یہ ہے بھارت

پاکستانی قوم کو تو 1947ء سے معلوم تھا بلکہ اس سے بھی پہلے سے کہ اس خطے میں آباد ہندو ہمارا دشمن ہے


Abdul Qadir Hassan March 07, 2014
[email protected]

KARACHI: پاکستانی قوم کو تو 1947ء سے معلوم تھا بلکہ اس سے بھی پہلے سے کہ اس خطے میں آباد ہندو ہمارا دشمن ہے۔ وہ اس سرزمین پر ہمارا وجود گھر میں گھس جانے والے ایک دشمن کا وجود سمجھتا ہے جب کہ ہم یہ سرزمین اپنی بھی سمجھتے تھے اور ہزار برس سے زائد تک یہ ہماری قلمرو اور تحویل میں رہی اور ہم نے اس پر حکمرانی کی۔ ہمارے ایک حکمران کو تو اس لیے اکبر اعظم اور مغل اعظم کہا گیا کہ وہ ہندوؤں کی دلجوئی میں حد سے بڑھا ہوا تھا گھر میں اونچے گھر کی ایک ہندوانی ڈال رکھی تھی اور اس کے اثر میں ہندو کلچر اور مذہب کی بعض رسوم بھی ادا کرتا تھا جو سب غیر اسلامی تھیں لیکن بادشاہ تھا اس لیے سب چلتا تھا لیکن اس کی نسل اور شاہی سلسلے کے بعد میں آنے والے ایک حکمران اورنگ زیب سے اپنے جد امجد کی ان حرکات کی تصحیح کر دی۔ بات اس یاد دہانی سے شروع کی تھی کہ بھارت بلاشبہ ہمارا پڑوسی ہے ہمارے لاکھوں پاکستانی مہاجرین کا اس سرزمین سے گہرا تعلق ہے جسے چھوڑ کر وہ اپنے نئے وطن پاکستان میں آ گئے لیکن یہ ان کا کوئی نیا وطن نہیں تھا اس سرزمین کا حصہ تھا جس پر ہم نے صدیوں تک حکومت کی اور یہاں اپنی جگہ بنائی ہماری کئی نسلیں اس مٹی سے وابستہ ہو گئیں اور یہ ان کا ایسا ہی وطن بن گیا جو یہاں ان سے پہلے آباد ہندو کا تھا بلکہ اس پاکستان کا پہلا شہری تو ہمارے بانی اور قائد کے بقول وہ پہلا مقامی باشندہ تھا جس نے اسلام قبول کیا تھا۔ بہر حال یہ بحث تو جاری رہے گی بلکہ اسے بعض حلقے بوقت ضرورت زندہ رکھیں گے اور پاکستانیوں کو غیر ملکی قرار دیتے رہیں گے لیکن اب ہماری بہت سی تاریخ ایک اٹل حقیقت بن چکی ہے اور بھارت اس تاریخ کو جب بھی موقع ملتا ہے اسے زندہ کرتا رہتا ہے جیسے ان دنوں اس کی جاسوس ایجنسیاں پاکستان میں خطرناک مداخلت کر رہی ہیں مگر ہمارا یہ عیار اور چالاک دشمن اپنی مداخلت کو زیادہ مضبوط اور موثر بنانے کے لیے بیرونی طاقتوں کی مدد بھی لیتا رہتا ہے خصوصاً مسئلہ جب مسلمانوں کا ہو تو مسلمانوں کے دشمن اکٹھے ہو جاتے ہیں اور بھارت کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمیں شروع دن سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ تمہارے مقابلے میں کفر ایک الگ قوم ہے لیکن ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں اور ہماری کمزوری ہمارے حافظے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ ہندو بھارت کے معاملے میں بھی ہم بہت ساری یاد دہانیاں بھول گئے۔ بھارت صرف قبیلہ کفر میں ہی شامل نہیں ہے اس خطے کے خاص حالات میں یہاں کے مسلمانوں کے ساتھ اس کی عداوت کے کئی اور اسباب بھی ہیں جو ہم پاکستانیوں کو خوب معلوم ہیں ویسے ہم انھیں بھول جائیں تو الگ بات ہے۔

اس سے پہلے کہ موجودہ حالات اور بھارت کی تخریبانہ کارروائیوں کا مزید ذکر کیا جائے ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہوں جو ہندوؤں کی تنگ نظری کی ایک دلچسپ مثال ہے۔ بھارت کے ایک دورے پر جانے سے پہلے میں نے ایک کالم لکھا کہ میں بھارت شاپنگ کے لیے نہیں جا رہا میں نے ہندو بنئے سے جو شاپنگ کرنی تھی وہ میں اپنے گاؤں میں بچپن ہی میں کر چکا ہوں۔ اب مجھے شاپنگ کا کوئی شوق نہیں ہے۔ دلی میں مجھ پر یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ بھارت کے تمام اخبارات میں ایک ہی دن میرے اس کالم کے خلاف بلکہ مذمت میں ادارتی نوٹ چھپے ہیں۔ میرے لیے یہ ایک حیران کن اور بالکل غیر متوقع بات تھی کہ ایک عام سے روا روی میں لکھے گئے بے ضرر سے کالم کی اس قدر وسیع پیمانے پر ''پذیرائی'' کی جائے گی۔ ہمارے دوست راجندر سپرین ان دنوں زندہ تھے اور ان کا ادارہ پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کرتا تھا راجندر صدر ضیاء الحق کے بھی باقاعدہ ملنے والے تھے۔ وہ مجھے بھارتی تعلقات عامہ کے ایک افسر کے پاس لے گئے۔ مانی شنکر آئر۔ یہاں پاکستان میں وہ کئی بھارتی سفارتی عہدوں پر کام کرتے رہے پھر وہ سیاست میں آ کر وزیر بھی بن گئے۔

انھوں نے اپنے ٹوٹے پھوٹے دفتر میں جو وزارت اطلاعات میں واقع تھا میرا استقبال کیا اور میں کرسی پر بڑی احتیاط کے ساتھ بیٹھا ورنہ کپڑے پھٹ سکتے تھے اور مجھے بھارت میں شاپنگ کرنی پڑ سکتی تھی۔ میں نے بھارتی حکومت کے ردعمل پر حیرت کا اظہار کیا اور شکریہ بھی کہ میں اس قدر اہم کالم نگار ہوں۔ مانی شنکر صاحب کا پارہ اتر گیا اور انھوں نے مجھے پورے بھارت کی سیر کی پیش کش کی۔ میں نے وقت کی کمی کی وجہ سے شکریہ کے ساتھ معذرت کر دی۔ البتہ ایک بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی کہ ہمارے یہ پڑوسی کتنے چھوٹے ہیں اور کتنے ہی تنگ نظر بھی۔ پاکستانی سرزمین پر پلے بڑھے اور پاکستانی ماحول میں پرورش پانے والے ایک کشادہ دل نوجوان کے لیے یہ تنگ نظری باعث تعجب تھی اور سبق آموز بھی میں نے پاکستان لوٹ کر دوستوں سے اس کا بار ہا ذکر کیا لیکن یہ پتہ چلا کہ بعض لوگوں کے لیے کچھ دوسری ترجیحات بھی ہیں البتہ بھارت نے اپنی یاد دلانے میں کبھی کنجوسی نہیں کی۔ بلوچستان ہو یا آج کی زبردست تخریب کاری بھارت کا ہاتھ بہت واضح ہے۔ پہلے کے حکمرانوں کو تو اس کا علم ہی نہیں تھا اور ہمارے سابقہ وزیر خارجہ رحمن ملک صاحب اسے چُھپاتے رہے البتہ رخصتی کے بعد انھوں نے اعتراف کیا۔ اب سنا ہے ہمارے حکمرانوں کو اس کا پورا احساس ہے اور بھارت ان کو یہ بتانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ وہ کون ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کی دوستی کیسی ہے۔

پاکستان نے ایک میچ جیت لیا اور اس کی خوشی منائی گئی۔ بھارت پاکستان کی اس جیت سے اس عالمی مقابلے سے رخصت ہو گیا۔ کشمیری طلبہ نے بھی فتح کا جشن منایا لیکن بھارت کی حکومت نے انھیں بغاوت کے جرم میں پکڑ لیا بعد میں احتجاج پر انھیں چھوڑ دیا گیا۔ اس پر کشمیری رہنما محترم علی گیلانی نے کہا کہ بھارت یوں تو بڑا ملک ہے مگر اندر سے بہت ہی چھوٹا ہے۔ بھارت کا یہ چھوٹا پن کوئی نئی بات نہیں ہے اندر کے خوف کی وجہ سے وہ اسلحہ کے انبار لگا رہا ہے۔ پاکستان کی میچ میں اس فتح پر بھارت نے تو جو کیا وہ دنیا کی خبروں میں آ گیا لیکن میرے لیے بے حد تعجب اس بات پر ہے کہ ہم نے ان کشمیری طلبہ کو اپنے ہاں حصول تعلیم وغیرہ کی فوری پیش کش کر دی اور ہمارے دفتر خارجہ نے یہ نہیں کہا کہ یہ تو بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے۔ اس تبدیلی پر حکومت کا شکریہ۔

مقبول خبریں