’’ہیں گے‘‘

سعد اللہ جان برق  جمعرات 18 اگست 2022
barq@email.com

[email protected]

ہمارے پیارے پیارے راج دلارے ہمہ وقت وارے نیارے اورچاند تارے صوبے کے پی کے عرف خیرپخیرکے صوبیداراعلیٰ ان دنوں ’’چومکھی‘‘ لڑائی لڑرہے ہیں، انھوں نے نہ صرف سارے ’’ہیں گے‘‘ کام پر لگائے ہوئے ہیں جو روزانہ دس بارہ ’’ہیں گے‘‘ لانچ کررہے ہیں اورخود بھی ہرقسم کے ’’ہیں گوں‘‘ سے لیس ہو کر دے دھنادھن کررہے ہیں ۔ چنانچہ تازہ ترین ’’ہیں گے‘‘ ان کا یہ ہے کہ

’’حضرت عمرؓکی طرزحکومت مشعل راہ ہے۔‘‘

اس سے پہلے بھی ’’ہیں گے‘‘ چھوڑنے میں کچھ کم نہ تھے لیکن اب تو اپنے تمام تر امینوں اورصادقوں سمیت پورے صوبے میں پھیل گئے ہیں۔ گویا سارا صوبہ نورہی نورہورہاہے ۔ہمارا خیال تھا جو بالکل ہی ’’خام‘‘ نکلا کہ اتنی بڑی ٹھوکر کھانے کے بعد ان کوتھوڑا بہت احساس ہوگیا ہوگا کہ مقدس ہستیوں کے نام لے کر جھوٹ اور سیاست کا جو کام انھوں نے شروع کیاتھا اور اب بھی کررہے ہیں، اب وہ اپنی اس نادانی پر توبہ تائب ہوکر کفارہ ادا کرنے کا سوچ رہے ہوں گے لیکن ایسا کرنے کے بجائے وہ کچھ اوربھی تیز ہوگئے۔

اورثبوت میں ہمارے صوبے دار اعلیٰ کایہ بیان ہے کہ حضرت عمرؓکی طرزحکومت مشعل راہ ہے، ویسے ہمیں بیان میں کچھ کتابت یاکمپوزنگ کی غلطی بھی محسوس ہورہی ہے، شاید اصل میں وہ کچھ اور بیان ہو، لیکن ہم تو وہی سمجھیں گے جو لکھا ہے اورلکھا یہ ہے کہ ان کاارادہ کیاہے ،ویسے ہم صوبہ کے پی کے عرف خیرپخیرکے لوگ بڑے خوش بخت ہیں کہ پوری ریاست مدینہ ہمارے ہاں ہجرت کرکے آگئی ہے اورہمیں ’’انصار‘‘ ہونے کی سعادت بخش دی ہے۔

مسئلہ ہماری خوش بختی کاہے، ویسے ہم سوچ رہے ہیں کہ شاید اس میں ’’ہم‘‘ یعنی اہل صوبہ کی خوش قسمی یا روایت کو دخل ہو، کیوں کہ ہمارے اندر ’’انصار‘‘ بننے کا شوق کوٹ کوٹ کربھراہواہے اورجہاں سے بھی کوئی مہاجرآتا ہے، ہم بنے بنائے انصار اسے اہلاًوسہلاً و مرحبا کے لیے تیارکھڑے ہوتے ہیں۔جیسا کہ اب بھی ہو رہاہے کہ صوبے میں فلاحی طرزحکومت لانچ کر دی گئی ہے اور’’ہیں گے‘‘ کو ہدایت کردی گئی ہے کہ کام پر لگ جاؤ اوروہ لگ چکے ہیں اورلگاتار ’’ہیں گے‘‘ چھوڑ رہے ہیں، ہرصبح ’’ہیں گے ’’ ہر شام ’’ہیں گے‘‘ اپنا تو ہے کام ہیںگے۔

اب جب ہمارے پیارے پیارے صوبے میں فلاحی طرزحکومت لانچ ہوچکی ہے تو ظاہر ہے کہ اسے ثابت بھی کیاجاناضروری ہے چنانچہ تمام ’’ہیں گے‘‘ اپنے بڑے ’’ہیںگے‘‘کے ساتھ رات کو گلیوں میں گشت کرکے کوئی ایسا گھر تلاش کریںگے جہاں  بھوک سے بچے بلک رہے ہوں اور ماں بے بسی سے انھیں دیکھ رہی ہو۔ لیکن پرابلم یہ ہے کہ موجودہ ’’ہیںگے‘‘کی حکومت میں نہ تو کوئی ایسا گھر ہے اور نہ کوئی بھوکا بچہ اور اس کی ماں تلاش کی جاسکتی ہے کہ ہر ہر گھر میں پہلے سے سب کچھ پہنچایاجاچکاہے۔

چنانچہ بندوبست یہ کرنا ہوگا کہ منظر بنانے کے لیے کسی ماڈل کوہائر کرکے چائلڈ اسٹاروں کے ساتھ کسی گھر میں سارا ایکٹ تیار کرنا ہوگا۔وہ عورت مخصوص ڈائیلاگ بول کر اور ہانڈی میں ڈوئی چلاکر پرفارم کرے گی، بچے کسی ’’ہیں گے‘‘ کے لکھے ہوئے ڈائیلاگ بولیں گے اورپھر بڑے ’’ہیں گے‘‘ کو دکھایاجائے گا کہ کھانے پینے کا سامان کاندھے پر اٹھائے انٹری دے گا یہاں ایک پر شور گائیک کے ساتھ تمام ’’ہیں گے‘‘ مل کر قوالی گائیں گے۔

ہم پرورش’’ہیں گے‘ہیں گے‘‘کرتے رہیں گے

جو کچھ بھی لگے ہاتھ ہضم کرتے رہیں گے

ایسا ہی ایک اورمنظر بھی تخلیق کیاجاسکتاہے جب ’’ فلاحی امیر‘‘ جس کے بارے میں سوال اٹھایا جائے گا کہ پہلے تو تم بازاروں میں یونہیں جوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے، اب لمباچوڑا پروٹوکول ، محافظوں کی فوج، راستوں میں ڈھیرساری پولیس فورس، یہ کانٹے دار تار اوراونچی اونچی دیواریں کیوں؟تووہ جواب دینے کے لیے ایک ’’ہیں گے‘‘ کو آگے کرے گا اور’’ہیں گے‘‘ نہایت ڈھٹائی سے زندہ باد کے شورمیں اس سوال کوجھٹکا کر امیر الصالحین کا قصیدہ پڑھنا شروع کردے گا، ایسے ہی اوربھی کئی مناظر تخلیق کیے جاسکتے ہیں جس میں ماہر ’’ ہیں گے‘‘ لوگ ثابت کریں گے کہ اس وقت ہم فلاحی طرزحکومت کے مزے لے رہے ہیں، نہ کہیں نوکریاں بیچی جارہی ہیں، نہ مینڈیٹ کے ہاتھوں میرٹ کاگلاگھونٹا جارہاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔