تحریک انصاف اور ن لیگ میں حکومتی کارکردگی کا مقابلہ

مسلم لیگ(ن) اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی پرسکون دکھائی نہیں دے رہی ہے۔


March 12, 2014
مسلم لیگ(ن) اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی پرسکون دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ فوٹو : فائل

گیارہ مئی کے الیکشن کے بعد چند ماہ تک یہ تاثر چھایا رہا ہے کہ شاید تحریک انصاف کا سونامی ڈوب گیا ہے اور الیکشن سے قبل پیپلز پارٹی سے بیزار ہونے والا جیالا واپس اپنی پارٹی کی جانب رجوع کر رہا ہے۔

اس تاثر کے پھیلنے کی مختلف وجوہات تھیں، عمران خان طالبان کے حوالے سے کوئی واضح لائن آف ایکشن نہیں دے پا رہے تھے بلکہ ان کی ''پرو طالبان''پالیسی پارٹی کیلئے وبال جاں بنتی جا رہی تھی۔ خیبر پختونخوا حکومت تو تحریک انصاف کو دے دی گئی مگر ہولناک دہشت گردی، سنگین معاشی و سماجی مسائل ، مخلوط حکومت کے روایتی مسائل جیسی رکاوٹوں کو قابو میں کرنے اور عمران خان کے ویژن پر عملی طور پر آگے بڑھنے میں بھی چند ماہ لگے۔ یہ تمام عرصہ ٹی وی اینکرز، رپورٹرز ، سیاسی مخالفین اور خود اپنے کارکنوں کو تحریک انصاف کی اننگز ختم ہونے کی قیاس آرائیوں پر تبصروں کی یلغار کرنے کیلئے کافی تھا۔

مگر اب ایسا دکھائی نہیں دے رہا ہے، ایسا بھی نہیں کہ تحریک انصاف کو جادو کی کوئی چھڑی مل چکی ہے جس سے سارے مسائل، تما م رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں بلکہ 10 ماہ کے بعد پاکستان کا ایک نیا سیاسی منظر نامہ تحریر ہوتا دکھائی دے رہا ہے، سیاست کی شطرنج پر نئی بساط سجائی جا رہی ہے، اندر کی خبریں رکھنے کا دعوی کرنے والے کہہ رہے ہیں کہ طاقتور کو کمزور اور کمزور کو طاقتور بنانے والے خفیہ ہاتھ پھر سے سرگرم ہو چکے ہیںاور اس تمام صورتحال میں اگر کسی سیاسی جماعت کو ''گورنمنٹ ان ویٹنگ'' کہنے کا رسک لیا جا سکتا ہے تو وہ پاکستان تحریک انصاف ہی ہے۔

1947 ء سے اب تک کی سیاسی پیشرفت کا تجزیہ کیا جائے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آج کے حالات میں موجودہ پیپلز پارٹی پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی طرح ہارا ہوا میچ جیتنے کا ''اپ سیٹ''کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ سندھ کارڈ ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ تک ہی محدود ہو چکی ہے۔ تھر میں سینکڑوں بچوں کی ہلاکت نے بھی پیپلز پارٹی کی ساکھ کو ملک بھر میں مزید نقصان پہنچایا ہے ۔ یہ بچے بھوک سے مرے یا کسی بیماری سے مگر یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ حکومت سندھ نے بد انتظامی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم تھر کا معاملہ تو دیکھنا ہی تھا مگر مسلم لیگ(ن) کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے تھر کے سانحے پر اپنی میڈیا ٹیم کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی کارکردگی کو سر بازار آشکار کردیا ہے۔ تھر کے دورے اور اجلاس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور میاں نواز شریف کے درمیان فاصلہ صرف جسمانی لحاظ سے دور نہیں تھا بلکہ وزیر اعظم اور ان کی سیاسی ٹیم کی باڈی لینگوئج بھی یہ ظاہر کر رہی تھی کہ بلاول بھٹو زرداری کی موجودگی ان کیلئے خاص اہمیت نہیں رکھتی۔

اس حوالے سے بہت سے تجزیہ نگاروں نے بھی کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیر اعظم کے ساتھ نہیں جانا چاہیے تھا۔ ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان موجود ''مفاہمت'' کو عملی طور پر عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے یہ فیصلہ کیا ہو مگر سیاست کے کھیل میں اقتدار سے پہلے کی جانے والی مفاہمتیں اقتدار ملنے کے بعد بے اعتنائی اور بے قدری کی ٹھوکروں سے ریزہ ریزہ ہو جاتی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی پرسکون دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ڈالر کی قیمت کو 109 سے کم کر کے 100 روپے پر لانے، توانائی کے متعدد بڑے منصوبوں کے آغاز، چین کے ساتھ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری پر واضح پیش رفت جیسی کامیابیاں ملنے کے باوجود سب سے بڑی رکاوٹ اور خطرہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کی صورت میں موجود ہے۔

حکومت یہ دعوی کر رہی ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملات میں فوج ''آن بورڈ'' ہے مگر دال پوری کالی نہ سہی کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے۔ چند روز قبل ہونے والی کور کمانڈرز کانفرنس کی ان سائیڈ خبروں سے تو کچھ اور ہی معلوم پڑتا ہے۔ یہ بات تو خود حکومتی وزراء بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ فوج کے اندر جونیئر رینک کے افسروں اور فوجی سپاہیوں میں اپنے سابق چیف کے ساتھ ہونے والی صورتحال پر شدید اضطراب پایا جاتا ہے مگر فوج کے سینئر رینکس میں بھی تشویش کے واضح آثار نمایاں ہورہے ہیں ۔ یہی صورتحال تحریک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے ہے۔ کچھ حلقوں کے مطابق فوج مذاکرات کی حامی نہیں ہے اور نا چاہتے ہوئے بھی فوج حکومت کو مذاکرات کا موقع اس لئے فراہم کر رہی ہے تا کہ مذاکرات کی ناکامی میں کسی جانب سے فوج کے عدم تعاون کی آواز سنائی نہ دے۔ اس تمام پس منظر میں تحریک انصاف کا سیاسی کردار بتدریج بڑھ رہا ہے۔

کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے یہ تنقید کی جاتی ہے کہ ابھی تک خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف صرف پالیسیاں بنانے اور اشتہار بازی کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکی اور کوئی ایک میگا پرا جیکٹ آن گراونڈ دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ اس کے برعکس کے پی کے میں عام آدمی صوبائی حکومت سے مکمل نہ سہی لیکن بہت حد تک مطمئن دکھائی دے رہا ہے۔ عمران خان کو معلوم ہے کہ الیکشن میں چار سال پڑے ہیں ابتدائی دو ،ڈھائی سال میں مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف پر تنقید زیادہ اثر نہیں کرے گی مگر 2017 ء سے میڈیا، عوام اور کارکن احتساب کا عمل شروع کردیں گے لہذا تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) دونوں کے درمیان اصل سیاسی معرکہ 2017ء سے ہی شروع ہوگا۔ عمران خان نے طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کر کے اور نیٹو سپلائی کھول کر عالمی طاقتوں کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتری کی جانب موڑ دیا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دو ،تین سال میں پارٹی کو تنظیمی طور پر مضبوط کیا جائے اور انٹرا پارٹی الیکشن کے ڈھول کو گلے سے اتار کر ایک متحرک، سیاسی سمجھ بوجھ کی حامل اور اپنے علاقوں میں اثر انداز ہونے والی تنظیمی قیادت کو سامنے لایا جائے۔

پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین بلا شبہ بہت محنت کر رہے ہیں اور انہوں نے بہت سے بگڑے ہوئے معاملات کو سدھارا بھی ہے مگر عمران خان اور جہانگیر ترین کیلئے پنجاب اور سندھ میں تحریک انصاف کو مضبوط بنانے کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنا ہوں گے، پنجاب میں انھیں میاں شہباز شریف جیسے متحرک وزیر اعلیٰ کا سامنا ہے اس لئے یہاں زیادہ محنت کرنا پڑے گی ۔ پی ٹی آئی کا ورکر تو آج بھی پر امید اور پر عزم ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عام پاکستانی کے دل میں بھی تحریک انصاف کیلئے جگہ وسیع ہوتی جا رہی ہے اور اب یہ آوازیں زیادہ شدت سے سنائی دے رہی ہیں کہ آئندہ الیکشن میں اقتدار کا مقابلہ ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہی ہوگا جس میں دونوں جماعتوں کو اپنی کارکردگی پیش کر کے ووٹ لینا ہوں گے۔

مقبول خبریں