پاکستان میں دو آئین نہیں چلیں گے،عدالتی اصلاحات کیلیے پارلیمانی کمیٹی کا قیام ضروری ہے، بلاول بھٹو

ثاقب ورک  بدھ 27 جولائی 2022
فوٹو فائل

فوٹو فائل

 اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اب پاکستان میں دو آئین بالکل نہیں چلیں گے، پارلیمنٹ کی کمیٹی بنائی جائے اور ہم فیصلہ کریں کہ کتنے ججز بیٹھیں گے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ یہاں دو پاکستان ہیں، پہلے نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی رضامندی کے بغیر رکن کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا پھر دوسرے میں کہا گیا کہ رکن کا ووٹ شمار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری زمہ داری ہے کہ ہم پارلیمنٹ کے کردار کا دفاع کریں، ان کا کام نہیں کہ وہ (عدالت) آئین میں ترمیم لیکر آئیں، اس مسئلے کو جب تک ہم حل نہیں کریں گے پاکستان جمہوری ملک نہیں بنے گا۔ بلاول نے کہا کہ جس طرح عدالت نے حکومت کا مطلب کابینہ کہا، اُسی طرح سپریم کورٹ صرف چیف جسٹس نہیں بلکہ تمام عدالت ہے، جس کا کام انصاف پر مبنی فیصلے اور قوانین پر عمل درآمد کروانا ہے۔

بلاول بھٹو کا عدالتی اصلاحات کیلیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ

وفاقی وزیر خارجہ نے مطالبہ کیا کہ ’اب وقت ہے کہ عدالتی اصلاحات کیلیے پارلیمنٹ کی کمیٹی بنائی جائے اور ہم فیصلہ کریں کہ بینچ میں کتنے ججز بیٹھیں گے، اعلی عدلیہ فیصلہ سناتی ہے تو بسم اللہ، لیکن تمام ججز کو بیٹھنا پڑے گا‘۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ چار سال کے جمہوری معاشی بحران کو تین ماہ میں حل کردیا جائے، پچھلی حکومت کی طرح ہم جھوٹ نہیں بولیں گے، ہمیں اپنا کام متحد رہتے ہوئے ڈٹ کر کرنا پڑے گا،  جو جمہوریت کے خلاف آئین شکنی ہوئی ہے اُس کے خلاف یہ ایوان کام کرے، اگر ہم یہ کام نہیں کرسکتے تو اس اسمبلی کو تالا لگائیں۔

مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز بنے یا پرویز الہیٰ بنے، بلاول بھٹو

انہوں نے کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ ہم آئین کا دفاع کرنے کیلئے قانون سازی کریں، آج ہی عدالتی اصلاحات کیلئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے، 1973 کا آئین بنانے کیلئے ہمیں 30 سال لگے، اس آئین کو توڑنے کا وقت آیا تو سارے ادارے ملوث تھے، پھر أئین کی بحالی کیلئے ہمیں تیس سال جدوجہد کرنا پڑی، شہید بے نظیر بھٹو نے اسی آئین کی بحالی کیلئے شہادت حاصل کی، ہم نے اپنی حکومت میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعہ آئین بحال کیا، اس تاریخی کامیابی کے بعد اس کے بعد صدر کے آمرانہ اختیارات واپس لیے اور میثاق جمہوریت پر دستخط کیے، یہ تمام اقدامات سپریم کورٹ، عوام اور میڈیا کے آزادی کے لیے تھے‘۔

مزید پڑھیں: لڑیں گے مریں گے مگر شکست نہیں مانیں گے، وزیراعظم

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’افسوس کے ساتھ ایک گروہ پیدا ہوا تاکہ وہ کنٹرولڈ جمہوریت چلا سکے ، آئین کے آرٹیکل 58/ ٹو بی کا اختیار اب عدالت کے پاس چلا گیا ہے جبکہ پہلے یہ اختیار صدر کے پاس تھا، ہر روز عوام کے مینڈیٹ اور منتخب ایوان پر حملہ ہوتا رہے، افتخار چوہدری نے کسی کے ہاتھوں میں آکر ایسے فیصلے دیئے جو آئین اور قانون کے مطابق نہیں تھے‘۔

بلاول کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلی بار اپنی مدت پوری کی اور اقتدار منتقل کیا، سموسے اور آلو کی قیمت کے فیصلے کورٹ روم نمبر ایک میں ہوتے تھے، میثاق جمہوریت پر جو کام رہ گیا ہے وہ عدالتی اصلاحات کا ہے، ہم نے آئینی کورٹ بنانا تھی اور ججز کے اختیارات کا تعین کرنا تھا، اس ایوان کو اور وزیراعظم کو دھمکی دی گئی کہ ججز کو اختیارات دو ورنہ اٹھارویں ترمیم اڑادیں گے، ہمیں کہا گیا کہ انیس ویں ترمیم پاس کرو اور ہم نے بڑی غلطی کر کے اس 19ویں ترمیم منظور کی، اس وقت کی اپوزیشن اس میں خوش تھی۔

وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ایک بار پھر ہم نے دیکھا کہ آئین کے فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے، اس دور میں عدالت کا کردار ٹھیک نہیں تھا۔ دو تہائی اکثریت والے وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا، اُس وزیراعظم کے سینیٹرز کو أزاد قرار دیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا سپریم کورٹ کے اختیارات پر قانون سازی کا فیصلہ

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’کیا یہ ممکن ہے کہ اب ایک رات کی نیوٹریلٹی سے 70 سال کے گناہ معاف ہو جائیں، اب وقت آگیا ہے کہ ہم آئین کے دفاع کے لیے قانون سازی کریں‘۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ سنایا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور پنجاب کے وزیراعلی کے بارے میں تھی، تمام سیاسی جماعتیں اس معاملے پر کھڑی تھیں کھڑی ہیں، ہم کسی کو ایکس وائی کرکے ڈرا نہیں رہے تھے بس فل کورٹ کا مطالبہ کررہے تھے، پچھلی حکومت میں عدم اعتماد کے دوران ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئی تب بھی میرا مطالبہ فل کورٹ کا تھا‘۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔