آئی بی اے کراچی میں ہم جنس پرستوں کی محفل رقص

صفدر رضوی  اتوار 27 مارچ 2022
اساتذہ نے اس واقعہ کو انتہائی شرمناک قرار دے دیا ۔ فوٹو : فائل

اساتذہ نے اس واقعہ کو انتہائی شرمناک قرار دے دیا ۔ فوٹو : فائل

 کراچی: آئی بی اے  کراچی میں زیر تعلیم بعض ہم جنس پرست طلبہ کی جانب سے رقص و سرور کی محفل کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کی ایک مخصوص تعداد نے شرکت کی اور کئی طلبہ رقص کی اس محفل میں نیم برہنہ لباس میں شریک ہوئے جس نے معاشرتی اقدار کی دھجیاں بکھیر دیں۔

یہ سب کچھ جامعہ کراچی میں قائم آئی بی اے (انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن) کراچی کے مرکزی کیمپس میں ہوا ہے جس کے بعد آئی بی اے کمیونٹی میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی ہے آئی بی اے کے اساتذہ اور دنیا کے مختلف ممالک میں موجود المنائی کی جانب سے اس واقعہ کو انتہائی شرمناک قرار دے کر ملکی معاشرتی اقدار کے منافی کہا جارہا ہے۔

اس ایونٹ کی ایک انتہائی قابل اعتراض ویڈیو سامنے آنے کے بعد آئی بی اے اساتزہ اور المنائی کی جانب سے انتظامیہ کو بڑی تعداد میں ای میل کی گئی ہیں جس میں اس ایونٹ کی سخت مذمت کرتے ہوئے معاملے پر سخت کارروائی کا مطالبہ سامنے آرہا ہے جبکہ خود سوشل میڈیا پر آئی بی اے المنائی اور غیر المنائی اس واقعہ کی مزمت کرتے نظر آرہے ہیں۔

قابل ذکر امر یہ ہے کہ ہم جنس پرست طلبہ کی جانب سے یہ سب کچھ آئی بی اے کیمپس سیکیورٹی کی موجودگی میں انجام پایا ہے تاہم انتظامیہ اس معاملہ پر خاموش رہی جس نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے اور سوال کیا جارہا ہے کہ ڈاکٹر اکبر زیدی کی قیادت میں آئی بی اے کی موجودہ انتظامیہ کیا اس قسم کے پروگرام کے انعقاد سے اتفاق کرتی ہے جو ایسے پرو گرام کو کیمپس میں منعقد ہونے دیا گیا۔

اس سلسلے میں “ایکسپریس” نے آئی بی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی اور ترجمان دونوں ہی سے علیحدہ علیحدہ رابطے کی کوشش کی تاہم دونوں ہی رابطے سے گریز کرتے رہے رہے انھیں میسج کرکے موقف جاننے کی کوشش کی گئی کہ ہم جنس پرستوں کے اس ایونٹ پر آئی بی اے اب کیا کارروائی کررہا ہے تاہم دونوں کی جانب سے میسج کا کوئی جواب نہیں آیا۔

یاد رہے کہ ہم جنس پرست طلبہ کی جانب سے یہ پروگرام ایک ایسے وقت میں منعقد کیا جب آئی بی اے کی فیکلٹی کی جانب سے انتظامیہ کو کیمپس میں بہت تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول ، ڈریس کوڈ کی عدم پابندی اور اکثر و بیشتر ناشائستہ حرکات کرتے ہوئے قابل اعتراض حالت میں طلبہ کی نشاندہی ای میلز کے ذریعے کی جاچکی تھی تاہم انتظامیہ کی جانب سے ان تمام ای میلز پر کان ہی نہیں دھڑے گئے اور کیمپس کے ماحول کو ایسے ہی طلبہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔

بتایا جارہا ہے کہ آئی بی اے کی انتظامیہ اپنے پراسپیکٹس میں ماضی میں درج ڈریس کوڈ کی شق سے بھی دستبردار ہوچکی ہے اور نئے اب پراسپیکٹس میں ڈریس کوڈ کے حوالے سے کوئی شق موجود نہیں ہے۔

آئی بی اے کی ایک فیکلٹی کا کہنا تھا کہ” اگر کوئی ڈریس کوڈ کا احترام نہ کرنے والے طلبہ کو تنبیہ کی کوشش کرے تو جواب ملتا ہے کہ کہاں لکھا ہے کہ کونسے کپڑے پہنے جائیں اور کونسے نہ پہنیں جس کے بعد تنبیہ کرنے والا ہی خاموش ہوجاتا ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ آئی بی اے کے اساتذہ و اپنائی کی جانب سے ادارے کے رجسٹرار اسد الیاس اور ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی کو اس حوالے سے جو ای میلز موصول ہوئی ہیں اور سوشل میڈیا پر آئی بی اے اپنائی کی جانب سے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا جارہا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ آئی بی اے میں بے حیائی کا خاتمہ کرکے تعلیمی ادارے کی طرح پیشہ ورانہ برتائو کیا جائے اور طلبہ کو اس بے حیائی کی روش سے روکا جائے ان میں تعداد انتہائی محدود ہے انھیں اکثریت پر حاوی نہ ہونے دیا جائے اس طرح کا جنسی برتائو آئی بی اے میں ناقابل قبول ہے۔

ایک ای میل میں کہا گیا ہے کہ ہمیں آئی بی اے میں public desply affection (اے ڈی پی) کے سنجیدہ معاملے پر شدید تحفظات ہیں ماضی کے اور اب کے آئی بی اے میں ایک بڑا فرق موجود ہے جس میں طلبہ کی اخلاقیات اور برتائو انتہائی ابتری کا شکار ہے اپلائی اور انڈسٹری اس منفی تبدیلی کو محسوس کر رہی ہے یہ سب کچھ آئی بی اے کے تشخص کو زائل کررہا ہے اور آئی بی اے کو اس خاموشی کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔

ایک علیحدہ ای میل میں کہا گیا ہے کہ طلبہ کی جانب سے حالیہ عمل ناصرف ثقافتی و مذہبی اقدار کو پامال کررہی ہیں بلکہ یہ ملکی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے اس سب کچھ تو مغربی جامعات میں بھی اجازت نہیں جس میں الکحل اور ڈرگس کی یونیورسٹی بس یا کلاس روم میں اجازت ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔