ہماری معاشرتی قدریں

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  ہفتہ 8 مارچ 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

علم و تحقیق سے وابستہ افراد کو ترقی یافتہ ممالک میں بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے یقینا ایسے ہی افراد کی علمی اور تحقیقی کاوشوں نے ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں لاکھڑا کیا بلکہ ترقی یافتہ ممالک کو مزید ترقی کی طرف گامزن بھی کیا۔ ہمارے ہاں ایک تصور یہ ہے کہ سماجی علوم اور ان سے وابستہ علمی وتحقیقی سرگرمیاں رکھنے والے افراد بھی ریاست کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے، حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تصور اس کے قطعی برعکس ہے۔ وہاں یقینا سائنسی ترقی تو بہت ہوئی لیکن سماجی علوم کو بھی برابر اہمیت دی گئی کیونکہ سماج کو درست سمت میں کنٹرول نہ کیا جائے تو سائنسی ترقی بھی انسان کے لیے سودمند ثابت نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ طب اور بزنس و مارکیٹنگ جیسی ڈگری حاصل کرنے والوں کو سماجی علوم بھی لازمی پڑھنے پڑتے ہیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ کے ایک استاد جو سماجی علوم سے وابستہ تھے، پاکستانی جامعہ کو خیرباد کہہ کر امریکا چلے گئے اور تقریباً دو دہائی کے قریب عرصہ امریکا کی مختلف جامعات میں گزارنے کے بعد واپس کراچی شہرکی ایک نجی جامعہ کے رئیس کلیہ سماجی علوم کی حیثیت سے اب اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ان پروفیسر کے پاس امریکی شہریت ہے حصول تعلیم کا بیشتر حصہ بیرون ملک پر مبنی رہا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان سے باہر مغربی ممالک میں حصول تعلیم، درس و تدریس اور وہاں کے معاشرے کے مشاہدے کا ایک وسیع تجربہ ان کے پاس ہے۔ ایک ایسے انسان کی رائے خاص کر پاکستانی مسائل کے بارے میں انتہائی اہمیت کی حامل کہی جاسکتی ہے۔

راقم کو ان پروفیسر کے خیالات جاننے کا ایک سے زائد مرتبہ موقع ملا۔ کئی سیمینار میں ان کے خیالات کو جاننے کا موقع ایک لکھنے والے کی حیثیت سے ایک اہم تحفہ ثابت ہوا۔ پاکستان کے مسائل کے حوالے سے انھوں نے ترقی یافتہ ممالک سے موازنہ کرتے ہوئے مسائل کی نشاندہی کی اور مسئلے کے حل کے ضمن میں رہنمائی بھی فراہم کی۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے اہم مسائل میں دہشت گردی، بنیاد پرستی، فرقہ واریت، شرح خواندگی کی کمی، کرپشن، جاگیردارانہ نظام اور جمہوری نظام کا تسلسل سے نہ چلنا ہے۔ مذکورہ مسائل بھی ان محترم پروفیسر کی نظر میں اہم ہیں۔ تاہم ایک اہم مسئلے کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ یہ اہم مسئلہ کیا ہے؟ یہ اہم مسئلہ ہماری معاشرتی اقدار کی پستی میں چلے جانے کا ہے۔

معاشرتی اقدار کی پستی راقم کی نظر میں ہمارے مسائل کی جڑ میں پیوست ہونے والا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ مندرجہ بالا طویل تمہید کا مقصد یہی تھا کہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں، ایک جہاندیدہ پاکستانی سماجی علوم و سیاسی علوم کا پروفیسر جس کے دل میں پاکستانی معاشرے سے اس قدر محبت ہے کہ وہ مغربی ممالک میں ایک طویل عرصہ گزارنے اور امریکی شہریت رکھنے کے باوجود اپنی عمر کا آخری حصہ اس ملک میں گزارنا چاہتا ہے اور دفن ہونے کی خواہش بھی اسی ملک سے وابستہ رکھتا ہے اس ملک کے اہم مسائل کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔

اب ذرا جائزہ لیجیے کہ ماضی میں ہمارے معاشرے کی کیا اقدار تھیں اور آج یہ قدریں کس قدر بدل گئی ہیں اور ان کے نقصانات کہاں کہاں کیسے کیسے ہو رہے ہیں اور ان سے مزید مسائل نے کیسے جنم لیا؟ مجھے اس وقت اپنے والد مرحوم کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ اب سے کوئی 35 سال قبل اپنا مکان فروخت کرنے کے لیے والد مرحوم کی کسی محلے دار سے بات ہوگئی اور رقم کی ادائیگی و دیگر معاملات کے لیے دو ہفتے کا وقت طے پایا۔ دو دن بعد کسی اور شخص نے زائد قیمت پر مکان خریدنے کی پیش کش کردی۔ والدہ کو جو معلوم ہوا تو انھوں نے والد صاحب سے کہا کہ چونکہ جس شخص سے دو ہفتے بعد رقم کی ادائیگی کی بات ہوئی ہے معلوم نہیں دو ہفتے بعد بھی وہ شخص رقم کا بندوبست کرسکے گا یا نہیں پھر تحریری معاہدہ بھی نہیں ہوا نہ ہی کوئی گواہ درمیان میں ہے لہٰذا دوسرا شخص جو زیادہ رقم میں خریدنے کی پیش کش کر رہا ہے اور فوری ادائیگی بھی کرنے پر تیار ہے اس کو مکان فروخت کردیا جائے۔

میرے والد مرحوم نے والدہ کو جواب دیا کہ انسان کی سب سے بڑی چیز زبان ہوتی ہے اور میں ایک شخص کو مکان فروخت کرنے کے لیے زبان دے چکا ہوں۔ اب کوئی ڈبل سے بھی زیادہ قیمت دینے کو تیار ہو تب بھی میں اپنا پہلا سودا منسوخ نہیں کروں گا۔

یہ ایک مثال صرف میرے والد کی ہی نہیں ان کے دور کے ہر دوسرے شخص کی کہانی ہے کیونکہ یہ اس وقت کی معاشرتی قدریں تھیں کہ ایک انسان منہ سے جو وعدہ کرلے اسے آخری سانس تک نبھاتا تھا۔ یہ قدریں ہمیں درسی کتب میں بھی سکھائی جاتی تھیں مثلاً اردو کی ایک کتاب میں ’’وعدہ‘‘ کے عنوان سے ایک سبق تھا جس میں ایک مسافر کسی دوسرے شہر میں ایک مقدمے میں گرفتارہوجاتا ہے اور اسے قتل کے جرم میں سر قلم کرنے کی سزا سنائی جاتی ہے وہ شخص کہتا ہے کہ وہ سزائے موت کے لیے تیار ہے لیکن اسے کسی کا قرض دینا ہے، لہٰذا ایک دن کے لیے اسے اپنے آبائی علاقے جانے دیا جائے۔ قاضی کہتا ہے کہ اگر کوئی ضمانت لے لے تو اسے اپنے آبائی شہر جانے دیا جائے گا۔ غریب الوطن شخص کا نئے شہر میں کوئی جاننے والا نہ تھا جو ضمانت دیتا۔ مختصر یہ کہ عدالت میں موجود ایک شخص اپنی معاشرتی قدر کے ہاتھوں مجبور ہوکر ضمانت دے دیتا ہے اور سزا یافتہ شخص ایک دن کی مہلت پر واپس اپنے آبائی شہر چلا جاتا ہے۔اگلے روز مقررہ وقت پر سزا یافتہ شخص کا انتظار کیا جاتا ہے اور آخرکار ضمانت دینے والے شخص کا سر قلم کرنے کے لیے جلاد کو طلب کیا جاتا ہے۔ اس موقعے پر ہجوم جو سر قلم ہونے کا منظر دیکھنے کے لیے جمع ہوتا ہے افسوس کا اظہارکرتا ہے کہ سزا یافتہ شخص اب نہیں آئے گا اور ضمانتی شخص کی گردن تن سے جدا کردی جائے گی۔ عین اس وقت جب جلاد تلوار لے کر سر قلم کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے تو مجمع میں شور بلند ہوتا ہے ’’وہ دیکھو! وہ شخص آرہا ہے‘‘۔ بہرکیف سزا یافتہ شخص عین موقعے پر پہنچ جاتا ہے دیر سے آنے کی وجہ بیان کرتا ہے اور کہتا ہے اب آپ میرا سر قلم کر دیجیے! مقتول کے گھر والے جب یہ منظر دیکھتے ہیں تو اس سزا یافتہ شخص کو چھوڑنے پر راضی ہوجاتے ہیں۔

یہ ہماری معاشرتی قدریں ہی ہیں جو انتہائی دگرگوں ہوجانے کے باوجود بھی آج بھی اس معاشرے کو بہت حد تک سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہ معاشرہ محض پولیس کا قانون نافذ کرنے والوں کے ڈنڈے کے زور پر نہیں چل رہا ہے۔ امریکا کے ایک شہر میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن ہوا تو دکانیں، بڑے بڑے اسٹور لوٹ لیے گئے۔ یہاں ہر شب لوڈشیڈنگ کا راج ہوتا ہے مگر کوئی لوٹ مار نہیں ہوتی۔

استاد کی عزت، میرٹ پر فیصلے اور کوئی دیکھے یا نہ دیکھے خدا تو دیکھ رہا ہے جیسا تصور جب تک ہماری معاشرتی اقدار کی جڑوں میں پیوست رہا رشوت، کرپشن اور اسٹریٹ کرائم کا یہاں نام نہ تھا، شہر کراچی میں لوگ آدھی رات کو سڑکوں پہ گھومتے تھے، گھر سے باہر چارپائی ڈال کر، گھر کے دروازے کھلے چھوڑ کر لوگ سو جاتے تھے لیکن جب سے یہ قدریں پستی میں چلی گئیں استاد کی عزت ختم ہوگئی، استاد بھی علم کے فروغ کے بجائے دولت کے حصول میں لگ گیا، ایک چپڑاسی سے لے کر بڑے بڑے اداروں کے سربراہ کی تقرری کے لیے علمیت، قابلیت اور ایمانداری جیسی خوبیوں کو دیکھنے کے بجائے ان کے ریٹ مقرر ہوگئے زیادہ بولی دینے والوں کو مسند پر بٹھایا جانے لگا۔

میرے محترم پروفیسر کا تجزیہ بالکل درست ہے جب معاشرتی اقدار ہی زمین بوس ہونے لگیں تو پھر تعلیم بالغاناور دیگر حربوں سے نہ تو تعلیم کی شرح بلند ہوسکتی ہے نہ ہی بے نظیر اور وزیر اعظم کے نام سے مالی امداد اور قرضوں کی اسکیمیں اس ملک سے بیروزگاری ختم کرسکتی ہیں۔ جب سے قول و فعل کا تضاد معاشرتی اقدار کے برخلاف پروان چڑھا تب سے اس ملک کا امن و سکون بھی تباہ ہوگیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔