’فارم ہاؤس‘

انسان جو اشرف المخلوقات ہے قدرت نے اسے اشرافیہ شاید اس لیے قرار دیا ہے کہ وہ خدا کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے


Abdul Qadir Hassan January 26, 2014
[email protected]

ہمارا بالادست طبقہ نچلا نہیں بیٹھتا ملک کا یہ امیر ترین اور پشتوں سے رئیس چلا آنے والا طبقہ اگر وقت کے ساتھ ساتھ امارت کا اظہار نہ کرتا رہے تو وہ اپنے ڈیروں کی پرانی چارپائیوں کی طرح سردی کے کسی موسم میں چولہے کا رزق بن جائے چنانچہ وہ اظہار امارت کے ہر فیشن اور سیزن میں کچھ نہ کچھ نیا کرتا ہی رہتا ہے۔ ادھر کچھ عرصے سے ہم دیہاتیوں نے جب فارم ہاؤس کا نام سنا تو تعجب ہوا کہ ہمارے ان قدیمی گھروں کے نام کس نے بدل دیئے اور ہمیں اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ہمارے ہاں گاؤں یا قصبے کی آبادی کے باہر اور اگر زمین کا کوئی ٹکڑا ہوتا ہے تو اسے آباد رکھنے کے لیے وہاں اس زمین میں چھوٹا موٹا مکان بنا لیتے ہیں اور اگر اس میں رہنا بھی شروع کر دیں تو وہ 'ڈھوک' کہلاتا ہے۔ یہ ڈھوکیں بعض اوقات اپنے کسی مشہور مکین اور مالک کی وجہ سے اس کے نام سے بھی پہچانی جاتی ہیں ورنہ یہ گمنام ہی رہتی ہیں۔ یہ ڈھوکیں اگر ذرا بڑی ہو جائیں یا یہاں اس کے معروف مالک ڈیرہ جما لیں تو اسے ڈھوک کی جگہ ڈیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ڈھوکیں اور ڈیرے دیہاتی زندگی میں عام ہیں۔ پوٹھوہار کے علاقے میں بشمول ہمارے کوہستاں نمک کے علاقے میں یہ ڈھوکیں اور ڈیرے عام ہیں۔

چھوٹے کاشتکاروں کا بارش وغیرہ سے بچنے کے لیے ایک ادھ کمرہ یا کھلا سا برآمدہ اور صاحب حیثیت کاشتکاروں اور زمینداروں کے لیے دو تین کمرے جسے ڈیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے دیہات کے یہ ڈھوکیں اور ڈیرے نہ جانے کب سے چلے آ رہے ہیں۔ خود میری زمین تین چار ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور سب ٹکڑوں میں ڈیرہ بنا ہوا ہے اور اب تو ہر جگہ ٹیوب ویل بھی ہے اور ان ڈیروں کی پہلے کی طرح عارضی اور موسمی نہیں ایک مستقل حیثیت بن گئی ہے۔ یہ ڈیرے چونکہ کسی نہ کسی پہاڑی کے دامن اور ڈھلوان میں ہیں اس لیے صبح سویرے جنگلی پرندے پہاڑوں سے اتر آتے ہیں اور فصل کے پتوں سے شبنم کے قطرے چنتے ہیں۔ کبھی جوانی میں چُھٹی جایا کرتا تھا تو ایک دو راتیں کسی نہ کسی ڈیرے پر ضرور بسر کرتا تھا اور صبح سویرے جاگ کر ان بے حد خوبصورت پرندوں کو ان کھیتوں میں اڑتے بھاگتے اور ٹہلتے دیکھتا تھا جو دن کے وقت انسانوں کی وجہ سے ان کھیتوں میں نہیں آتے اپنے پہاڑوں میں ہی رہتے ہیں۔ ایک بار میں نے اتفاق سے ایک چکوری کو دیکھا جو علی الصبح اپنے بچوں کے ساتھ کھیتوں میں اتر آئی اور دیر تک ان کے ساتھ ان کھیتوں میں گھومتی پھرتی رہی۔

یہ نایاب منظر میں نے پھر کبھی نہیں دیکھا لیکن جو ایک بار اتفاق سے دیکھ لیا تھا وہ بھولا بھی نہیں۔ میں اس قدرتی منظر سے اس قدر مسحور تھا کہ ان دنوں اس کا ذکر کر دیا۔ ایک شکاری بھی بات سن رہا تھا۔ اس نے میری خوشی کے لیے دو ایک دن پھر وہ چکوری اور بچے جال میں پھنسا کر لے کر آ گیا۔ میں نے اس خاندان کو جب جال میں تڑپتا پھڑکتا دیکھا تو برداشت نہ کر سکا اور ان کو اپنی نگرانی میں واپس جنگل میں پہنچا دیا۔ چکور تیتر اور بٹیرے تو عام ہوتے ہیں اب کا پتہ نہیں کہ انسانوں کی آبادی اور انسانی ضرورتیں اور شوق بہت بڑھ گئے ہیں لیکن زیادہ وقت نہیں گزرا کہ ہمارے کھیتوں کی صبحوں پر یہ جادو بھری کیفیت ضرور حاوی ہوا کرتی تھی۔ پہاڑوں کی ایسی زندگی کی یہ نعمتیں وہ ہیں جن کا شہروں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور دیہات کی معصوم اور فطری زندگی کو ہم نے برباد کر دیا ہے۔

بات شہروں کے فارم ہاؤس سے شروع ہوئی تھی جو شہری زندگی سے ذرا ہٹ کر رؤسا نے تعمیر کر لیے ہیں لیکن ان فارم ہاؤسوں میں اور ہمارے دیہی ڈیروں اور ڈھوکوں میں کیا مناسبت اور کیا موازنہ۔ چہ نسبت خاک را با عالم پاک۔ میں لاہور کے قریب کئی فارم ہاؤسوں میں گیا ہوں دوسرے مہمانوں کے ہمراہ۔ ان خوبصورت گھروں میں ہر چیز پرتکلف اور مصنوعی ہے جن کا ہمارے ڈیروں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن جو ہمارے دامن پہاڑ میں واقع ڈھوکوں اور ڈیروں میں ہے اس کا بھی شہری فارم ہاؤسوں میں تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ دو مختلف دنیائیں ہیں ہر ایک کا اپنا اپنا رنگ اور مزا ہے۔ ان شہری فارم ہاؤسوں میں زیادہ سے زیادہ آپ وہ اونٹ گھوڑے جمع کر سکتے ہیں لیکن ان جانوروں میں سرشاری کیسے پیدا ہو گی جو قدرت موسم اور ماحول ان بے زبان جانوروں کو عطا کرتا ہے۔ اگر کوئی جانور کھلا چھوڑ دیا جائے تو اس کی آزادی کی حرکتیں دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ وہ بھاگتا دوڑتا ہے' چھلانگیں لگاتا ہے اور اگر کوئی گھوڑا ہوتا ہے تو پھر وہ اس قدر باغی ہو جاتا ہے کہ اسے دو بار پکڑنا آسان نہیں ہوتا۔ وہ اپنی آزادی کو چھوڑتا نہیں ہے کیونکہ اسے لگام کی قید میں جکڑ لینا ہوتا ہے۔

دور کھیتوں میں بھاگتے دوڑتے یہ جانور کسی دوسری دنیا میں پہنچ گئے ہوتے ہیں انسانوں سے مختلف دنیا میں مگر انسان انھیں زیادہ دیر تک یہ عیاشی نہیں کرنے دیتے کہ ان کی حالت بھی ان انسانوں جیسی ہوتی ہے جو اشرافیہ کے حکمرانوں کے غلام ہوتے ہیں۔ یہ دیکھ کر لگتا ہے کہ انسان بھی اپنے انسانوں کو حیوان بنا دیتے ہیں ان کے اوپر زین رکھ ان کے منہ میں لگام دے کر انھیں اپنی ٹانگوں کے نیچے دبوچ لیتے ہیں۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے قدرت نے اسے اشرافیہ شاید اس لیے قرار دیا ہے کہ وہ خدا کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے لیکن ہم نے اکثر وہ انسان دیکھے جو خلق خدا کے لیے عذاب بن جاتے ہیں اور خلق کو عذاب دینے کے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے حکمران جب انسانوں کی کسی بستی میں جاتے ہیں تو اپنی گزرگاہوں سے موت کو بھگا دینے کا حکم دیتے ہیں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ خلق خدا کو گویا راستوں پر منجمد کر دیتے ہیں ان کے راستے بند اور ان کے قدم جکڑ دیتے ہیں مگر تعجب ہے کہ اس قدر احتیاط کے باوجود وہ ایک دن اپنی مرضی کے برعکس مر بھی جاتے ہیں یعنی کسی وقت اس اشرافیہ کا اختیار اس سے سلب بھی ہو جاتا ہے جو ہم عام انسانوں کے لیے تعجب کی بات ہے۔ فارم ہاؤس کی کوئی دیوار انھیں بچا نہیں سکتی۔

مقبول خبریں