سابق سینئر ترین بیورو کریٹ کی فکر انگیز کتاب

تنویر قیصر شاہد  پير 28 جون 2021
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

’’سر، قانون چاہے کچھ بھی کہے، شہادت چاہے کسی بات کو ثابت کر رہی ہو، مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ آپ رشوت لینے پر یقین نہیں رکھتے ۔ سر، ایک بات کہوں؟ آپ رشوت کے لین دین کو اتنا بُرا نہ سمجھیں ۔ سر، یہ رشوت لینا ایک فن ہے۔

بس آپ یوں سمجھ لیں کہ زہر سے بھرا ایک کوبرا سانپ ہے جو اپنا پھن پھیلائے جھوم رہا ہے اور اُس کے پھن پر ایک نوٹ رکھا ہُوا ہے۔ یہ نوٹ اُٹھا لینا ایک آرٹ ہے … رشوت لینا ایک ایڈونچر ہے ۔ اس ایڈونچر میں خطرات شامل ہیں ۔جو لوگ خطروں سے کھیلنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتے ہوں، آج کل کے زمانے میں صرف وہی رشوت نہیں لیتے ۔‘‘

یہ الفاظ ہمارے سماج پر تلوار کی طرح کاری ضرب لگانے والے ظفر محمود کے معرکہ خیز افسانے ’’رشوت‘‘ سے لیے گئے ہیں ۔ جناب ظفر محمود کے 10تازہ ترین اور ذہن کشا افسانوں کے مجموعے ’’دائروں کے درمیاں‘‘ نے مجھے حیرت اور عجب کشمکش میں مبتلا کررکھا ہے ۔ یہ مجموعہ کچھ عرصہ قبل شایع ہُوا تھا اور افسانہ نگار نے اپنے دستخطوں کے ساتھ مجھے تحفتاً عنایت فرمایا تھا۔

پڑھ تو مَیں نے اُسی وقت لیا تھا لیکن اس پر ریویو کا حوصلہ نہیں ہورہا تھا کہ ان افسانوں کی معنویت اور بُنت اسقدر حساس اور پیچیدہ ہے کہ پہلے مطالعہ میں اس پر تبصرہ کرنا کم از کم مجھ ایسے ہیچ مداں کے لیے ممکن نہیں تھا۔ موصوف کی دیگر تین کتابیں بھی تفصیلاً میری نظر سے گزر چکی ہیں۔ دو نان فکشن ہیں اور ایک فکشن۔ کئی سال قبل جب انھوں نے اپنا دلکشا ناولٹ ’’23 دن ‘‘ لکھا تھا، اسے پڑھ کر بھی دل کی ویسی ہی کیفیت ہُوئی تھی جیسے اب ’’دائروں کے درمیاں‘‘ دوبارہ پڑھ کر ہو رہی ہے۔ بلکہ پہلے سے سوا ۔

جناب ظفر محمود ایک ذہین، حساس دل رکھنے والے اور اپنے افکار میں غلطاں شخص ہیں۔ پاکستان، برطانیہ اور امریکا کے ممتاز اور موقر اداروں سے اعلیٰ تعلیم کے کئی مراحل کامیابی سے طے کیے۔ پاکستان میں مقابلے کا امتحان پاس کیا تو ڈی جی ایم گروپ میں شامل کیے گئے۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے عہدے نبھاتے نبھاتے پاکستان کی اعلیٰ ترین وفاقی بیوروکریسی کے آخری گریڈ کی افسری کے کئی اعلیٰ اور متنوع مناظر دیکھے ۔ ٹیکسٹائل، کامرس، پٹرولیم، کابینہ، انڈسٹری اور وزارتِ پانی و بجلی کے وفاقی سیکریٹری رہے ۔

اس دوران وہ استنبول میں پاکستان کے قونصل جنرل کی حیثیت میں بھی وطن کی خدمت انجام دیتے رہے ۔ ریٹائر ہُوئے تو انھیں پہلے پنجاب پبلک سروس کمیشن کا چیئرمین منتخب کیا گیا اور بعد ازاں انھیں واپڈا کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ راقم انھیں اُس وقت سے جاننے پہچاننے کا دعویٰ رکھتا ہے جب وہ پنجاب میں سیکریٹری ایجوکیشن تھے ۔ جب وہ اسلام آباد میں مختلف وزارتوں کے وفاقی سیکریٹری نامزد کیے گئے ، تب بھی اُن سے شناسائی رہی اور جب وہ ’’واپڈا‘‘ کے چیئرمین بنائے گئے ، تب بھی اُن سے تعلق خاطر رہا۔ اتنے برسوں پر پھیلی شناسائی کی بنیاد پر راقم دعویٰ کر سکتا ہے کہ ظفر محمود نے سرکار کے اعلیٰ ترین ملازم ہونے کے باوجود اپنا دامن کسی بھی آلائش سے داغدار نہ ہونے دیا۔

اس کی انھیں سزا بھی ملی ، یوں کہ وہ اصول اور قانون کا پرچم بلند کرنے کے جرم میں حکامِ بالا کے احکامات پر کئی بار ’’او ایس ڈی ‘‘ بنا کر کھڈے لائن لگائے گئے لیکن وہ کسی کے سامنے شکوہ کناں ہُوئے نہ اپنی اصول پسند زندگی کے بارے میں ڈینگیں مارتے پائے گئے۔ بس یوں کیا کہ او ایس ڈی کے دلفگار اور حوصلہ شکن ایام میں قلم و قرطاس سے ناتہ مزید مضبوط بنا لیا۔

جناب ظفر محمود کی قلم و قرطاس سے جو گہری محبت و رغبت ہے ، فقط یہی رشتہ اُن سے قربت کی وجہ ہے ۔ سیاسی و بیوروکریسی کے حکامِ بالا کے نزلہ گرنے پر وہ جب جب اوایس ڈی بنائے گئے ، قارئین کو ایک نئی ادبی کتاب تحفے میں دے گئے۔ یوں ہم اُن کے اور حکومتِ وقت کے شکر گزار ہیں کہ او ایس ڈی بنائے جانے کا عذاب ہم قارئین کے لیے نعمتِ عظمیٰ ثابت ہُوا ۔

ایسا مگر نہیں ہے کہ وہ او ایس ڈی بنائے جانے کے ظلم کو آسانی سے برداشت کر گئے ۔ اُن کے حساس ادیبانہ دل نے اُن جذبات و احساسات کو افسانے کی شکل میں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا جو جذبات و احساسات اُن کے دل و دماغ کو کچل رہے تھے ۔ ’’دائروں کے درمیاں‘‘ مجموعہ میں اُن کا درد انگیز افسانہ ’’ او ایس ڈی‘‘ اِنہی جذبات و تجربات کی کتھا ہے جو بیکاری کے ایام میں ایک اعلیٰ ترین افسر کے دل پر آری کی طرح گزرتے ہیں ۔وہ اس افسانے میں ہمیں بتاتے ہیں کہ جب کوئی بیوروکریٹ ’’او ایس ڈی ‘‘ بنا دیا جاتا ہے تو محبت کا دَم بھرنے والے اُس کے واقف کار بارسوخ صحافی بھی اُس سے کنّی کترانا شروع کر دیتے ہیں ۔ رشتہ داروں، بیوی اوراولاد کا رویہ بھی سرد مہر ہو جاتا ہے اور بیورو کریٹ کو او ایس ڈی کا ایک نیا مطلب یوں نکالنا پڑتا ہے :’’ آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی نہیں،بلکہ آفیسر فار سرچنگ ڈیوٹی ۔ او ایس ڈی تو ایک یتیم بچے کی مانند ہوتا ہے ۔ ہر کسی کا او ایس ڈی بننے والے شخص کے ساتھ سلوک فیض احمد فیض کے مصرعے جیسا ہو جاتا ہے : ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد۔او ایس ڈی بننا تو اسی طرح ہے جیسے کمپنی دیوالیہ ہو جانے پر اُس کے شراکت دار بھی قلاش ہو جاتے ہیں۔‘‘

یہ الفاظ ظفر محمود ایسا حساس قلمکار ہی لکھ سکتا ہے ۔ شاید یہ افسانہ ہڈ بیتی بن کر اُن سب سینئر بیوروکریٹوں کے خیالات کا ترجمان بن گیا ہے جو بغیر کسی وجہ کے ، اچانک ایک روز سفاک حکامِ بالا کے حکم پر او ایس ڈی بنا دیے جاتے ہیں۔سینئر بیوروکریٹوں اور مقتدر سیاستدانوں، خاص طور پر وزیروں، کے درمیان اختیارات کی جو جنگ اور کشمکش رہتی ہے ، ظفر محمود صاحب نے نہایت مشاقی سے ان مناظر کی بھی کئی جگہ نقش نگاری کی ہے ۔ اُن کے افسانوں کو اگر کوئی ڈرامائی تشکیل دینا چاہے تو یہ ڈرامے ہمارے سماجی رویوں کی حقیقی تصویر پیش کر سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر ظفر محمود کا افسانہ ’’لاؤڈ اسپیکر۔‘‘ اِس آلہ مکبر الصوت کے بارے میں افسانہ نگار نے بچ بچا کراور قلم کی طنابیں کھینچ کر وہ سب باتیں کہہ ڈالی ہیں جو ہم زیر لب کہنے کی بھی شاید جرأت نہیں رکھتے ۔وہ آزمائش کے اس دریا کو مگر ایک منجھے ہُوئے تیراک کی طرح عبور کر گئے ہیں۔

اُن کی دانش اور فہم کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ ہمارے سوشل فیبرک کو منافقت نے جس وحشت سے مسل اور کچل کررکھ دیا ہے ، ظفر محمود کے افسانوں کے مجموعہ ’’دائروں کے درمیاں‘‘ میں اس کی بازگشت ہر صفحہ پر سنائی دیتی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے افسانہ نگارکو شدتِ احساس نے بھنبھوڑ کررکھ دیا ہے ۔ مثال کے طور پر اُن کا افسانہ ’’پھپھوندی۔‘‘ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے اپنے ظاہر کی چادر کے نیچے اپنے گھناؤنے باطن کو فنکاری سے چھپا تو رکھا ہے لیکن ایک روز اُس کے کردار کا ملمع اتر جاتا ہے۔یہاں افسانہ نگار کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ بہت دنوں بعد دلکشا افسانوں کا کوئی مجموعہ ہاتھ لگا ہے ۔ ظفر محمود صاحب کو اس فنکاری پر مبارکباد ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔