ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سدِباب (حصہ دوم)

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی  جمعـء 16 جولائی 2021
تابکاری کے شکار وائرس کو ہم بطور ویکسین بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

تابکاری کے شکار وائرس کو ہم بطور ویکسین بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پچھلے مضمون میں ہم نے جینوم کی نقول کی تیاری کے عمل کے دوران پیدا ہونے والی میوٹیشنز کا ذکر کیا تھا۔ میوٹیشنز محض غلط تحریر کے باعث ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی اور عوامل ہیں جو کہ ہم ہوں یا وائرس، کسی بھی جاندار کے جینوم میں موجود معلومات میں تبدیلیاں کرواتے ہیں۔ آج ہم نہ صرف ان عوامل کے بارے میں جانیں گے بلکہ پروف ریڈنگ کی صلاحیت جو کہ وائرسوں کے علاوہ باقی تقریباً تمام ہی جانداروں میں پائی جاتی ہے، اس پر بھی گفتگو کریں گے۔

بلاگ کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھیے: میوٹیشنز، کورونا وائرس اور ڈارون

جیسا کہ پچھلی بار ہم نے جانا تھا کہ ہمارے جینوم میں ہونے والی تبدیلیاں یا میوٹیشنز ہر وقت ہورہی ہوتی ہیں۔ انسانوں اور باقی کے تمام جانداروں (جن میں کچھ وائرس بھی شامل ہیں، جیسے ہیپاٹائٹس بی اور پولیو وغیرہ) کا جینوم ڈی این اے نامی مالیکیول پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ کچھ وائرس (مثلاً انفلوئنزا، ایڈز، ہیپاٹائٹس سی اور ڈینگی وغیرہ) ایسے ہیں جن کا جینوم آر این اے مالیکیول کا بنا ہوا ہوتا ہے۔ ان دونوں مالیکیولز کی کیمیائی ترکیب بہت معمولی سے فرق کے ساتھ ایک ہی ہے اور ان کا کام بھی بالکل ایک جیسا ہے۔ مجموعی طور پر ڈی این اے کی ایک دوسرے پر لپٹی ہوئی دو لڑیاں ہوتی ہیں جبکہ آر این اے میں صرف ایک ہی لڑی ہوتی ہے، جیسا کہ آپ تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

 

اس مضمون میں اب میں ڈی این اے اور آر این اے کے بجائے صرف جینوم کی اصطلاح استعمال کروں گا، جس سے مراد یہ دونوں ہی ہوں گے۔ جیسا کہ ہم جان چکے ہیں کے جینوم میں تبدیلیاں موٹیشنز کہلاتی ہیں اور ان کا اثر ان کے حامل جانداروں پر پڑتا ہے۔ ان تبدیلیوں کے کئی مختلف عوامل ہوتے ہیں جن میں سرفہرست: سورج کی روشنی میں موجود الٹراوائیلٹ شعاعیں، سگریٹ کے دھوئیں میں شامل کینسر کا باعث بننے والے اجزا، ہمارے اپنے جسم میں پیدا ہونے والے کچھ کیمیائی عناصر، تابکاری، اور تو اور بعض صورتوں میں کچھ مخصوص جراثیم اور وائرس بھی ہمارے جینوم کے دشمن واقع ہوتے ہیں۔

ان تمام عوامل و عناصر کو عمومی طور پر دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ اول وہ تمام عناصر جو کہ ہمارے جسم کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور دوم بیرونی عناصر۔ ان میں زیادہ تر کے خلاف ہمارے جسم کے خلیات میں مدافعت کی صلاحیت ہوتی ہے، یعنی یہ ہمارے جینوم میں کوئی تبدیلی کرنے سے پہلے ہی ٹھکانے لگادیے جاتے ہیں، لیکن کبھی کبھار یہ عناصر خلیات کی مدافعت پر حاوی ہوکر ہمارے جینوم میں من مانی تبدیلیاں کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں جینوم کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت اور اس کو اصلی حالت میں بحال کرنے کی صلاحیت بھی ہمارے خلیات کو حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس مرمت اور بحالی کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور اگر پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ ہو تو پھر مرمت بھی کام نہیں آتی۔

اس حد کو جاننے سے پہلے نقصان کی نوعیت اور اقسام کو سمجھ لیتے ہیں۔ کسی بھی جاندار کے جینوم کو دو طرح کا نقصان ہوسکتا ہے، اگر جینوم کو ایک کتاب یا فائل تصور کرلیا جائے تو ان دونوں اقسام کو سمجھنا نہایت آسان ہوجائے گا۔ جینوم کو فائل یا کتاب سمجھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ فائل کے اندر موجود الفاظ اور تحریر کو ہمارے جینوم میں موجود جینز اور دیگر جنیاتی معلومات سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔

تصور کیجئے کہ آپ اپنے دفتر سے کوئی ضروری فائل کچھ مزید کام کرنے کےلیے گھر لے کر آتے ہیں، اور آپ کی غیر موجودگی میں یہ فائل بچوں کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس فائل کو دو طرح سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پہلی صورت تو یہ کہ کوئی اس فائل کی تحریر میں تحریف کردے یعنی بچوں نے پنسل پکڑ کر اس کے صفحات پہ پوری آرٹ گیلری بنا ڈالی ہو، جگہ جگہ ایبسٹریکٹ Abstract آرٹ کے نمونے تو کہیں کارٹون اور شکلیں، لکھی ہوئی تحریر کا حلیہ ہی بگاڑ دیں گی۔ اگرچہ فائل اپنی جگہ موجود ہے مگر اب اس کے اندر موجود معلومات آپ کے کسی کام کی نہیں رہی، جب تک کہ آپ ربڑ کی مدد سے آرٹ کے ان تمام گراں قدر نمونوں کو مٹا نہ دیں۔ الٹراوائیلٹ شعاعیں اور ہمارے جسم میں پیدا ہونے والے کچھ کیمیکلز ہمارے جینوم کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں کہ وہ ہماری جینز میں موجود معلومات میں خلل ڈال کر انھیں پڑھنے کے قابل نہیں رہنے دیتے ہیں۔

اس قسم کے نقصان کے ازالے کےلیے تین قسم کے نظام ہمارے خلیات میں پائے جاتے ہیں۔ انہیں بیس ایکسیژن ریپئیر Base Excision Repair، نیکلئوٹائیڈ ایکسیژن ریپئیر Nucleotide Excision Repair، اور مس میچ ریپئیر Miss Match Repair کہتے ہیں۔ یہاں ان کی زیادہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، لیکن اختصار کے ساتھ یہ جان لیجئے کہ ہمارے خلیات میں کچھ پروٹینز ایسے ہوتے ہیں جو کہ جینوم کا ہر وقت مشاہدہ کرتے رہتے ہیں اور اس میں نظر آنے والی کسی بھی تبدیلی کو فوری طور پر رپورٹ کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کے نتیجے میں اوپر بتائے گئے ریپئیر سسٹمز میں سے متعلقہ سسٹم فوری طور پر حرکت میں آتا ہے اور جینوم میں موجود غلطی یا تبدیلی والے حصے کو قینچی کی طرح سے کاٹ کر دوبارہ سے ٹھیک کردیتا ہے۔

یہی بنیادی طور پر وہ پروف ریڈنگ کی صلاحیت ہے جسے ہم نے پچھلے بلاگ میں پڑھا تھا۔ جب بھی کوئی خلیہ تقسیم ہوکر دو نئے خلیے بناتا ہے تو وہ اپنے جینوم کی دو کاپیاں تیار کرتا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ تقسیم ہو، ان تیارشدہ کاپیوں کی پروف ریڈنگ کےلیے یہ ریپئیر سسٹمز حرکت میں آتے ہیں اور انھیں جہاں جہاں کوئی غلطی یا سقم نظر آتا ہے یہ اسے ٹھیک کرتے چلے جاتے ہیں۔

یہ تو تھی پہلے قسم کی غلطی، اب دوسری قسم کے نقصان کو سمجھنے کےلیے آپ کو دوبارہ دفتر سے ایک نئی فائل گھر لانی پڑے گی۔ لیکن اس بار آپ نے خیال رکھا اور بچوں کے ہاتھ پین یا پینسل نہیں لگنے دیے۔ اب بچے تو ہیں شرارتی اور انہیں کھیلنے کےلیے اور کچھ نہیں ملا تو دوبارہ آپ کی فائل کی شامت آئی اور اب کی بار انھوں نے آرٹ سے انجئنیرنگ کا سفر طے کرتے ہوئے فائل کے کاغذ پھاڑ پھاڑ کر جہاز اور کشتیاں بنانے شروع کردیے۔ جب تک آپ کو اطلاع ملتی آدھی فائل گھر کے کونوں میں بکھر چکی تھی، اور اگر کوئی زیادہ شرارتی بچہ ہو تو پھر تو پوری فائل کا اللہ ہی حافظ سمجھیے۔ اب آپ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کرسکتے ہیں کہ جتنے صفحات آپ کو مل سکیں، آپ انھیں جمع کرکے دوبارہ ترتیب سے فائل میں لگانے کی کوشش کریں۔ لیکن اگر کوئی صفحہ نہیں ملتا آپ کو تو پھر اس پر لکھی تحریر اگر آپ کی یادداشت یا پھر اس کی نقل آفس میں موجود نہیں تو پھر آپ اس معلومات کو ہمیشہ کےلیے کھو دیں گے۔

ہمارے جینوم کے ساتھ بعینہ یہی معاملہ ہوتا ہے۔ بہت سے تابکار اور کیمیائی عناصر ہمارے جینوم کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اس نقصان کی شدت کی وجہ سے عمومی طور پر ہمارے خلیات کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہوتا ہے۔ آپ نے سن یا پڑھ رکھا ہوگا کہ جب جاپان پر امریکا نے ایٹم بم گرائے تھے تو کچھ لوگوں کی ہلاکت تو فوری طور پر دھماکے کے اثرات کی وجہ سے ہوگئی تھی، جبکہ وہ لوگ جو دھماکے سے تو بچ گئے تھے اگلے چند ایام میں انھیں شدید بیماری کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بھی تابکاری کی تاب نہ لاسکے اور ان کی بھی اموات انہی چند دنوں میں ہوگئی تھیں۔ جبکہ وہ بدقسمت جو کہ فوری طور پر موت سے تو بچ گئے تھے ان کی زندگی پر مستقل بیماری اور معذوری کا سایہ ہی رہا۔ اور یہی وجہ ہے کہ غیر ضروری ایکس رے کرنے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس میں بھی تابکاری کی بہت ہلکی مقدار استعمال ہوتی ہے۔

اسی تابکاری کا ایک فائدہ مند پہلو یہ بھی ہے کہ جب ہم وائرس کو اس کا نشانہ بناتے ہیں تو حسبِ توقع اس کے جینوم میں بھی وہی توڑ پھوڑ ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں وائرس اپنی افزائشِ نسل اور بیماری پھیلانے والی صلاحیتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو توپ سے مچھر مارنے والی بات ہوگئی کہ وائرس اور بیماری تو ایک طرف رہی، یہاں تو مریض کو اپنی جان کے لالے پڑجائیں گے اگر اس کو تابکاری کا سامنا کرنا پڑے۔

آپ کی بات بالکل بجا ہے، کینسر کے علاوہ تابکاری (اور وہ بھی انتہائی احتیاط کے ساتھ) کا علاج معالجہ کے ساتھ کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے، البتہ تشخیص وغیرہ میں اس کا استعمال ضرور ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سب سے اہم بات وائرس کے حوالے سے یہ ہے کہ تابکاری کا شکار وائرس جو کہ اب نہ تو اپنی تعداد بڑھا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو بیمار، ایسے وائرس کو ہم بطور ویکسین بھی استعمال کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔
(جاری ہے)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد ابراہیم رشید شیرکوٹی

ڈاکٹر ابراہیم رشید شیرکوٹی

بلاگر مائیکرو بائیولوجی میں پی ایچ ڈی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبہ جات میں ہونے والی پیش رفت، تاریخ اور روزمرہ کے واقعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔