’ایکسپریس نیوز‘ کی رمضان نشریات ’’خیرِ رمضان‘‘

میگزین رپورٹ  منگل 5 اپريل 2022
اس پروگرام کی میزبان نہ  ہوتی، تب بھی ناظرین کو یہ دیکھنے کو کہتی، صنم جنگ ۔ فوٹو : فائل

اس پروگرام کی میزبان نہ  ہوتی، تب بھی ناظرین کو یہ دیکھنے کو کہتی، صنم جنگ ۔ فوٹو : فائل

ہر سال رمضان المبارک کا مقدس مہینا دینی اور روحانی سکون کے ساتھ مسلمانوں کے لیے فیوض و برکات سے بھری عظیم رات کی نوید لے کر آتا ہے اور ہم روزہ رکھنے اور ماہ مقدس میں زیادہ سے زیادہ برکتیں سمیٹنے اور ثواب حاصل کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں سحر و افطار کے موقع پر اذان سننے اور اسلامی تعلیمات سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے والے پروگرام دیکھنا معمول کی بات ہے۔ ماہ مقدس میں مسلمانوں کے اسی دینی ذوق و شوق اور توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ٹی وی چینل بھی ہر سال ’سب سے بڑی‘ رمضان ٹرانسمیشن کے نام سے اپنے حریف چینلوںسے مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، جن میں شوبز انڈسٹری کی مشہور ترین شخصیات اور نام وَر مذہبی اسکالرز شامل ہوتے ہیں۔ تاہم اکثر ایسے پروگرام دو انتہاؤں پر نظر آئے ہیں۔

ایک طرف اگر رمضان کے تقدس کے ساتھ مذہبی تعلیمات کو اہمیت دی جاتی ہے، تو دوسری جانب دینی اقدار کو مادّی ضروریات سے جوڑ کر اسے فروغ دینے کی کوشش بھی دکھائی دیتی ہے۔ کچھ چینل اس مہینے میں ’’صحت مند مقابلوں‘‘ اور انسانیت کی خدمت کے نام پر ’گیم شوز‘ پیش کرتے ہیں، جب کہ بعض پروگراموں میں مذہبی شخصیات، اسکالرز اور مشہور اور مقبول چہرے دکھائی دیتے ہیں، جن کی گفتگو کا موضوع مختلف مذہبی تعلیمات اور سماجی  مسائل ہوتے ہیں۔

تاہم گزشتہ چند سالوں کے دوران، رمضان ٹرانسمیشن کو مذہبی تعلیمات اور اس مہینے کے تقدس کا خیال نہ رکھنے کے حوالے سے کڑی تنقید کا سامنا بھی رہا ہے اور ایسے پروگراموں کی شہرت کافی متاثر ہوئی ہے۔ اس پر عام ناظرین کے علاوہ سب سے زیادہ تنقید علمائے کرام کی طرف سے کی گئی اور ایسے ہر پروگرام کو مقدس مہینے کی روح کے منافی اور رمضان کو کاروباری موقع کے طور پر استعمال کرنے کے مترادف کہا گیا ہے، لیکن ایکسپریس نیوز پر نشر ہونے والا پروگرام ’خیر رمضان‘ اس ماہ مبارک کا تقدس برقرار رکھنے کا عہد کرتے ہوئے مشہور اور جانی پہچانی شخصیت کی میزبانی میں پروقار اور شایان شان طریقے سے عوام کی توجہ کا مرکز بنے گی۔

مشہور و معروف میزبان اور اداکار صنم جنگ اور ذیشان افضل کی ’خیر رمضان‘ ٹرانسمیشن اس کی حقیقی روح کے ساتھ بالخصوص نوجوانوں پر توجہ دیتے ہوئے ایسا پروگرام ہے، جو اسلام اور اس کی تعلیمات پر مبنی اور اسی تناظر میں ملک کے موجودہ اور اہم سماجی مسائل پر مفید اور بامقصد گفتگو کو فروغ دے گا۔

رمضان نشریات کے روایتی اور غیر معروف فارمیٹ سے ہٹ کر، اس پروگرام کو زیاہ سے زیادہ جامع اورمدلل و مفید گفتگو سے آراستہ کرتے ہوئے عام فہم اورپُر اثر انداز میںپیش کیا جا رہا ہے، جس کا ایک مقصد خواتین کو بااختیار بنانے، مزدوروں کے مسائل، پانی اور صفائی ستھرائی، جنریشن گیپ جیسے موضوعات پر متوازن نقطۂ نظر کو سامنے لانا ہے۔ اوریہی نہیں، بلکہ اس میںموجودہ دور کے مسائل و آفات جیسے موسمیاتی تبدیلی کو بھی زیربحث لایا جائے گا۔

صنم جنگ جیسی عوام میںمقبول میڈیا کی ایک شخصیت اور کارپوریٹ پس منظر کے حامل ذیشان افضل کے ساتھ اپنے شعبوں میںنام و مقام رکھنے والی شخصیات جن میں اسلامی اسکالرز، مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور کارپوریٹ کمپنیوں کے بین الاقوامی اور قومی سطح پر معروف نمائندے سماجی ذمہ داریوں پر خیالات کا اظہار کریں گے۔

اس پروگرام میں پاکستان بھر میں اپنے ناظرین کو اسلامی ضابطۂ حیات سے آگاہی دیتے ہوئے موجودہ دور کے مذکورہ اور آنے والے دور کے ممکنہ مسائل اور بحرانوں کو زیر بحث لاتے ہوئے ان کے حل پرکارآمد اور مفید گفتگو کی جائے گی۔صنم جنگ اور ذیشان افضل اس پروگرام میںجنریشن گیپ جیسے اہم موضوع پر بھی تبادلۂ خیال کریں گے، جس سے والدین اوران کی نئی نسل کے مابین صراط مستقیم پر چلتے ہوئے آزادانہ طور پر اپنے خیالات کے اظہارمیں مدد مل سکے گی۔

’’اس شو میں میری دل چسپی کا باعث جو بات ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا شو رمضان ٹرانسمیشن کے عام فارمیٹ پر مبنی نہیں ہے، جیسا کہ دوسرے چینل پر ہورہا ہے۔ یہ شو سماجی ذمہ داریوں کو اہم خیال کرتا ہے اور اس پر زیادہ بات کرتا ہے‘۔ ‘صنم جنگ نے ’ٹریبیون میگزین‘ کو بتایا ،’’یہ سب صرف مذہب یا محض مادی نوعیت کے معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ کوشش یہ ہے کہ دین اور دنیا میں توازن پیدا ہو سکے اور اس پرپروگرام کے دوران یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ یہ کس طرح ہوگا۔ اس طرح کے پروگراموں میں سنجیدگی کی کمی ہے اور ہمارا شو اس حوالے سے توازن اور صحت مند رجحان کو فروغ دے گا۔‘‘

’’میں رنگ کائنات‘‘ کے عنوان سے اپنے پسندیدہ سیگمینٹ سے متعلق صنم جنگ نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے پدر سری معاشرے میں، ہمیں اپنے بنیادی حقوق بھی مانگنا پڑتے ہیں، ان کے لیے لڑنا پڑتا ہے، اور وہ زندگی جو ہم گزارنا چاہتے ہیں، اس کے لیے احتجاج بھی کرنا پڑتا ہے ۔‘‘

شو کا یہ اہم سیگمینٹ پروفیسر میمونہ مرتضیٰ ملک کا مرتب کردہ ہے، جو 300 صحابیات، پیغمبر اسلام سے وابستہ برگزیدہ خواتین کی جدوجہد اور خدمات کو اجاگر کرتا ہے، جوتبلیغ اسلام کے لیے مشہور ہیں، اور انھیں انقلابی سوچ، جرأت اور دانش مندی کے ساتھ اس معاشرے میں ممتاز ہونے کی علامت کے طور پر سامنے لاتا ہے۔

صنم جنگ نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’’ہم عام خواتین کے بارے میں بات نہیں کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ان خواتین سے متعلق بہت کم جانا گیا ہے، جنھوں نے  اس دور میں بڑی خدمات انجام دیں۔ یہ ہستیاں آرائش و زیبائش کی ماہر ، سرجن اور کیا کچھ نہیں تھیں۔ انہوں نے جنگ میں حصہ لیا، تلوار اٹھائی اور گھڑ سواری بھی کی۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ 1400 سال پہلے، خواتین کو بااختیار بنایا گیا تھا، لیکن آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہمیں اس کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔ یہ اس لیے تعجب خیز ہے کہ آج ہم جس دور میں ہیں وہ دور جہالت بھی نہیں ہے۔‘‘

شو کے ایگزیکٹیو پروڈیوسر سید محسن اقبال نے کہا کہ اس سیگمنٹ کا بنیادی مقصد یہ بتانا ہے کہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین باہر کی نہیں ہیں۔’’اگر ہماری اسلامی تاریخ  کی ان بااثر اور اہم خواتین کو دیکھ کرعلما اور قدامت پسندوں کوبھی ان کی پیروی میں خواتین کوآزادی کی ’اجازت‘ دینے کی ترغیب ملتی ہے، تو یہ ہماری کام یابی ہوگی۔ آئیڈیا  یہ ہے کہ یہ سب مثال بنے اور اس سے راہ نمائی اور آگاہی کا کام لیا جائے۔‘‘

اس سیگمنٹ سے متعلق سید محسن اقبال نے اپنی گفتگو کے اختتام پر کہا کہ گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات اوران کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی خبروں کے سامنے آنے کے بعد ملک میں حقوق نسواں کے حوالے سے مظاہروں کے تناظر میں شو کا یہ سیگمنٹ ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس پروگرام میں نعت خواں، اسکالر اور پروفیسروں سمیت زیادہ تر شرکا خواتین ہیں۔ ہم نے مثال قائم کرتے ہوئے راہ نمائی کرنے کی کوشش کی ہے۔‘‘

رمضان کی نشریات میں یہ بھی ایک انفرادیت قائم ہو رہی ہے کہ اس میں ایک سلسلہ  مستقبل میں بہتر زندگی کے حوالے سے 2015ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے منظور کردہ17 ترقیاتی مقاصد پر ایک مکالمہ ہے، جس ہدف کو 2030ء تک حاصل کرنا ہے۔ اس سیگمنٹ کے حوالے سے سید محسن اقبال نے بتایا  ’وہ آئیڈیا جس میں دنیا میں ہمارا مقام اور ہماری اپنے متعلق ذمہ داریاں  ہیں اور یہ کہ یہ صرف ایک عالمی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ہمارا اپنا مسئلہ بھی ہے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی تناظر میں گفتگو اس پروگرام کا حصہ ہوگی۔

میزبان ذیشان افضل نے کہا کہ ہم اس پروگرام میں رمضان کے حوالے سے بے غرض اور بے لوث جذبے پر بھی بات کریں گے، صنفی مساوات، غربت، تعلیم، ماحول کا تحفظ، پانی اور دیگر قدرتی وسائل  کی کمی اور وہ تمام چیزیں، جو ہمارے معیارِ زندگی کو متاثر کر رہی ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے تبدیلی لانی ہے، اور اس ماہ مبارک میں یہ شعور اجاگر کیا جائے گا کہ یہ صرف ہمارے اپنے لیے نہیں، بلکہ انسانیت کی خدمت ہے۔

بطور بہتری کرنے والے وہ جانتے ہیں کہ کارپوریٹ کس طرح سماج میں مسکراہٹیں بکھیرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اپنے تجربات کے حوالے سے ذیشان افضل نے بتایا  یہاں ہم باقاعدہ کسی بھی مسئلے کے حل کی تبلیغ نہیں کر رہے، لیکن ان مسائل پر ذمہ داریوں کو اجاگر کر رہے ہیں اور اس حوالے سے صرف اسلامی اصولوں میں ہی  کوئی راہ متعین ہوتی ہے۔ ہمارے پاس اس حوالے سے لائف کوچز، موٹیویشنل اسپیکر اور مصر سے تعلق رکھنے والے اسکالر ، این جی اوز کے ڈائریکٹر اور کارپوریٹ آرگنائزیشن ہیں، جن سے ہم ماحول اور توانائی کی دست یابی کے حوالے سے راہ نمائی لیں گے۔

صنم جنگ کہتی ہیں کہ جیسے اس مرتبہ ’یوم مئی‘ رمضان المبارک کے دوران آئے گا، ہم اس حوالے سے مزدوروں کے مسائل اور اس حوالے سے دینی تعلیمات پر خصوصی طور پر بات کریں گے اور ہم چاہیں گے کہ محنت کشوں اور ان کے جملہ معاملات کے حوالے سے ہم ایک جواب دہ اور اچھے انسان بن سکیں۔

’خیر رمضان‘ کے ایک اور سلسلے ’گفت سے کردار تک‘ کو ذیشان افضل ذاتی طور پر پسندیدہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ  ہم اپنے نوجوانوں کو اسٹیج پر مختلف موضوعات پر اظہار خیال کی دعوت دیں گے۔ مجھے نئی نسل سے ایک خاص محبت ہے، کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ یہ ہمارے ملک کا مستقبل ہیں۔ یہ سیگمنٹ عوامی بحث ومکالمے کو فروغ ہی نہیں دے گا، بلکہ اس کے ذریعے نواجوانوں کی آواز قومی سطح پر بھی گونجے گی۔

اس پروگرام میں ایک روح پرور گوشہ ’نعت‘ کے حوالے سے بھی ہے۔ اس کا  مقصد ہمارے عہد کی مشہور ومعروف نعتیں اور ان کی پڑھت اور معانی پر بات کرنا ہے۔ جب ہم نعت کے بارے میں سوچتے ہیںِ ہمارے ذہن میں اس کے سُریلے پن اور نغمگی کی بات آجاتی ہے،  نعت کو اس ترنم سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ محسن اقبال کہتے ہیں کہ ہم نعت کے مترنم مصرعوں  کے ذریعے اپنے رب سے قریب ہوتے ہیں اور غوروفکر کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

صنم جنگ اس سے پہلے بہت سے ٹی وی مذاکروں اور پروگراموں کی میزبانی کر چکی ہیں۔ تاہم اب ’ایکسپریس نیوز‘ پر رمضان کی نشریات کے ذریعے ان کی طویل عرصے بعد ٹی وی کے پردے پر واپسی ہوئی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ  اس حوالے سے بہت زیادہ پرجوش ہیں، ایک تو وہ بطور میزبان دوبارہ ٹی وی پر آئی ہیں، دوسرا ’خیر رمضان‘ کی نشریات کے لیے بہت مثبت خیالات اور امیدیں ہیں اور وہ بہت پرعزم ہیں، اس پروگرام کے سلسلے بھی بہت زبردست اور دین ودنیا کے درمیان متوازن ہیں۔

دوسری طرف پہلی بار کسی رمضان نشریات کا حصہ بننے والے ان کے ساتھی میزبان ذیشان افضل قدرے متذبذب ہیں، انھوں نے اس سے پہلے کبھی کسی ٹی وی پروگرام کی میزبانی نہیں کی۔ وہ کہتے ہیںکہ کارپوریٹ سیکٹر سے میڈیا کی سمت ایک تبدیلی ہے، میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا، لیکن پروگرام کے بھرپور مشمولات نے مجھے خاصا حوصلہ اور اعتماد دیا۔

’خیر رمضان‘ کو دیگر چینلوں کی رمضان نشریات سے متمیز کرنے کے حوالے سے افضل نے کہا کہ  اس پروگرام میں ہم نہ زبردستی آم کھلائیں گے، نہ مفت موٹر سائیکلیں وغیرہ بانٹیں گے، یہاں ہم انٹرٹینمٹ نہیں بیچ رہے، بلکہ اس ماہ مبارک  کے اصل جذبے کو اجاگر کر رہے ہیں۔

صنم جنگ کہتی ہیں کہ اگر وہ اس پروگرام ’خیر رمضان‘ کی میزبان نہ ہوتیں، تب بھی وہ ناظرین سے ضرور کہتیں کہ وہ یہ پروگرام ضرور دیکھیں، اس پروگرام میں بہت سی معلومات ہے، اسے دیکھنے والے دینی ودنیاوی موضوعات پر بہت ساری چیزں جانیں گے، سیکھیں گے اور راہ نمائی لیں گے۔

ہمیں ہر چیز کی راہ نمائی آج سے 14 سو سال پہلے دے دی گئی، جو آج ہم بھول گئے، اب وقت ہے کہ اس راہ نمائی کو دوبارہ یاد کریں۔ یہ پروگرام نوجوانوں کے لیے بطور خاص ہے، اس پروگرام کے ’اہدافی ناظر‘ ہماری نئی نسل ہے، جنھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے، انھیں اپنی بات کہنے کا ذریعہ ملتا ہے اور نہ ہی راہ نمائی کے حوالے سے خاطر خواہ مدد۔ ’خیر رمضان‘ میں صحت مند مکالمے کے ذریعے دونوں چیزوں کو پُر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔