کرتارپور راہداری کا کھلنا پاک بھارت تعلقات کےلیے خوش آیند ہوگا؟

ایمان ملک  پير 22 نومبر 2021
کرتارپور کوریڈور کا دوبارہ کھلنا خوش آئند ہے۔ (فوٹو: فائل)

کرتارپور کوریڈور کا دوبارہ کھلنا خوش آئند ہے۔ (فوٹو: فائل)

بظاہر یہ ناممکن سی بات ہے لیکن وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو چھوٹے چھوٹے اقدام پیچیدہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔ کیونکہ جنگیں مسائل کا نہ تو حل ہیں اور نہ اس میں کسی کا بھی فائدہ ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں پہنچنے والے بھاری جانی و مالی نقصان سے ملک کمزور ہوتے ہیں۔

تجزیہ کاروں نے اکثر یہ نوٹ کیا ہے کہ اگر سافٹ ایشوز یعنی ’نرم‘ مسائل پر مثبت قدم اٹھایا جائے تو برصغیر کے تعلقات کو درہم برہم کرنے والے مشکل چیلنجز بھی حل کےلیے تیار ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے ہندوستانی ماہی گیروں کے قیدیوں کی حال ہی میں رہائی بھی ایسے ہی ایک قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔ مذہبی دورے بھی قابل عمل ’نرم‘ حل کے زمرے میں آتے ہیں۔ اور دونوں طرف کے امن کے حامی طویل عرصے سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان میں مقدس مقامات کی زیارتوں کو سہولت فراہم کی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے کرتارپور کوریڈور کا دوبارہ کھلنا خوش آئند ہے۔

پاکستان میں واقع گوردوارے سکھوں کےلیے ان کے مذہب کے بانی گرو نانک سے اس کے تعلق کی وجہ سے مقدس سمجھے جاتے ہیں، جن کی پہلے تزئین و آرائش کی گئی اور پھر کرتارپور کو 2019 میں وزیراعظم عمران خان اور سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ۔ کے ہاتھوں بہت دھوم دھام سے کھولا گیا۔ تاہم، ویزہ فری کوریڈور کی سہولت گزشتہ سال کووڈ 19 کی وجہ سے بند کردی گئی تھی۔ اب ہندوستان کی طرف سے دوبارہ راہداری کھولنے کے اعلان کے ساتھ امید کی جارہی ہے کہ سکھ یاتریوں کو آزادانہ طور پر مقدس مقام کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

یقیناً، برصغیر میں معاملات، خاص طور پر دو طرفہ امن سے متعلق امور، بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں، اور کرتارپور کے دوبارہ کھلنے جیسی پیش رفت کی بنیاد پر ان میں پیش رفت کی توقع کرنا غیر حقیقی ہے۔ مزید برآں، حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد اور دہلی کے درمیان بہت زیادہ عدم اعتماد کی فضا موجود ہے، جسے مودی حکومت کے مسلم مخالف موقف، خاص طور پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں دو سال سے جاری پریشان کن صورتحال کی وجہ سے ہوا ملی ہے۔ تاہم، یہ عیاں ہے کہ بات چیت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔ اور جیسا کہ یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین حائل نرم مسائل پر کام کرنے سے ایک دن اہم اور پیچیدہ مسائل پر بھی مزید ٹھوس بات چیت ہوسکتی ہے۔ اس کےلیے ناگزیر ہے کہ پاکستان میں ہندو اور سکھ یاتریوں کےلیے دلچسپی کے دیگر مذہبی مقامات کھولے جائیں، جب کہ ہندوستان کو اجمیر اور دیگر مقدس مقامات تک ان پاکستانیوں کو آسانی سے رسائی کی اجازت دینی چاہیے جو وہاں احتراماً حاضری دینا چاہتے ہیں۔

المختصر، یہ بالکل واضح ہے کہ باہمی اعتماد کی بحالی سے ہی دو طرفہ دلچسپی کے تمام امور بشمول مسئلہ کشمیر پر بات چیت ہوسکتی ہے، ورنہ جنگیں پہلے بھی لڑی گئی ہیں مگر کوئی حل نہیں نکلا۔ ہمسائے بدلنا ممکن نہیں مگر چوکس رہتے ہوئے اور اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے ان سے تعلقات کو بہتر بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایمان ملک

ایمان ملک

بلاگر نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان سے پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز میں ایم فل ڈگری کی حامل اور دفاعی امور سے متعلق ایک تھنک ٹینک میں بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ آفیسر خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ یونیٹار، اوسی، یوسپ، یونیورسٹی آف مرڈوک آسٹریلیا جیسے نامور اداروں سے انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی اسٹڈیز میں متعلقہ کورسز کر رکھے ہیں۔ ان کی مہارت کی فیلڈز میں ڈیفنس اینڈ اسٹرٹیجک اسٹڈیز اور پیس اینڈ کانفلیکٹ اسٹڈیز شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔