کو گئے ہوئے افراد گھروں کو نہیں لوٹتے تھے، گھر والے ایک سولی پر لٹکے رہتے تھے۔۔۔ ذرا سی دیر ہو جائے، تو دلوں میں ہول اٹھنے لگتے تھے۔

برے برے خیالات، وسوسے آنے لگتے تھے، موبائل تو شاذونادر ہی کسی کے پاس ہوتا تھا، بس لائن والے فون سے خیر خبر لینے کی کوشش ہوتی تھی، لیکن اگر آنے والے راستے میں ہیں، تو بس پھر دل قابو میں رکھنا مشکل ہوتا تھا۔۔۔ لبوں پر دعائیں فریاد بنی رہتیں، مائیں اپنے بیٹوں کی بہ خیر وعافیت واپسی کے لیے نوافل مان لیتی تھیں۔۔۔ کتنی ہی سہاگنیں اپنے سہاگ کے واسطے کیا کیا مَنّتیں مانتی تھیں، یہ فقط وہی جانتی ہیں۔۔۔ ہمیں بھی یاد ہے کہ گلی نمبر چھے میں واقعے اپنے پرانے گھر میں ہم بھی اپنے ابو کے انتظار میں اکثر ایسی اذیت میں مبتلا ہوتے تھے۔۔۔

گھر پہنچنے کا وقت بیتا جاتا اور ابو گھر نہ لوٹتے، تو بس پھر ایک ایک منٹ پہاڑ ہو جاتا، امی پریشان ہو کر گھر کی ’ڈیوڑھی‘ میں آکھڑی ہوتیں، ہم بے قرار ہو کر گلی کے نکڑ پر جا کر اسٹاپ کی سمت دیکھتے رہتے۔۔۔ کبھی بے قرار ہو کر کچھ گلیاں پار کرتے ہوئے آگے تک بھی چلے جاتے۔۔۔ پھر جیسے ہی ابو کا چہرہ نظر آتا تھا، گویا دل مضطرب کی دھڑکنوں کو ایک عجیب قرار سا آجاتا، لیکن یہ کراچی والوں کے نصیب میں تو روز کا ایک کشٹ لکھ دیا گیا تھا۔۔۔ تب ہم نہیں جانتے تھے کہ اس شہر کے بہت سے بدنصیب بچے ایسے بھی تھے کہ جن کے بابا گھر نہیں لوٹ پاتے، ہمیشہ کے لیے بچھڑ جاتے، لاپتا ہو جاتے، کبھی دنوں بعد ’خبر‘ ملتی اور کبھی بہت دنوں بعد بھی نہیں ملتی۔۔۔!

بہرحال، ابو کے گھر لوٹتے ہی امی شُکر ادا کرتیں اور گھر کی خاموش اور پُرفکر ماحول اگلے دن تک کے لیے ایک اطمینان میں ڈھل جاتا۔۔۔ پھر ابو گھر آکر اَنگنائی میں لگے ہوئے بیسن پر بہت ڈھیر سارے صابن سے اپنے میلے ہاتھ دھوتے اور بہت دیر تک گاڑھا گاڑھا میل کچیل صاف کرتے تھے اور ساتھ ساتھ اپنی تاخیر کا سبب بھی بتاتے جاتے، ہم ان کے پاس ہی کھڑے ہوئے سارے دن کی ہنگامہ خیزی سنتے رہتے، جو ان کے کام کے نشیب وفراز کے ساتھ شہر کے حالات کی بھی کچھ نہ کچھ خبر دیتی تھی۔۔۔ اس وقت خبروں کا معتبر ذریعہ یہی ’سینہ گزٹ‘ ہوتا تھا کہ لانڈھی اور کورنگی سے کوئی ملا۔

اس نے بپتا سنا دی ، تو اورنگی ٹاؤن اور لیاقت آباد سے کوئی آیا تو وہاں کی کوئی آنکھوں دیکھی سنا دی۔۔۔ صبح کے اخبارات سے کراچی کی خبروں کی تشنگی دور نہ ہوتی تھی اور شام کے سبھی اخبارات اگرچہ ’کراچی نامہ‘ ہوتے تھے، لیکن عام تاثر یہ تھا کہ اس میں خبروں کو بڑھا چڑھا کر لکھا جاتا ہے، کبھی سہ پہر اور شام کے بعد گلیوں میں اخبارات کے ’ضمیمے‘ بھی دھاڑنے لگتے تھے۔۔۔ گلیوں میں اخبار والے کے ’سیپلیمنٹ، سیپلیمنٹ!‘ کی پُکار کسی ’صورِ قیامت‘ سے کم نہ ہوتی تھیں، لوگ جگر تھام لیتے، ایک دوڑ لگتی کہ پتا تو چلے کہ اب شہر پر کون سا نیا ستم ٹوٹا ہے۔۔۔ تب جمعے کی چھٹی ہوتی تھی۔

محلے کی جامع مسجد سے ہر نمازِ جمعہ کے بعد دبلے پتلے سے اخبار فروش علی بھائی اپنی سائیکل پر شام کے اخبارات نکال نکال کر سجاتے جاتے۔۔۔ اور سرخیوں سے مَن چاہے اور جستہ جستہ فقرے اخذ کر کے آوازیں بھی لگاتے جاتے۔۔۔ نمازیوں کا جمِ غفیر شام کے کوئی نصف درجن سے زائد اخبارات میں سے چاہے کوئی نہ خریدیں، لیکن اس کی شہ سرخیوں پر ضرور نظر ڈالتے جاتے تھے۔۔۔

ہم بات کر رہے تھے سینہ بہ سینہ چلنے والے ’سینہ گزٹ‘ کی۔۔۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک رات کو کھانا کھاتے ہوئے ابو بتا رہے تھے کہ ’’لوگوں نے الطاف حسین کی تصویر کو جوتیاں ماری ہیں۔۔۔!‘‘ تب ہماری سمجھ میں نہیں آیا تھا اور ہم نے پوچھا بھی تھا کہ ’ابو، ایسا کیوں کیا اور یہ تصویر کو جوتیاں مارنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟‘ ظاہر ہے یہ ’ایم کیو ایم‘ کے منحرف دھڑے ’حقیقی‘ کے ظہور کا واقعہ تھا۔۔۔

کھانے کے بعد اکثر رات کو ایک سرگرمی ریڈیو کا اینٹینا نکال کر اور بڑی مہارت سے اِس کی سوئی پھِرا کر ’بی بی سی‘ کی خبریں سننا ہوتی تھی، کیوں کہ سرکاری ریڈیو اور ٹی وی سوائے حکومتی سرگرمیوں کے کچھ نہ ہوتا تھا اور اپنے شہر کراچی کی خبروں کے لیے ہمیں سمندر پار ’لندن‘ میں واقع ’بی بی سی‘ پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔۔۔ جس میں کراچی میں فائرنگ اور تشدد کے واقعات میں مرنے والوں کے تذکرے ضرور شامل ہوتے تھے۔

ایک بار تو خبروں کے دوران گولیاں چلنے کی آوازیں بھی سنا دی گئی تھیں، جس پر ابو نے کافی حیرت کا اظہار بھی کیا تھا کہ آج تو انھوں نے فائرنگ کی آواز بھی سنا دی! تبھی ہمارے ذہن میں یہ خیال بھی پیدا ہوتا تھا کہ خبریں دراصل خراب حالات کے سبب سنائی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ جب امن قائم ہوگا، تو خبرنامے میں سنانے کو کیا ہوا کرے گا۔۔۔ قدرت نے اس سوال کا جواب ہمیں اس طرح دیا کہ ہمیں خود خبروں کی اِس دنیا میں دھکیل دیا اور اب ہمیں اچھی طرح سب خبریں سمجھ میں آگئی ہیں اور ہم اب خود ایک صحافی بن کر اپنے اس خوف زدہ بچپن کی سہمی ہوئی یادوں کو آپ تک پہنچا رہے ہیں۔

۔۔۔

جرمن خاتون اردو پروگرام سنتی تھیں
آصف جیلانی
مجھے ’بی بی سی‘ کے پروگرام ’سیربین‘ کی بے پناہ مقبولیت کا احساس اس وقت ہوا، جب میں 1994ء میں برلن میں شارلٹن برگ کی ایک گلی سے گزر رہا تھا۔ میں نے اوپر ایک فلیٹ سے سیربین کی معروف ’ٹیون‘ کی آواز سنی، جو ستیہ جیت رے کی فلم پاتر پنچلی میں روی شنکر کی موسیقی کے ایک ٹکرے سے لی گئی تھی۔

’سیربین‘ کی یہ شناختی موسیقی سنتے ہی میں بے ساختہ اوپر گیا اور فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ دیکھا تو سامنے ایک نوجوان جرمن خاتون کھڑی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ ’بی بی سی‘ کا پروگرام ’سیربین‘ سن رہی تھیں۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’جی ہاں۔ ہم ہی سن رہے تھے۔ اور ہم ہر شام کو یہ پروگرام بلا ناغہ سنتے ہیں جناب۔ بہت اچھا ہوتا ہے یہ پروگرام اور دنیا بھر کی خبروں سے ہم باخبر رہتے ہیں۔‘‘ میں نے پوچھا کہ آپ نے یہ اتنی اچھی اردو کہاں سیکھی۔ کہنے لگیں۔ ’’ہم کئی برس پہلے سیتا پور (اتر پردیش) میں بیاہے تھے اور وہیں ہم نے اردو سیکھی، بہت پیاری زبان ہے۔‘‘ یہ سن کر مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر ہے اور میر کا یہ شعر دیر تک میرے ذہن میں گونجتا رہا؎

گلیوں میں اب تلک تو مذکور ہے ہمارا
افسانۂ محبت مشہور ہے ہمارا

۔۔۔

کورونا کی ویکسین
حبا رحمن، کراچی
دو سال ہونے کو ہیں، کورونا کی وبا ہے کہ ہماری جان ہی نہیں چھوڑ رہی، کبھی حالات بہتر ہونے لگتے ہیں، تو کبھی اتنے بگڑ جاتے ہیں کہ دوبارہ سے بندشیں عائد ہونے لگتی ہیں۔ گھر سے باہر نکلنے سے بھی ڈر لگتا ہے، لیکن ایک امید کی کرن پوری دنیا میں دکھائی دی اور اس کا نام ’انسداد کورونا ویکسین‘ ہے، جو اب پاکستان میں بھی لگائی جا رہی ہے۔

پہلے لوگ اس پر پریشان تھے کہ حکومت کورونا کا کچھ نہیں کر رہی، اب وہ ’ویکسین‘ کے حوالے سے شکوک وشبہات کا شکار ہو رہے ہیں۔ کچھ ایسی جھوٹی سچی باتیں بھی پھیل جاتی ہیں، جس سے ڈانواڈول ہونے والے پھسل جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ویکسین کے حوالے سے ایک مسئلہ بین الاقوامی سطح پر جو سامنے آیا ہے، وہ ایک دوسرے کی ویکسین قبول نہ کرنا ہے، جیسے یورپ، امریکا اور سعودی عرب میں چین اور روس وغیرہ کی ویکسین پر اعتماد نہیں کیا جا رہا، ایسے میں لوگوں کی پریشانی واقعی درست ہے کہ وہ کیا کریں۔ ایک ویکسین لگوا لیں، مگر بیرون ملک جانا ہوا اور وہاں یہ قبول نہ ہوئی تو پھر کیا دوسری ویکسین لگوائیں؟ کیا اس کے مضر اثرات یا نقصانات تو نہیں ہوں گے؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب حکومتِ وقت کو فوری دینا چاہیے۔

اس کے ساتھ ویکسین لگوانے کے بعد طبیعت خراب ہونے کی اطلاعات بھی تواتر سے سامنے آرہی ہیں۔ حکومت کو اس معاملے کی بھی اچھی طرح دیکھ بھال کرلینی چاہیے۔ لوگ اور زیادہ پریشان اس لیے ہو رہے ہیں کہ حکومت نے یہ اعلان کیا ہے کہ جو ویکسین نہیں لگوائے گا اور اپنے سرٹیفکیٹس جہاں وہ کام کرتا ہے، جمع نہی کروائے گا، تو اس کو تنخواہ نہیں ملے گی۔ اب جہاں ’سائنوفارم‘ نہیں ہے اور باقی ویکسین ہیں، ادھر کے لوگ کافی پریشان ہیں، لیکن ایک طرح سے حکومت کا یہ فیصلہ اچھا بھی ہے کیوں کہ لوگ جس طرح باہر گھوم پھر رہے ہیں، شاید اس ڈر سے ویکسین لگوالیں اور تھوڑے عرصے بعد حالات بہتر ہو جائیں۔

۔۔۔

ایک اُلّو دیکھ لینا تمام اُلّوؤں کو دیکھنے کے مترادف ہے
شفیق الرحمن
اُلّو بردبار اور دانش مند ہے، لیکن پھر الو ہے۔ وہ کھنڈروں میں رہتا ہے، لیکن کھنڈر بننے کی وجوہات اور ہوتی ہیں۔ الو کا ذکر پرانے بادشاہوں نے اپنے روزنامچوں میں اکثر کیا ہے، لیکن اس سے اُلّو کی پوزیشن بہتر نہیں ہو سکی۔ اُلّو کی بیس، بائیس قسمیں بتائی جاتی ہیں۔ میرے خیال میں پانچ چھے قسمیں کافی ہوتیں۔ ویسے اُلّوئوں کی عادتیں آپس میں اس قدر ملتی جلتی ہیں کہ ایک الو کو دیکھ لینا تمام اُلّوئوں کو دیکھ لینے کے مترادف ہے۔ اُلّو کو وہی پسند کر سکتا ہے، جو فطرت کا ضرورت سے زیادہ مداح ہو۔ روزمرہ کے اُلّو کو ’بُوم‘ کہا جاتا ہے۔

اس سے بڑے کو چغد۔ چغد سے بڑا اُلّو ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔ پالتو اُلّو وہ لوگ رکھتے ہیں، جو اس قسم کی چیزوں کو پالنے کے عادی ہوں۔ اُلّو کی شکل و صورت میں اصلاح کی بہت گنجائش ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک اُلّو دوسرے اُلّو کو کیوں کر بھا جاتا ہے۔ دن بھر اُلّو آرام کرتا ہے اور رات بھر ہُو ہُو کرتا ہے۔ اس میں کیا مصلحت پوشیدہ ہے؟ میرا قیاس اتنا ہی صحیح ہو سکتا ہے، جتنا کہ آپ کا! لوگوں کا خیال ہے کہ اُلّو تُو ہی تُو کا وظیفہ پڑھتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو ان خود پسندوں سے ہزار درجہ بہتر ہے جو ہر وقت ’’میں ہی میں‘‘ کا وِرد کرتے رہتے ہیں۔

۔۔۔

اچانک حملہ
احمد ندیم قاسمی
اس وقت دنیا میں اچانک حملے کے صرف دو عالمی چیمپئن موجود ہیں۔ ایک ہندوستان اور دوسرا اسرائیل مگر اسرائیل ایک تو ہندوستان کی سرحدوں سے بہت دور ہے اور پھر اسرائیل کے ساتھ تو ہندوستان کی بہت گاڑھی چھن رہی ہے۔ اس لیے اسرائیل سے تو اسے کوئی خطرہ نہیں ہے، مگر بہرحال اسے اچانک حملے کا خطرہ تو ہے۔

وجہ یہ ہے کہ اسے خود اپنے آپ سے خطرہ ہے کہ کہیں وہ کسی پر اچانک حملہ نہ کر بیٹھے۔ خود لال بہادر شاستری نے 1965ء میں پاکستان پر اچانک حملے کا یہ جواز پیش کیا تھا کہ ہمیں خطرہ تھا کہ کہیں پاکستان ہم پر اچانک حملہ نہ کر دے۔ اس لیے ہم نے اس پر اچانک حملہ کردیا۔

بہرحال یہ ہے سبب اس اچانک حملے کے خطرے کا جس کا اظہار ہندوستان کے وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں کیا ہے اور بتایا ہے کہ دشمن ملکوں کی سرحدوں پر ہندوستانی فوج چوکس کھڑی ہے۔ یوں سردار صاحب نے بھول پن میں یہ راز فاش کر دیا ہے کہ ہندوستان کے پڑوسیوں پر کسی وقت بھی اچانک حملہ کیا جا سکتا ہے، تاکہ ان کو اچانک حملے کا موقع نہ مل سکے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔