تجربہ گاہ میں تیار کردہ ’چھوٹے انسانی دماغ‘ میں ’آنکھیں‘ بھی نکل آئیں

ویب ڈیسک  جمعـء 20 اگست 2021
تجربے کے 60 ویں دن اس ننھے منے دماغ پر آنکھیں نمودار ہوکر خاصی نمایاں بھی ہوچکی تھیں۔ (تصاویر: سیل اسٹیم سیل)

تجربے کے 60 ویں دن اس ننھے منے دماغ پر آنکھیں نمودار ہوکر خاصی نمایاں بھی ہوچکی تھیں۔ (تصاویر: سیل اسٹیم سیل)

برلن: یورپی ماہرین نے انسانی خلیاتِ ساق (اسٹیم سیلز) کی مدد سے تجربہ گاہ میں تیار کیے گئے ’ننھے منے دماغ‘ پر ’چھوٹی چھوٹی آنکھیں‘ اُگانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔

سائنسدانوں کو امید ہے کہ اس پیش رفت کی بدولت ہمیں رحمِ مادر میں بچے کی نشوونما کے ابتدائی مراحل سمجھنے میں مدد ملے گی اور ممکنہ طور پر آنکھوں کا بہتر علاج بھی ممکن ہوسکے گا۔

کامیابی کا پس منظر

ان تجربات کےلیے انسان سے جسمانی خلیات (somatic cells) لے کر، کچھ مخصوص مراحل سے گزارنے کے بعد، ان سے ’’پلوری پوٹینٹ‘‘ قسم کے خلیاتِ ساق حاصل کیے گئے جو کسی جسمانی بافت (ٹشو) کی تشکیل کرسکتے ہیں۔

اسی بناء پر انہیں ’’ہیومن انڈیوسڈ پلوری پوٹینٹ اسٹیم سیلز‘‘ (Human iPSCs) یا ’’انسان سے ماخوذ کثیر استعدادی خلیاتِ ساق‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

سب سے پہلے انسانی جسمانی خلیوں سے پلوری پوٹینٹ اسٹیم سیلز حاصل کیے گئے جنہیں ایک پیٹری ڈش میں رکھا گیا۔

پیٹری ڈش میں ایسا ماحول رکھا گیا کہ وہ اپنی تعداد بڑھا کر بتدریج ایک خلوی گیند (سیلولر بال) کی شکل اختیار کرسکیں۔

اس طرح تجربہ شروع ہونے کے دسویں دن ایک ایسی خلوی گیند وجود میں آگئی جس میں اعصابی خلیاتِ ساق (nerve stem cells) موجود تھے۔ یہ گیند ’’نیورو اسفیئر‘‘ (neurosphere) بھی کہلاتی ہے۔

بتاتے چلیں کہ یہی وہ خلیے بھی ہیں جو نشوونما کے متعدد مرحلوں سے گزرنے کے بعد نہ صرف دماغ بلکہ پورے جسم میں پھیلے ہوئے اعصابی نظام سے متعلق خلیوں کو جنم دیتے ہیں۔

یہ خبر بھی پڑھیے: امریکی سائنسدانوں نے مصنوعی انسانی دماغ تیار کرلیا

اعصابی خلیاتِ ساق کی اس گیند نے اپنی نشوونما جاری رکھی جس دوران اس میں مزید خلیے بنتے رہے؛ اور یہ آہستہ آہستہ کرکے بڑی بھی ہوتی گئی۔

تجربے کے 30 ویں دن یہ گیند ’’دماغ نما عضو‘‘ (Brain-like organoid) کی شکل اختیار کرچکی تھی جس کے ایک طرف آنکھوں جیسی ساختیں بھی بننے لگی تھیں۔

60 ویں دن تک خلوی گیند کے ساتھ ساتھ یہ آنکھیں بھی مزید بڑی اور نمایاں ہوچکی تھیں جبکہ ان میں ایسے خلیے بھی بن چکے تھے جو روشنی کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آسان الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس ننھے منے ’’دماغ جیسے عضو‘‘ پر ایسی ’’آنکھیں‘‘ بن گئیں جو ’’دیکھنے‘‘ کی بنیادی صلاحیت بھی رکھتی تھیں۔

تجربہ گاہ میں تیار کیا گیا یہ ننھا منا دماغ اس کے بعد تلف کردیا گیا، کیونکہ طبّی تحقیق کی اخلاقیات اور اس حوالے سے موجود بین الاقوامی قوانین کی رُو سے یہ تجربات اس سے آگے بڑھائے نہیں جاسکتے تھے۔

یہ تحقیق ’’سیل اسٹیم سیل‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہے جس کے مرکزی مصنف، جے گوپالاکرشن ہیں جو ڈوسلڈورف اسپتال، جرمنی سے بطور ماہرِ عصبیات (نیورو سائنٹسٹ) وابستہ ہیں۔

ڈاکٹر گوپالاکرشن کا خیال ہے کہ چھوٹے چھوٹے دماغ بنا کر ہمیں حمل کے دوران دماغ اور آنکھ میں دو طرفہ عمل (انٹریکشن) کو سمجھ کر ایسا علاج وضع کرنے میں آسانی ہوگی جو کسی مریض کی مخصوص اور انفرادی ضرورت کے عین مطابق ہو۔

امید کی جاسکتی ہے کہ یہ منزل بھی آجائے گی لیکن شاید اس تک پہنچنے میں کئی سال بلکہ کئی عشرے لگ جائیں کیونکہ ابھی تجربہ گاہ میں دماغ سمیت دیگر چھوٹے اعضاء تیار کرنا بہت وقت طلب اور مشکل کام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔