- فوج سے کوئی اختلاف نہیں، ملک ایجنسیز کے بغیر نہیں چلتے، سربراہ اپوزیشن گرینڈ الائنس
- ملک کے ساتھ بہت تماشا ہوگیا، اب نہیں ہونے دیں گے، فیصل واوڈا
- اگر حق نہ دیا تو حکومت گرا کر اسلام آباد پر قبضہ کرلیں گے، علی امین گنڈاپور
- ڈالر کی انٹر بینک قیمت میں اضافہ، اوپن مارکیٹ میں قدر گھٹ گئی
- قومی اسمبلی: خواتین ارکان پر نازیبا جملے کسنے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور
- پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکی ’متعصبانہ‘ رپورٹ کو مسترد کردیا
- جب سے چیف جسٹس بنا کسی جج نے مداخلت کی شکایت نہیں کی، قاضی فائز عیسیٰ
- چوتھا ٹی ٹوئنٹی: پاکستان کا نیوزی لینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ
- سائفر کیس؛ مقدمہ درج ہوا تو سائفر دیگر لوگوں نے بھی واپس نہیں کیا تھا، اسلام آباد ہائیکورٹ
- ضلع خیبرمیں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک، دو ٹھکانے تباہ
- عمران خان کی سعودی عرب سے متعلق بیان پر شیر افضل مروت کی سرزنش
- چین: ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والا 88 سالہ شہری
- یوٹیوب اپ ڈیٹ سے صارفین مسائل کا شکار
- بدلتا موسم مزدوروں میں ذہنی صحت کے مسائل کا سبب قرار
- چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے پروٹوکول واپس کردیا، صرف دو گاڑیاں رہ گئیں
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں فلسطینیوں کو زندہ دفن کرنے کا انکشاف
- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
زیادہ دیر بیٹھنے کا عمل ڈپریشن اور مایوسی پیدا کرتا ہے، تحقیق
آئیووا: طبی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مسلسل بیٹھے رہنے کا عمل ڈپریشن اور یاسیت جیسی کیفیات پیدا کرتا ہے یا پھر اس جانب دھکیل دیتا ہے۔
ایک سروے کے دوران یہ تحقیق سامنے آئی ہے کہ کووڈ 19 کے ابتدائی مہینوں میں لوگ ڈرائنگ روم اور بیڈروم تک ہی محدود رہے۔ پھر ورزش کا وقت ٹی وی نے لے لیا۔ اس کے بعد زوم پرملاقاتوں نے اور باقی وقت فلم بینی میں گزرگیا۔
تحقیق کے مطابق اپریل سے جون تک جن افراد نے اپنا زیادہ تروقت گھر میں بیٹھ کر گزارا تھا ان میں ڈپریشن کی علامات قدرے زیادہ دیکھی گئی تھیں۔ اب ماہرین اس کا تعلق دماغی امراض سے جوڑنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ تحقیق میں شامل آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر جیکب میئر کہتے ہیں کہ ’ بیٹھے رہنا اور غیرسرگرمی سوچے سمجھے عمل کے بغیر ہوتا ہے اور اس کے دماغ پر اثرات ہوتے ہیں۔‘
مارچ 2020ء میں کورونا وبا کا عروج تھا اور لوگ گھروں تک محدود تھے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ اس وقت لوگوں کے برتاؤ اور دماغ پر اس کے اثرات نوٹ کیے جائیں۔ اس لیے انہوں نے 50 امریکی ریاستوں کے 3000 افراد کا جائزہ لیا۔ سوال نامے میں لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرح روز و شب گزار رہے ہیں اور کتنی دیر بیٹھے رہتے ہیں اور دماغی اور نفسیاتی طور پر کیسا محسوس کررہے ہیں؟ یہ بھی پوچھا گیا کہ وبا سے پہلے ان کے معمولات کیسے تھے اور دماغی صحت کس طرح کی تھی؟
معلوم ہوا کہ امریکی جسمانی سرگرمی کی رہنما ہدایات ( جس میں ہفتے میں ڈھائی سے پانچ گھنٹے معتدل یا شدید درجے کی ورزش شامل ہے) پر عمل کم ہوگیا۔ یعنی اس عمل میں 32 فیصد کمی دیکھی گئی۔ عین اسی دوران تمام شرکا نے ڈپریشن، تنہائی اور بے چینی کا اعتراف بھی کیا۔ یہ تمام تفصیلات ایک بین الاقوامی جرنل فرنٹیئرز ان سائیکائٹری میں شائع ہوئی ہیں۔
بعض افراد نے کہا کہ کووڈ 19 وبا کے فوری بعد شروع ہونے والی گھریلو قید کی الجھن اور دماغی صحت 8 ہفتوں میں درست ہوگئی کیونکہ انہوں نے معمولات کو بہتر بنایا تھا۔ اس کے بعد دوسری قسم کے لوگوں نے جب اپنے بیٹھنے کے معمولات بڑھائے تو وہ بحال نہ ہوسکے اور ڈپریشن کے گرداب میں چلے گئے۔
اس تحقیق سے نمایاں سبق یہ ملتا ہے کہ مسلسل بے عملی، ورزش سے اجتناب اور بیٹھے رہنے کا عمل ڈپریش کی وجہ بن سکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔