عوامی مورخ

ڈاکٹر توصیف احمد خان  جمعرات 18 اگست 2022
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کراچی پریس کلب کا پریس کانفرنس ہال بھرا ہوا ہے۔ کچھ لوگ ہال میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ باہر کھڑے ہیں۔ 5 اگست کو کراچی میں موسم خاصا گرم تھا مگر کراچی پریس کلب کے مرکزی دروازہ سے لوگ آتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ سعید جان بلوچ سخت پریشان ہیں۔

ابھی کچھ مقررین راستہ میں ہیں۔ چار بجنے میں تو ابھی کچھ دیر ہے۔ یہ سب لوگ صرف صحافی ہی نہیں ، انسانی حقوق کی تحریک سے وابستہ بہت سے افراد بھی ہیں، کچھ مختلف غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے والے کارکن ہیں، بہت سے نوجوانوں کا تعلق ادب اور شاعری سے ہے۔ اس ہجوم میں کتابیں شائع کرنے والے اور کتابیں فروخت کرنے والے بھی شامل ہیں۔

خواتین کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ یہ سب لوگ اختر بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ ان افراد میں اختر بلوچ کی ہمشیرہ نصرت ، ان کی بیٹیاں خدیجہ اور بیٹا اور چند قریبی رشتہ دار شامل ہیں۔ صوبائی وزیر محنت سعید غنی وقت سے پہلے جلسہ میں پہنچ چکے ہیں۔

راقم الحروف 1980 میں کراچی پریس کلب کا رکن بنا۔ میں نے بہت سے تعزیتی جلسوں میں شرکت کی اور بہت سے جلسوں کو منظم کرنے والوں میں شامل رہا مگر کراچی پریس کلب کے ایسوسی ایٹ رکن کے کسی تعزیتی جلسہ میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اتنے بڑے ہجوم کو نہیں دیکھا۔ کچھ افراد تو اختر بلوچ کے آبائی شہر میرپور خاص سے اس تعزیتی جلسہ میں شرکت کے لیے آئے تھے۔

اختر بلوچ میرپور خاص میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق متوسط طبقہ کے ایک خوشحال قدامت پرست خاندان سے تھا۔ اختر بلوچ کی والدہ ذات پات، مذہبی امتیاز کو ناپسند کرتی تھیں۔ وہ چھوٹی ذات کی ہندو خواتین، مسلمان غریب عورتوں اور ٹرانس جینڈر سے اچھے سلوک کی روا دار تھیں۔ اختر بلوچ کی ہمشیرہ نصرت نے اس تعزیتی جلسہ میں کہا کہ ’’ ہماری والدہ کی تربیت تھی کہ غرباء کا احترام کیا جائے۔‘‘

ان کی یہ عادت اختر اور ان کی ہمشیرہ کے دماغوں کو روشن کر گئی۔ اگرچہ میرپور خاص کے بلوچوں کے قدامت پرست خاندان سے اختر کا تعلق تھا مگر ان کی ہمشیرہ نصرت کہتی ہیں کہ ’’ اختر نے ان کے ساتھ بھائی سے زیادہ دوست کی حیثیت سے زندگی گزاری اور نصرت پر کوئی روایتی پابندی عائد نہیں کی۔‘‘ اختر کی حوصلہ افزائی سے نصرت نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ نصرت کی شادی چھوٹی عمر میں ہوئی تو اختر نے مسلسل نصرت پر زور دیا کہ ’’ وہ اپنی تعلیم مکمل کرے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ اختر کے تمام دوستوں سے نصرت واقف تھی اور بقول یہ دونوں بہن بھائی ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے نظر آتے۔ دوسرا سننے اور دیکھنے والا یہ بھی محسوس کرتا تھا کہ بھائی بہن دور ہیں مگر بقول نصرت اختر ان کا دوست تھا۔

اختر بلوچ نے اپنی بیٹیوں کو مکمل آزادی دی۔ ان کی ایک بیٹی نے کراچی یونیورسٹی کے visual  اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ سے گریجویشن کی۔ ان کی صاحبزادی خدیجہ نے بتایا کہ جب وہ اپنا تھیسز کررہی تھیں تو ان کے سپروائزر کو کراچی کی تاریخ کے بارے میں مستند شخصیت کی رائے کی ضرورت پڑی۔ خدیجہ نے اپنے سپر وائزر کو بتایا کہ اس نے ایک مستند شخص کو تلاش کر لیا ہے۔ ان کے سپر وائزر نے جواب میں کہا کہ انھیں ایک مستند ریفرنس مل گیا ہے۔ جب استاد اور شاگرد نے نام ظاہر کیا تو یہ اختر بلوچ تھے ، جو کراچی کی تاریخ کا مستند حوالہ تھے۔

اختر نے ابتدائی تعلیم میر پور خاص میں حاصل کی۔ انھوں نے شاہ لطیف کالج میرپورخاص سے انٹر سائنس کیا۔ ان کا شوق سیاست ، حالات حاضرہ اور ادب تھا ، شاید والد کے دباؤ پر سائنس کی تعلیم حاصل کی ۔ 80ء کی دہائی سندھ میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ تھی۔ اختر بھی جنرل ضیاء الحق کے خلاف چلائی جانے والی جمہوریت کی بحالی کی تحریک سے متاثر ہوا اور نوجوانی میں انھیں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں ، بعد ازاں حیدرآباد آگئے اور صحافت کا شعبہ اختیار کیا۔

حیدرآباد میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے سابق رہنما شکیل پٹھان کی قیادت میں ایچ آر سی پی میں شامل ہوئے۔ معروف صحافی حسین نقی کی شاگردی میں آگئے۔ نقی صاحب نے اختر بلوچ کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اختر آئی اے رحمن اور عاصمہ جہانگیر کی شخصیتوں سے بھی متاثر ہوئے۔ 90ء کی دہائی میں اندرون سندھ بونڈ لیبر اور جبری بگار کے کیمپ موجود تھے۔ ایچ آر سی پی کی ٹاسک فورس نے شکیل پٹھان کی قیادت میں ان بگار کیمپوں کے خلاف مہم شروع کی۔ اختر بلوچ اس ٹیم میں شامل تھے جو بگار کیمپوں پر چھاپہ مارکر ہاریوں کو آزاد کراتی تھی۔

اس وقت اس ٹیم نے منو بھیل نام ہاری کو آزاد کرایا تھا جس کے بیوی بچے ایک وڈیرہ نے لاپتہ کر دیے تھے۔ اس وڈیرہ کی سرپرستی سندھ کے سب سے بڑے پیر خاندان کے سربراہ کر رہے تھے۔ ایچ آر سی پی نے منو بھیل کے ساتھ یکجہتی کے لیے بھرپور مہم چلائی تھی۔ اختر بلوچ ایچ آر سی پی سندھ کے کوآرڈینیٹر تھے۔

حیدرآباد میں کمیشن کا دو سالہ اجلاس عام جاری تھا کہ نامعلوم افراد نے اختر بلوچ کو اغواء کیا، یوں اختر بلوچ کا نام لاپتہ افراد کی پہلی فہرست میں شامل ہوا۔ دو دن بعد اختر کو رہائی میسر آئی۔ اختر بلوچ کراچی منتقل ہوئے۔ اختر بلوچ کا شوق پرانی کتابیں جمع کرنا اور ان کا مطالعہ کرنا تھا۔ یوں وہ تحقیق کی طرف راغب ہوئے۔

کراچی کے قدیم مقامات کے بارے میں ان کے بلاگ ایک انگریزی اخبار کی ویب سائٹ پر  شائع ہونے لگے۔ اس صدی کے آغاز کے چند برسوں میں کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں بہت اضافہ ہوا۔  کراچی میں کئی مقامات پر پرتشدد ہجوم نے مبینہ ملزموں کو زندہ جلادیا، اختر نے ان واقعات پر تحقیق کی۔ تمام تر حقائق جمع کیے اور ہجوم کے انصاف کے تناظر میں بہت سے حقائق سامنے آئے۔ یہ تحقیق ان کی پہلی کتاب میں شائع ہوئی۔ اس تحقیق سے پتہ چلا کہ بعض واقعات میں بے گناہوں کو سزا دی گئی۔ ان کی معرکتہ الآراء کتاب ٹرانس جینڈر کے بارے میں شائع ہوئی۔ اردو کی اس موضوع پر یہ پہلی تحقیق تھی۔

کراچی کے تاریخی واقعات کے بارے میں ان کی ایک اور کتاب ’’ کرانچی والا ‘‘ شائع ہوئی۔ اردو میں عوامی تاریخ تحریر کرنے کا آغاز کرنے والے مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے اختر کو عوامی مورخ کا خطاب دیا تھا۔ اختر بلوچ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے تمام مراحل طے کر لیے ۔ بھارت کے شہر ممبئی سے تعلق رکھنے والے ایک ریفری کی رپورٹ آنے میں دیر ہوئی۔ اختر بہت زیادہ انتظار نہیں کرسکے۔

اختر پریس کلب میں ہونے والی محفلوں اور ایچ آر سی پی کے اجلاسوں کی جان ہوتے تھے۔ پریس کلب میں ایک محفل میں یہ سوال اہمیت اختیار کرگیا کہ ریگل اور فریئر ہال میں پرانی کتابوں کے اسٹالوں پر پرانی کتابیں اچانک کہاں گئیں۔ اس پر اس دن تو اختر بلوچ نے کوئی جواب نہ دیا مگر چند دنوں بعد پریس کلب میں بحث پروان چڑھی تو اختر نے اپنی تحقیق سے بتایا کہ وہ پرانی کتابوں کے دکاندار بوڑھوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ ان کی خیریت معلوم کرتے رہے ہیں۔

گھر والوں کے بارے میں پوچھتے رہے ہیں۔ اب اگر کوئی بوڑھا شخص مہینہ دو مہینہ نہیں آتا تو دکاندار یہ اخذ کرتے ہیں کہ موصوف اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے ہونگے اور ان کے لواحقین کتابوں کو ٹھکانے لگانے کی تدبیر پر غور و فکر کرتے ہونگے۔ دکاندار اس بوڑھے شخص کے گھر پہنچ جاتے ہیں، اگر واقعی موصوف کے انتقال کی خبر حقیقت پر مبنی ہو تو پھر ان کے بچوں سے رابطہ کرتے ہیں اور نادر کتابوں پر مشتمل پوری پوری لائبریری ان کے ہاتھ لگ جاتی تھی ۔

اختر بلوچ نے میوہ شاہ کے قریب یہودیوں کا قدیم قبرستان بھی تلاش کیا۔ ایچ آر سی پی کے قائم مقام چیئر پرسن اسد اقبال بٹ کہتے ہیں کہ لاہور میں ایچ آر سی پی کے اجلاسوں کے موقع پر شام کو تعزیتی پروگراموں میں ملتان سے راشد رحمنٰ اور کراچی سے اختر بلوچ سب سے زیادہ سرگرم ہوتے تھے۔ راشد رحمن کو نامعلوم افراد نے قتل کیا ، اختر بلوچ اچانک دنیا چھوڑ گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔